تحریر: منظوم ولایتی
ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب سے اتفاق ہے کہ سینیٹ سے منظور شدہ “توہینِ صحابہ، اہلبیت و امہات المومنین بِل” سے سوءِ استفادہ کے چانسز بہت زیادہ ہیں، چونکہ اس بِل میں بعض اہم اصطلاحات کی تعریف ہی واضح نہیں کی گئی ہے، جیسے “توہین”، “صحابہ”، “اہلبیت” وغیرہ۔ لہذا آج کے بِل کے حوالے سے تمام مکاتبِ فکر کو اعتماد میں لیا جانا چاہیئے، وگرنہ پاکستان میں توہین صحابہ و اہلبیت کے بہانے سے بعض مفسدوں کو شہ مل جائے گی اور وہ اِس بل کی آڑ میں خنجر لے کر خون کے دریا بہائیں گے۔ افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ چار سُو شیعہ دشمنی میں بغلیں تو بجائی جا رہی ہیں، لیکن اِس کے عواقب کی کسی کو فکر ہی نہیں۔ ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ اس طرح کے مبہم بِلوں کے قانون بننے سے اِس ملک میں تاریخی حقائق کی تبیین بھی “توہین” قرار دی جائے گی اور گلی گلی، شہر شہر گردن زدنی عام ہوگی اور پاکستان ایک دفعہ پھر معصوم لوگوں کا مقتل بنے گا۔ اِس وقت مکتبِ تشیع کے ہر مرد و زن میں “ناموسِ صحابہ بِل” کے حوالے سے شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور اُن کا متفقہ فیصلہ ہے کہ جب تک مکتبِ اہلبیتؑ کے ماننے والوں کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا، اُس وقت تک ہمیں یہ بل کسی صورت بھی منظور نہیں ہے۔
احباب! ذیل میں ڈاکٹر مشتاق احمد کی ایک تحریر ملاحظہ کیجیے، جو اِس بل کی نوعیت کو سمجھنے میں ہمیں مدد دے گی، جسے “ناموسِ صحابہ بل: تین توضیحات اور ایک گزارش” کے عنوان سے قبلہ نے پیش کیا ہے۔ پہلی توضیح یہ ہے کہ “بل” اس مسودے کو کہتے ہیں، جو پارلیمان میں پیش کیا گیا ہو، لیکن ابھی اس نے “قانون” کی حیثیت حاصل نہ کی ہو۔ بل پارلیمان کے کسی بھی ایوان (قومی اسمبلی یا سینیٹ) میں پیش کیا جاسکتا ہے، لیکن اسے دونوں ایوانوں سے منظور کرانا ضروری ہوتا ہے اور اس کے بعد اس پر صدر دستخط کرتے ہیں، تو پھر اسے “ایکٹ” یعنی قانون کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ اس بل کا سفر قومی اسمبلی سے شروع ہوا، جہاں مولانا عبد الاکبر چترالی نے اسے پیش کیا۔ قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد اسے سینیٹ میں سینیٹر حافظ عبد الکریم نے پیش کیا اور سینیٹ نے بھی اسے منظور کرلیا۔ ابھی صدر کے دستخط رہتے ہیں، جس کے بعد اسے قانون کی حیثیت حاصل ہو جائے گی۔
دوسری توضیح اس موضوع پر رائج الوقت قانون کے بارے میں ہے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ اس موضوع پر یہ پہلی قانون سازی ہے۔ ایسا نہیں ہے، جنرل محمد ضیاء الحق نے 1980ء میں ایک آرڈینینس جاری کرکے مجموعہ تعزیراتِ پاکستان میں دفعہ 298-اے کا اضافہ کیا تھا، جس کے ذریعے امہات المؤمنین، صحابۂ کرام اور اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین میں کسی کی شان میں گستاخی پر تین سال تک قید یا جرمانہ یا قید اور جرمانے دونوں کی سزائیں مقرر کی گئیں۔ آرڈی نینس عارضی قانون ہوتا ہے اور 120 دن بعد ختم ہو جاتا ہے، لیکن مارشل لاء دور میں یہ قانون نافذ رہا، کیونکہ یہ فوجی سربراہ کا حکم تھا اور مارشل لاء میں فوجی سربراہ کے حکم کو قانون کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ 1985ء میں جب مارشل لاء ختم کیا جا رہا تھا، تو اس سے قبل جنرل ضیاء الحق نے یہ یقینی بنایا کہ اس کے جاری کردہ آرڈی نینس بعد میں بھی جاری رہیں۔ چنانچہ آئین میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے ان کو تسلسل دیا گیا اور دیگر قوانین کی طرح یہ قانون بھی آج تک رائج ہے۔
تیسری توضیح اس نئے بل کے موضوع کے بارے میں ہے کہ جب پہلے سے قانون موجود ہے، تو نئے قانون کی کیا ضرورت تھی؟ بل کے محرّک مولانا عبد الاکبر چترالی کا کہنا ہے کہ اس جرم پر بہت کم سزا مقرر کی گئی ہے، جس کی وجہ سے یہ قانون صحابہ کی شان میں گستاخی کو روک نہیں سکا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس سے کم تر جرائم پر اس سے زیادہ سخت سزائیں موجود ہیں۔ چنانچہ نئے بل میں اس جرم پر کم از کم دس سال کی قید یا عمر قید کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ سزا میں اضافے سے زیادہ اہم پہلو ضابطے کی کارروائی کا ہے۔ چنانچہ رائج الوقت قانون کی رو سے یہ جرم قابلِ ضمانت ہے، یعنی اس میں ملزم اپنے لئے ضمانت پر رہائی بطورِ قانونی حق کے طلب کرسکتا ہے اور جب تک کوئی بہت ہی سنگین معاملہ نہ ہو، اسے ضمانت پر رہا کرنے کا راستہ نہیں روکا جاسکتا۔
نئے بل میں اسے ناقابلِ ضمانت قرار دینے کا کہا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ صرف استثنائی صورتوں میں ہی ملزم کو ضمانت پر رہا کیا جاسکے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ رائج الوقت قانون کے مطابق جب اس جرم پر کارروائی شروع ہو تو ابتدا میں عدالت سمن جاری کرتی ہے، اس پر ملزم حاضر نہ ہو، تو اس کے بعد عدالت پولیس کو حکم دیتی ہے کہ اسے گرفتار کرکے لایا جائے۔ نئے بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ عدالت پہلے قدم پر ہی گرفتاری کے وارنٹ جاری کرے۔ تیسری بات یہ ہے کہ اس وقت اس مقدمے کی سماعت مجسٹریٹ کرتا ہے۔ چونکہ نئے بل میں جرم پر سزا بڑھا دی گئی ہے تو یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ اب اس مقدمے کی سماعت سیشن کی عدالت میں ہوگی۔
میری ناقص رائے میں ان ترامیم میں جرم کی روک تھام کے پہلو پر تو توجہ کی گئی ہے، لیکن یہ پہلو نظر انداز کیا گیا ہے کہ اس قانون کا غلط استعمال بھی کیا جاسکتا ہے اور کیا جاتا ہے۔ اس سوء استعمال کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اس جرم کی تعریف میں “نیت”، “ارادے” یا “علم” کی شرط رکھی ہی نہیں گئی۔ چنانچہ کوئی بھی شخص کسی بھی مخالف کی کسی بھی بات کو گستاخی قرار دے کر پرچہ کٹوا سکتا ہے۔ اگر جرم کی تعریف میں یہ شرط شامل کی جائے کہ کسی نے یہ فعل “جانتے بوجھتے” یا “قصداً” یا “کسی کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی نیت سے” کیا، جیسے الفاظ شامل کئے جائیں، تو اس قانون کا سوء استعمال روکا جاسکے گا اور پھر سزا کی شدت پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔
بشکریہ اسلام ٹائمز