نومبر 23, 2024

قد قتل الحسین، ہدایت کا چراغ بجھا دیا گیا

اقتباس از کتاب شریکۃ الحسین

ضبط تحریر: کوثر عباس قمی

کربلا کی زمین تھرانے لگی فرات کی موجوں میں اضطراب بپا ہوا چمکتا سورج سیاہ پڑ گیا سرخ آندھیاں چلنے لگی آسمان سے خون برسا فرشتوں کے نوحے اور فاطمہ کے بین سنائی دینے لگے فضاؤں میں ایک دردناک غیبی صدا بین کی طرح گونج اٹھی حسین کو کربلا کے میدان میں شہید کر دیا گیا حسین کو کربلا میں بے دردی سے ذبح کر دیا گیا حسین کو مظلومیت کی حالت میں قتل کر دیا گیا

زینب کا کلیجہ منہ کو آگیا انکھوں کی بینائی جیسے ختم ہو گئی

وہ ٹھوکریں کھاتی ہوئی پھر میدان کی طرف لپکیں لیکن تیرہ و تار فضا میں کچھ بھی نظر نہیں آیا تو پریشان حال واپس ہوئیں اور خیمے میں جا کر بیمار زین العابدین کا شانہ ہلا کر انہیں غش سے ہوشیار کرتے ہوئے بولیں

اٹھو بیٹا زین العابدین اٹھو انکھیں کھولو دیکھو اثار اچھے نہیں ہیں آندھیاں چل رہی ہیں اور ہر شے بین کر رہی ہے تمہارے بابا پر نہ جانے کیا گزر گئی ہے بیٹا تم امام وقت ہو ہمیں حالات کی خبر دو زین العابدین نے آنکھیں کھولیں لیکن نقاہت نے انہیں اٹھنے نہیں دیا کمزور سے لہجے میں گویا ہوئے پھوپھی اماں خیمے کا پردہ ہٹائیے تو کچھ اندازہ ہو زینب نے قنات کا دامن اٹھایا زین العابدین نے نگاہ کی گھبرا کر اٹھے تعظیما جھکے اور پیشانی پہ ہاتھ رکھ کے بولے اے شہید راہ خدا آپ پہ میرا سلام اے رسول خدا کے فرزند آپ پہ میرا سلام اے شہید ابن شہید آپ پہ میرا سلام اے مظلوم ابن مظلوم آپ پر میرا سلام اے شہ شہیداں آپ پر میرا سلام

زینب نے دل تھام کر اس طرف نگاہ کی جس جانب زین العابدین کی پتھرائی ہوئی آنکھیں لگی تھیں اور جیسے روح جسم سے نکل گئی دل بند ہو گیا آنکھوں نے رونا چاہا لیکن آنسو نہیں نکلے لبوں پہ فریاد آئی لیکن اواز نے ساتھ نہیں دیا

دور سرخ آندھیوں کے درمیان لہو روتے آسمان کے تلے حسین کا کٹا ہوا سر نیزے پہ بلند تھا!!!

خیمے کے باہر گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز آئی اور گھوڑا یوں ہنہنایا جیسے فریاد کرتا ہو

ننھی سکینہ دوڑتی ہوئی آئی اور زینب کے دامن سے لپٹ گئیں پھوپھی اماں پھوپھی اماں ابھی میں نے ذوالجناح کی اواز سنی ہے جلدی چلیے لگتا ہے بابا آگئے ہیں

زینب نے چونک کر سکینہ کے کملائے ہوئے پھول سے چہرے اور آنکھوں میں جلتی بجھتی امید کی شمع کو دیکھا دل پر گرتے گرم انسو آنکھوں سے بھی بہہ گئے انہوں نے سکینہ کا بازو تھاما اور در خیمہ کی جانب بڑھیں

باقی سید زادیاں بھی آثار فطرت میں تغیر دیکھ رہی تھیں ھاتف غیبی کی صدا انہوں نے بھی سنی تھی اور سب کی سب غم کی شدت میں جیسے سکتے میں رہ گئی تھی

جب ذوالجناح کی دلدوز فریاد نے انہیں چونکا دیا زینب نے خیمے کا پردہ اٹھایا ذوالجناح کی پیشانی خون سے رنگین تھی اس کی زین خالی تھی بھاگیں کٹی ہوئی تھیں اور رقابیں الٹی ہوئی تھیں جس میں پیوست تیروں سے لہو بہہ رہا تھا وہ سموں سے خاک اڑاتا پیشانی زمین پہ پٹک پٹک کر آسمان کی جانب تکتا اور دردناک انداز میں ہنہناتا تھا

معصوم سکینہ زینب سے ہاتھ چھڑا کر بابا بابا پکارتی ذوالجناح کی طرف دوڑی سید زادیاں ہائے حسین مظلوم حسین کی صدائیں بلند کرتے ہوئے سر و سینہ پیٹنے لگی

ذوالجناح خاک پہ سر پٹک پٹک کر قتل گاہ کی طرف اشارہ کرنے لگا زینب دونوں ہاتھوں کو سر پر رکھے لڑکھڑاتی ہوئی غم و الم سے جھکی ذوالجناح کے پیچھے چل پڑی دوسری بیبیاں بھی ان کے ساتھ تھیں ذوالجناح راستے میں انے والے یزیدیوں پر جست کرتا انہیں دانتوں سے پکڑ کر زمین پر پھینکتا اور سموں سے روندتا راستہ صاف کرنے لگا

یزیدیوں نے گھوڑے کو یوں بڑھتے ہوئے دیکھا تو راستہ چھوڑ دیا ذوالجناح نے حسین کے زخموں سے چھلنی لاش کے قریب پہنچ کر پیشانی زمین پر رکھ دی اور اپنی زبان بے زبانی سے کچھ ایسی دردناک صدا بلند کی کہ ارد گرد تماشائیوں کی طرح کھڑے ہوئے یزیدیوں کے دل بھی دہل گئے

دل شکستہ و پریشان حال زینب نے حسین کے بے سر لاشے کو صحرا کی گرم ریت پر پڑے دیکھا تو دل خون ہو گیا

تڑپ کر لاشے کے قریب دوزانوں ہو کے بیٹھ گئیں

دونوں ہاتھ لاش کے شانوں تلے رکھ کر اسے زمین سے تھوڑا سا بلند کیا اور آسمان کی طرف دیکھ کر عاجزی عاجزی سے گویا ہوئیں خدایا آل محمد کی اس قربانی کو قبول فرما لے!!

سکینہ حسین کی لاش سے لپٹ گئیں سید زادیاں اور اصحاب کی خواتین اس کے گرد گھیرا ڈال کر بین کرنے لگی زینب نے اللہ اور اس کے رسول کو اپنے دکھ اور مصائب پر گواہ بنایا فرمایا میں اپنی شکایت بارگاہ ایزدی میں پیش کرتی ہوں

میں اپنے دکھ رسول اللہ کو سناتی ہوں

نانا محمد دیکھیے آج آپ کے حسین کو اپ کی امت کے باغی گروہ نے کس بے دردی سے قتل کر دیا ہے

ہائے یہ کیسی عظیم مصیبت ہے جو ہم پہ آئی ہے

زینب کی فریاد نے زمین و اسمان کو زیر و زبر کر دیا کالی آندیاں چنگھاڑنے لگی آسمان خون رونے لگا فرشتوں کے ماتم کرنے کی آوازیں انے لگیں حوروں کی سسکیاں سنائی دینے لگیں فضاؤں کا رنگ ایسا ہو گیا جیسے عذاب خداوندی نازل ہونے کو ہو

سنگ دل عمر ابن سعد چلایا درندہ صفت شمر نے غرا کر اپنے سپاہیوں کو ملامت کی کھڑے منہ کیا تک رہے ہو حسین کی بہن کو لاش سے ہٹاؤ جلدی کرو ارے کیا جب عذاب الہی ٹوٹ پڑے گا پھر حرکت میں اؤ گے؟؟

یہ وحشی اواز اپنے ہی گناہوں کے بھاری بوجھ تلے دبے ہوئے ساکت لوگوں کو ہوش میں لے آئی ان کی ازلی شقاوت بیدار ہوئی لالچ نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی انعام و اکرام حاصل کرنے کی حرص نے ان کے اندر کے انسان کو مار دیا وہ نیزے لے کر سید زادیوں کی طرف چھپٹے

اصحاب کی بیبیاں سید زادیوں کے سامنے دیوار بن گئیں ذوالجناح بپھر کر سد راہ ہوا لیکن زخمی گھوڑے کی تلواروں اور ہتھیاروں کے سامنے کوئی پیش نہیں گئی تو زینب نے شدت غضب سے تھرا کر پھٹکارا خبردار

دور ہٹو وہیں رک جاؤ کیا تم نہیں جانتے کہ ہم ناموس محمد ہیں ؟؟

زینب کے جلال نے انہیں جیسے پتھر کا کر دیا ان کے اٹھے ہوئے قدم وہیں شل ہو گئے زینب نے معصوم سکینہ کو بمشکل حسین کی زخمی لاش سے علیحدہ کیا اور شدت غم میں مچلتی بچی کو گود میں سنبھالے بیویوں کو چلنے کا اشارہ کیا

مڑ مڑ کر حسرت سے دیکھتی

امنڈ تے دل اور برستے انسوؤں کے ساتھ خیمے کی طرف چل پڑی

ذوالجناح نے اسمان کی طرف دیکھ کر دردناک فریاد بلند کی یزیدیوں نے اسے گھیر کر پکڑنا چاہا لیکن وہ ان کا گھیراؤ توڑ کر دردناک انداز میں ہنہناتا ہوا

سموں سے خاک اڑاتا سر پٹکتا صحرا کی طرف نکل گیا

(بعض روایات میں ہے کہ دریائے فرات میں داخل ہوا

پانی نہیں پیا اور آھستہ آھستہ دور ہوتا گیا اور پھر نظروں سے اوجھل ہو گیا)

اس کے بعد اس کو کسی نے نہیں دیکھا

بیبیوں کو غم و الم نے کھا لیا تھا یزیدیوں کے وحشی ارادوں کا خوف سروں پہ سوار تھا

آنکھوں میں روشنی نہیں رہی تھی

قدموں میں سمبھلنے کی طاقت نہیں تھی پیر کہیں رکھتی تھی پڑتا کہیں تھا ہر طرف تاریکی ہی تاریکی تھی کچھ سجھائی نہیں دیتا تھا لڑکھڑاتی گرتی پڑتی ٹھوکریں کھاتی ابھی خیموں تک نہیں پہنچی تھی کہ عمر بن سعد کی آواز نے قدموں تلے سے زمین نکال دی

جاؤ حسین کے خیموں کو دل بھر کر لوٹو ان کی عورتوں کے سروں سے چادریں اتار لو اور خیموں کو جلا کر راکھ کر دو

اس کے ساتھ ہی دشمنوں کے قدموں کی دھمک اور درندوں ایسی غراہٹ خیموں کی طرف لپکی

سید زادیاں خوف سے کانپتی لرز تی دوڑ کر خیموں میں گھسی ہی تھیں کہ یزیدی لشکر سر پر تھا انہوں نے نیزوں سے خیموں کے پردے الجھا کر اٹھائے اور نعرے مارتے ہوئے معصوم بچوں اور بے بس بیبیوں پہ ٹوٹ پڑے

سیدانیاں خدا اور رسول کی دہائی دیتی پیچھے ہٹی اپنے کانوں اور ہاتھوں میں اگر سونے یا چاندی کا ایک تار بھی تھا تو اتار اتار کر یزیدیوں کی طرف پھینکنے لگی

لیکن اندھی لالچ یزیدیوں کو کہاں صبر کرنے دیتی تھی انہوں نے ماؤں کے پیچھے خوف سے چھپی ہوئی معصوم بچیوں کے کانوں سے گوشوارے تک کھینچ لیے

پاؤں میں پہنے ہوئے زیوروں کو دانتوں اور تلواروں سے کاٹ لیا قیمتی چیزوں کی تلاش میں بے سر و ساماں خیموں کے معمولی سامان کو اٹھا اٹھا کر پھینکا بچوں کو طماچے لگائے ڈر کر دوڑتے ہوئے ننھے بچوں کو پیروں تلے روند دیا

اور نیزوں کی انیوں سے بے دردی کے ساتھ رسول اللہ کی بیٹیوں کی چادریں اتارنے لگے

بیبیوں کی آنکھوں میں خوف اور حیا سے آنسو جم گئے تھے اور حلق سے اواز نہیں نکلتی تھی

شمر نے چند سپاہیوں کے ساتھ بیمار زین العابدین کے خیمے پہ دھاوا بولا

کسی نے غش میں پڑے ہوئے بیمار کے نیچے سے بستر کھینچا کسی نے نیزے کی انی چبھو کر بے ہوش بیمار کو ہوشیار کرنے کی کوشش کی شمر نے تلوار اٹھائی اور چنگھاڑا

خدا کی قسم ہم حسین کی نسل میں سے کسی ایک مرد کو بھی زندہ نہیں چھوڑیں گے

خبردار بیمار کو ہاتھ نہ لگانا بےردا زینب نے بپھری ہوئی شیرنی کی طرح عباس کے پرجلال انداز میں شمر کو اس طرح ٹوکا کہ اس کا اٹھا ہوا ہاتھ وہیں ساکت ہو گیا

زینب دوڑ کر بیمار زین العابدین اور شمر کی تلوار کے درمیان حائل ہو گئی اور حیدر کرار کے تیوروں سے اسے پھٹکارا

تف ہے تجھ پر اے سنگ دل ترین مرد

کل بروز قیامت تو میرے نانا محمد مصطفی کو کیا جواب دے گا جب وہ تجھ سے ایک قابل رحم مریض کے قتل کا جواب طلب کریں گے ؟؟؟

شمر پر ہیبت چھا گئی اس کا سر آپ سے آپ جھک گیا اٹھی ہوئی تلوار پہلو میں آگری اور وہ بغیر کچھ کہے خیمے سے تو نکل گیا لیکن خفت مٹانے کو اپنی درندگی کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکا باہر اتے ہی وہ اگ بگولا ہو کر چلایا

خیموں کو آگ لگا دو تاکہ حسین کے لواحقین کے لیے پناہ کی کوئی جگہ باقی نہ رہے اور بیمار بھی انہی خیموں میں جل کر بھسم ہو جائے

جن خیموں میں کئی روز سے پینے کے لیے پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں تھا ان میں اگ لگا دی گئی

جھلستے سورج کے نیچے پیاسوں کے خیموں میں شعلے پل بھر میں بھڑک اٹھے

آگ کی تپش پیاسوں کو جلانے لگی

یزیدی فوجوں کی لوٹ مار سے نڈھال بے چادر سید زادیاں

تماچے کھائے ہوئے زخمی خوفزدہ بچوں کو سنبھالتی زہریلے دھوئیں سے کھانستی پناہ کی تلاش میں ایک خیمے سے دوسرے خیمے کی طرف دوڑنے لگی !

زینب نے بیمار زین العابدین کا شانہ ہلایا بیٹا زین العابدین آنکھیں کھولو دیکھو خیموں میں آگ لگا دی گئی ہے حسین کے بعد اب تم امام وقت ہو بتاؤ یہیں جل کر خاک ہو جائیں یا قدم باہر نکالیں

علی زین العابدین نے نقاہت سے آنکھیں کھول کر دھواں دھواں فضا کو دیکھا اور گھٹی ہوئی نحیف آواز میں بولے پھوپھی اماں اس وقت پردہ ساقط ہے اور جان کا بچانا فرض ہے سب کو لے کر کسی محفوظ مقام پہ چلی جائیے

ہر طرف قیامت بپا تھی اگ کے بھڑکتے شعلے چاروں جانب سے گھیرا ڈال رہے تھے بچے ڈر ڈر کر چیخ رہے تھے مائیں فریاد کر رہی تھیں لیکن بے چادر کھلے اسمان نکلنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی

یزیدی لشکر والے دور کھڑے تماشا دیکھ دیکھ کر ہنس رہے تھے اور شرارتا اگ میں گھرے ہوئے بچوں اور عورتوں پر پتھر برسا برسا کر خوش ہو رہے تھے

اس افرا تفری اور پریشانی میں کئی بچے گم ہو گئے کچھ پتھروں سے زخمی ہوئے کسی کے دامن کو اگ لگی اور کوئی فریاد کرتا ہوا حسین کی لاش کی طرف چلا گیا

زینب سب کو ایک جگہ اکٹھا کرتے کرتے بے دم سی ہو گئیں تو تمام خیمے شعلوں کی لپیٹ میں ا چکے تھے

زینب نے پریشان نگاہوں سے چاروں طرف دیکھا اور دل تھام لیا

بیمار زین العابدین کہیں نہیں تھے

پیروں تلے سے زمین نکل گئی

انکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا وہ ہاتھ ملتی ہوئی جلتے خیموں کی طرف والہانہ لپکیں

خدایا میرے بھائی کی آخری نشانی کی حفاظت فرما رب العزت امامت کے چراغ کو روشن رکھنا

شعلوں کی سرخ زبانیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں اگ ہر طرف اس طرح لپک رہی تھی کہیں کوئی راستہ نہیں تھا

تپش اتنی شدید تھی کہ قریب کھڑا ہونا محال تھا لیکن زینب کو کسی مشکل کی پرواہ نہیں تھی وہ دیوانہ وار شعلوں کی طرف بڑھتی جا رہی تھی کہ حکومت کے مورخ حمید ابن مسلم نے راستہ روک لیا اور پریشانی سے بولا

اے معظمہ ان بھڑکتے ہوئے شعلوں میں آپ کی کون سی ایسی متاع گراں بہا رہ گئی ہے جو آپ کو اپنی جان کی پرواہ بھی نہیں؟؟

زینب نے ایک نگاہ اس پہ ڈالی اور عجلت میں بولی میری کیا آل محمد کی کل کائنات ان جلتے خیموں میں رہ گئی ہے میرے بھائی کی آخری نشانی میرا بیمار بھتیجا غش میں ہے

بیماری نے اسے اتنا نہیف کر دیا ہے کہ وہ سہارے کے بغیر اٹھ بھی نہیں سکتا یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ آگ میں گھرا ہو اور میں اپنی زندگی کی پرواہ کروں؟

حمید ابن مسلم کی آنکھوں میں انسو اگئے

اس نے کوشش کی کہ بھڑکتے شعلوں میں کوئی راستہ تلاش کر سکے تو بیمار نوجوان کو بچا لے لیکن صحرائے عرب کی شدید گرمی میں جلتی اگ کی حدت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ دور سے ہی چہرے جھلس رہے تھے وہ چند قدم آگے بڑھا اور تیزی سے واپس پلٹ ایا اور پریشانی سے بولا اس آگ میں داخل ہونا تو خود کو ہلاکت میں ڈالنا ہے کہیں کوئی راستہ نظر نہیں اتا

لیکن زینب اس کی یہ دل شکن گفتگو سننے کے لیے موجود نہیں تھی وہ جلتے شعلوں بھڑکتی آگ اور جھلسا دینے والی تپش کی پرواہ کیے بغیر دوڑ کر ایک شعلہ بنے ہوئے آگ آگ خیمے میں داخل ہو گئیں اور تھوڑی ہی دیر میں بیمار زین العابدین کو پشت پر لادے ہوئے باہر ائی اور آگ کا دریا پار کرنے لگی !!

حمید نے بھی بیمار کو محفوظ جگہ پر لٹانے میں مدد دی وہ اس کے برابر بیٹھ کر اپنے اور بیمار کے کہیں کہیں سے سلگتے کپڑوں کو اپنے ہاتھوں سے دبا دبا کر بجھانے لگیں

وہ بار بار بیمار کی پیشانی چومتیں اس کے زرد رخساروں کو سہلاتی اور اس کے ہونٹوں کو چھو کر کہتیں آنکھیں کھولو بیٹا زین العابدین تمہارا عہد امامت تو بہت کڑی منزلوں سے شروع ہوا ہے

اللہ تمہیں سلامت رکھے اپنی ذمہ داریاں سنبھالو بیٹا

اور پھر صحراہ کربلا میں اتری ہوئی لہو روتی شام غریباں میں ایک اواز ابھری الحافظ والحفیظ

الحافظ والحفیظ

سیاہ بال کھولے حرمان نصیب رات سے گلے لگی تو زینب کی آواز عباس علمدار کے لہجے کا رعب و جلال لیے چہار جانب گونج رہی تھی

الحافظ والحفیظ

الحافظ والحفیظ

جلے ہوئے خیموں کی راکھ تھی سہمے ہوئے بھوکے پیاسے اور زخمی بچے تھے

ممتا کی اگ میں سلگتی کوکھ جلی مائیں تھیں اجڑی مانگ والی نئی دلہنیں تھیں اور پہاڑ سی رات جس کے تعاقب میں اسیری کی مصیبت لانے والی خوف کی صبح تھی

دور مقتل میں محبت کے سارے رشتوں کی سربریدہ لاشیں گھوڑوں کے سموسے پامال بے گور و کفن کھلے آسمان تلے پڑی تھیں ان کے کٹے ہوئے سر یزیدیوں کے خیموں کے درمیان نیزوں پہ چڑھے ہوئے تھے

زینب کے ہاتھ میں خیمہ کی چوب تھی

وہ کھلے اسمان تلے عورتوں اور بچوں کے لٹے ہوئے قافلے کی نگہبانی کر رہی تھی تاکہ ان کی اواز سن کر ڈرے ہوئے خوفزدہ بچوں کو حوصلہ ہو اور کسی دشمن کو اس طرف رخ کرنے کی جرات نہ ہو سکے

خیموں کی اگ اور یزیدیوں کی سنگ باری نے معصوم بچوں کو یوں منتشر کر دیا تھا جیسے دھاگا ٹوٹ جانے پہ تسبیح کے دانے!

کوئی گھوڑوں کے سموں تلے کچلا گیا تھا کوئی صحرا کی وسعتوں میں گم ہو گیا تھا کوئی مقتل کی طرف نکل گیا تھا تو کسی کو جلتے خیموں میں سے نکلنے کا موقع نہیں ملا تھا

زینب نے اپنی بہنوں کے ساتھ مل کر اندھیرے صحرا میں بکھرے بچوں کو جگہ جگہ تلاش کیا تھا جو زندہ مل گئے انہیں ان کی ماؤں کے حوالے کیا جو کچھ جلی ہوئی لاشوں کی صورت میں یہاں وہاں شاخ سے ٹوٹے ہوئے پھولوں کی طرح کملائے پڑے تھے انہیں اپنے ہاتھوں کے ساتھ ریت میں دفن کیا !

ان کی ماؤں کو تسلیاں دے دے کر سنبھالا کہ اچانک

ننھے شہید اصغر کی دکھیاری ماں ام رباب سسکتے ہوئے بولی

سکینہ نہ جانے کہاں چلی گئی ہے

اس کے کان زخمی ہیں

کرتا جلا ہوا ہے

اور شمر کے تماچوں سے رخسار نیلے ہو رہے ہیں

وہ کہہ رہی تھی کہ مجھے نجف کا راستہ بتا دو میں دادا علی مرتضی سے یزیدیوں کی شکایت کروں گی پتہ نہیں میری معصوم بچی کس طرف نکل گئی ہے

زینب کا دل ڈوبنے لگا اپنی لاڈلی سکینہ کو تو حسین نے ان کے حوالے کیا تھا ننھی معصوم بچی تاریکی شب میں نہ جانے کہاں بھٹکتی پھرتی ہو گی

زینب نے چھوٹی بہن کلثوم کا ہاتھ تھاما اور اندھیرے میں معصوم سکینہ کو ڈر ڈر کر پکارنے لگی لیکن بچی تاریکی میں نہ کہیں نظر آتی تھی نہ کسی جانب سے اس کی اواز ہی سنائی دیتی تھی دل ہر آن بیٹھا جاتا تھا سینے میں ہوک سے اٹھتی تھی ننھی سکینہ تو گھر بھر کی آنکھوں کا تارا تھی

کبھی ایک کی گود میں ہوتی اور کبھی دوسرے کی گود میں

کبھی کسی نے کڑی انکھ سے بھی اس کی طرف نہیں دیکھا تھا

لیکن حسین کی شہادت کے بعد اس نے وحشی درندوں ایسے یزیدیوں سے تماچے کھائے تھے اس کے کانوں سے گوشوارے کھینچ لیے گئے تھے اس کے کرتے میں اگ لگی تھی نہ جانے غم کی اس رات میں اس پر کیا گزر رہی تھی وہ تو حسین کے سینے پہ سونے کی عادی تھی ہر طرف ڈھونڈتے تلاش کرتے دیکھتے بھالتے زینب مقتل کی طرف نکل ائیں جہاں سر بریدہ لاشیں بے گور و کفن پڑی تھی زینب نے رندھی ہوئی اواز میں حسین کو پکارا

حسین میرے بھائی حسین

سکینہ کہیں کھو گئی ہے مجھے بتاؤ وہ یہاں تو نہیں آئی؟

الی الی یا زینب

زینب یہاں آؤ اس طرف زینب کی اواز کا فورا ہی جواب ایا

حسین کی آواز پہچان کر زینب کا دل بھر آیا رواں رواں اس کھوئی ہوئی اواز کی جستجو میں کھنچنے لگا وہ بے قرار ہو کر آواز کی سمت لپکی دیکھا کہ معصوم بچی حسین کی پامال سربریدہ لاش کے سینے پر سر رکھے سو رہی ہے

دل سینے میں تڑپنے لگا سسکیاں لبوں پہ آ آ کر دم توڑنے لگیں آہیں سینے میں گھٹ کر رہ گئیں

جھک کر بچی کو انتہائی ملامیت اور آہستگی سے اٹھایا کہ اس کی نیند میں خلل نہ پڑے اور نہ جانے کس دل کے ساتھ حسین کی لاش کو تنہا چھوڑ کر معصوم بچی کو اغوش میں سنبھالے زینب اس طرف پلٹ ائیں جہاں بھوکے پیاسے بچوں کی آنکھوں میں نیند کے بجائے خوف تھا وہ ماؤں کی اغوش میں بھی چونک چونک جاتے تھے اور ڈر کر رونے لگتے تھے زینب کسی کو پیار کرتی تھی کسی کو سمجھاتی تھی کسی روتے ہوئے بچے کو گود میں لے کر بہلاتی تھی

رات قیامت بن کے گذر گئی

سپیدہ صبح نمودار ہوا تو ایک اور قیامت سر پہ تھی

کانوں میں یزیدیوں کی ایک آواز گونجی تم سب اب ہماری قید میں ہو !

اور پھر یہ ملاعین ، اس بچے ہوئے کاروان کو قیدی بنا کے کوفہ کی جانب چلے

لیکن جان بوجھ کے اس کاروان لاشوں کے درمیان سے گذارا

سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے خود کو اونٹ سے بھائی کی لاش پہ گرا دیا

تیروں اور پتھروں کے ڈھیر میں گھوڑوں کے سموں سے پامال حسین ابن علی کی لاش کو دیکھ کے بولیں

آانت اخی الحسین

کیا یہ آپ ہیں میرے بھائی حسین؟!

پھر مدینہ کی طرف رخ کر کے بابا محمد مصطفیٰ کو مخاطب کر کے فرمایا

بابا صلی’ علیک ملائکۃ السماء

بابا آپ پر تو آسمان کے فرشتے درود و سلام پڑھتے ہیں ،

ھذا حسین مرمل بالدماء آکے ذرا

اپنے لاڈلے حسین کی حالت تو دیکھیئے جس کی لاش خاک و خون میں غلطاں ہے

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

5 + 1 =