نومبر 24, 2024

تحفظ ناموس کے نام پر ایک مسلک کو نشانہ بنانے کا قانون

تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

دنیا بھر میں قانون سازی ایک طویل مکالمے کے بعد ہوتی ہے۔ اگر کسی خاص فریق کے حق یا اس کو متاثر کرنے والی قانون سازی کی جا رہی ہو تو اسے سنا جاتا ہے اور اس کے تحفظات کو دور کیا جاتا ہے۔ کسی بھی سطح پر یہ تاثر قائم نہیں ہونے دیا جاتا کہ قانون اس کمیونٹی کے حقوق اور آزادیوں کو سلب کرنے کے لیے بنایا جا رہا ہے۔ یہ فاشسٹ طریقہ ہوتا ہے کہ اکثریت گردی کے ذریعے کسی کمیونٹی کے حقوق کو دبا لیا جائے۔ آج انڈیا میں یہی ہو رہا ہے کہ وہاں کشمیر کے آرٹیکل ۲۷۰ کے خاتمے سے لے کر ٹرپل طلاق تک میں مسلمانوں کی رائے کو نظر انداز کیا گیا ہے اور مسلم سماج کو ٹارگٹ کیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے وطن عزیز میں بھی کل ہماری سینیٹ میں یہی کچھ ہوا ہے۔ کسی بھی مرحلے پر یہ ضروری خیال نہیں کیا گیا کہ جس کمیونٹی کے خلاف یہ قانون سازی کی جا رہی ہے یا جو کمیونٹی اس قانون سے سب سے زیادہ متاثر ہوگی، اس کو بلا کر ان کی رائے لے لی جائے۔

ریاست کی طرف سے سوتیلے پن کا سلوک احساس محرومی کو جنم دیتا ہے، ویسے بھی پچھلے چند سال سے آئینی اور انسانی حقوق کو معطل کیا جا رہا ہے اور گھر کے اندر چاردیواری میں ہونے والی مجالس پر ایف آئی آرز کی جا رہی ہیں۔ میں اپنے ریاستی اداروں سے دست بستہ گزارش کروں گا کہ وہ دیکھیں اس بار مقبوضہ کشمیر میں عزاداری کے جلوسوں سے پابندیاں ہٹا دی گئیں ہیں، مقبوضہ کشمیر کی انتظامیہ عزاداروں کے لیے سبیلیں لگا کر خدمت کر رہی ہے اور وطن عزیز میں ہمارے جوانوں کو اس لیے گرفتار کیا جا رہا ہے کہ وہ ممکنہ طور پر گھر میں مجلس عزا کروا سکتے ہیں۔ پاکستان کو سب کے لیے برابر کے حقوق مہیا کرنے والا ملک بنانا ہوگا۔

سزا بڑھا کر کسی جرم کو روکنے کا تصور ہی دنیا میں بوسیدہ ہوگیا ہے۔ اب دنیا اس سمت جا رہی ہے کہ کسی بھی طرح کے جرم کو روکنے کے لیے سزا کی بجائے تربیت کے پہلو کو مدنظر رکھا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک میں جرائم کو اس طریقہ کار سے کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ قتل کرنے پر سزائے موت رکھی گئی ہے، مگر پھر بھی لوگ قتل کرتے ہیں اور سزائے موت بھی پا جاتے ہیں۔ ہم اس پر بار بار لکھ چکے ہیں کہ یہ قانون جہاں ایک بڑی کمیونٹی کے انسانی حقوق کے خلاف ہے، وہیں یہ بل فرقہ واریت کی بنیاد بنے گا۔

یہ بل شریعت کے بھی خلاف ہے۔ اس پر علمی کام کرنے کی ضرورت ہے، لوگوں نے حضرت عثمان کو بہت کچھ کہا، مگر آپ نے اپنی توہین پر کسی کو کوئی سزا نہیں دی۔ اسی طرح خوارج نے حضرت علیؑ کو کافر اور جانے کیا کیا کہا؟ مگر حضرت علیؑ نے کسی کو اس بات پر سزا نہیں دی کہ اس نے کافر کہہ دیا ہے۔ یہ بات بڑی واضح ہے کہ شریعت کے نام پر اتنی بڑی سزا دینے کی مستحکم دلیل درکار ہوگی۔ اس وقت یہ بات اور بھی سنگین ہو جاتی ہے، جب پاکستان میں بات بات پر اپنی فہم شریعت کے خلاف رائے کو توہین قرار دے دیا جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر مسالک کے اکابر نے کفر اور گستاخی کے فتوے دیئے ہوئے ہیں۔

اس قانون میں بہت ہی خطرناک باتیں ہیں، اس میں گستاخی کی تعریف نہیں ہے کہ آخر گستاخی کسے کہتے ہیں؟ ہونا تو یہ چاہیئے کہ یہاں آئین پاکستان کے مطابق اختلاف کی صورت میں ہر مسلک کی اپنی تشریح قابل قبول ہو۔ گستاخی کی ہر مسلک کی تعریف اس مسلک کے ماننے والے پر لاگو کی جائے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ  کسی اہلحدیث پر بریلوی اور کسی دیوبندی پر شیعہ اصولوں کے مطابق گستاخی کی تعریف لاگو کرکے اسے سزا دی جائے۔ بات بھی اہم ہے کہ مسالک کے عقائد و نظریات میں فرق ہے۔ شیعہ حضرت ابو طالبؑ کو محافظ رسولﷺ مانتے ہیں اور ایمان کی معراج پر فائز سمجھتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ وہ کافر ہیں، اب اگر دوسرے عقیدے والے حضرت ابو طالبؑ کو کافر لکھتے ہیں تو کیا اب شیعہ حضرات کو یہ حق حاصل ہو جائے گا کہ وہ ایسے لوگوں کے خلاف اس قانون کے مطابق کارروائی کروائیں۔؟

اسی طرح بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ تاریخی واقعات کو بیان کرنا ہی نہیں چاہیئے، جنگ صفین اور جنگ جمل کو جیسے ہوئیں، ویسے بیان کرنا ہی توہین ہے۔بہت سی میٹنگز میں جانا ہوتا ہے، وہ صحیح بخاری کی احادیث پڑھنے پر بھی تحفظات رکھتے ہیں، بالخصوص حدیث حضرت عمارؓ کہ اسے بیان نہ کیا جائے۔ اب تو ایک یزیدی طبقہ پیدا ہوچکا ہے، جو یزید کو تابعی مانتے اور بڑا تقدس دیتے ہیں تو اب کیا یزید کو بھی ایمان کا حصہ ماننا ہر ایک کے لیے ضروری ہوگا اور نواسہ پیغمبرﷺ کے قاتلین سے بیزاری جرم قرار پائے گا۔؟

یہ بات بغیر کسی لگی لپٹی کہنا چاہتا ہوں کہ کیا اب حضرت علیؑ کی خلافت بلافصل کو دلائل سے ثابت کرنا کسی دوسرے کی توہین ہوگا؟ کیا اب شہادت حضرت فاطمہؑ پڑھنا جرم بن جائے گا۔؟ کیا اب حضرت امام حسنؑ کی شہادت اور تدفین کے واقعات قابل ایف آر ٹھہریں گے۔؟ کیا اب حضرت ابوذر غفاریؓ کی جلاوطنی اور ان کی کسمپرسی میں موت کا بیان بھی مقدمے کو جنم دے گا۔؟ یاد رہے کہ عالم اسلام کے سب سے بڑے دو مراجع آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی حسینی سیستانی اور آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای دام عزھما مقدسات کی توہین کو حرام قرار دے چکے ہیں۔ توہین کو روکنے کا بہترین طریقہ احترام متقابل ہے، اپنے عقائد کو دوسرے پر ٹھونسنے اور اکثریت پسندی کے مظاہرے سے فرقہ واریت جنم لیتی ہے۔

ناموس وغیرہ پر بل پہلے سے موجود ہیں اور اچھی خاصی سزا بھی موجود ہے۔ صرف ووٹ کی سیاست کے لیے ایک مسئلہ کو فرقہ وارانہ انداز میں اٹھایا گیا ہے۔ اسے اٹھانے والی جماعت اسلامی ہے، ہمارے دوستوں اور ہمیں خوش فہمی تھی کہ جماعت ایسے مسائل میں نہیں الجھتی، مگر جماعت اب انہی مسائل میں الجھ چکی ہے۔ یہ بات جماعت کے رہنماوں سے کی گئی تھی تو ان کی طرف سے کہا گیا کہ یہ انفرادی معاملہ ہے۔ اس وقت بھی کہا تھا کہ جماعت کے نظام کو سمجھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ ایسا جماعت کی منظوری کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ سینٹ میں منظوری کے وقت سینیٹر مشتاق احمد کے کردار نے یہ بات واضح کر دی کہ یہ جماعت کا ڈرافٹڈ بل تھا۔ چترالی صاحب نے پارلیمنٹ سے منظور کرایا تھا اور اب سینیٹ سے منظور ہوا ہے۔

میں چترالی صاحب کو بتانا چاہتا ہوں کہ آج اگر مولانا مودودی موجود ہوتے تو بیس سال کے لیے جیل میں ہوتے اور ان کی ضمانت بھی نہیں لی جا سکتی تھی۔ آپ ان کی کتاب خلافت و ملوکیت کے متعلق ان کے مخالفین کی رائے پوچھ لیں، وہ اسے کفریہ اور گستاخانہ سے کم کسی صورت میں نہیں بتائیں گے۔ دوسرا جماعت اسلامی کے اکابرین سے سوال کرنا چاہوں گا کہ اس قانون کا غلط استعمال نہیں روکا جا سکے گا۔ یہ نظر آرہا ہے۔ اگر ایک بے گناہ بیس سال جیل میں گزارتا ہے اور اس نے یہ جرم نہیں کیا ہوگا تو اس کی ذمہ دار جماعت اسلامی ہوگی۔ اب بھی وقت ہے کہ صدر مملکت اس بل کو واپس بھیج دیں اور اس میں ضروری ترامیم کر لی جائیں۔ نیت کے آپشن کو شامل کیا جائے کہ اس نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہو، توبہ کا دروازہ کھلا رکھا جائے اور تیسرا یہ سزا بہت زیادہ ہے، اس میں کوئی ترمیم نہ کی جائے۔

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

nine + eleven =