نومبر 23, 2024

شیعہ ماتم کیوں کرتے ہیں۔۔۔؟

تحریر: سید اعجاز اصغر

(ساتواں اور آخری حصہ)

اہل سنت کی معتبر کتاب تاریخ خمیس جلد ثانی صفحہ نمبر 173 میں راوی لکھتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رخ انور سے کپڑا اٹھایا اور گریہ کیا،

اہل سنت کی معتبر کتاب معتبر کتاب زاد المعاد صفحہ نمبر 65 مولفہ محمد بن ابی بکر المعروف ابن قیم میں درج ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی پاک صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے جبکہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بدر کے قیدیوں کے بارے رو رہے تھے یا نبی اللہ مجھے بتایئے  ! آپ کیوں رو رہے ہیں  ؟  اگر میں گریہ نہ کر سکا تو گریہ کرونگا ورنہ رونے والی شکل بناوں گا،

اہل سنت کی معتبر کتاب تاریخ بغداد جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 325 میں درج ہے کہ حضرت بی بی  عائشہ رضی اللہ عنہ کے والد بزرگوار فرماتے ہیں کہ جو استطاعت رکھتا ہے تو وہ گریہ کرے اور جو نہیں رو سکتا اسے چاہیےکہ رونے کی شکل بنائے،

اہل سنت کی معتبر کتاب تاریخ کامل ابن اثیر جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 139 میں درج ہے کہ نعمان ابن بشیر اہل شام کے پاس جناب عثمان رضی اللہ عنہ کا خون بھرا کرتہ اور زوجہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نائلہ کی انگلیاں لایا تو اسے معاویہ بن ابو سفیان نے منبر پر رکھا اور اپنی فوج کو جمع کیا اور پھر سب نے اس خون آلود قمیض پر گریہ کیا،

اہل سنت کی مشہور و معتبر کتاب تاریخ بخاری منقول از شرح کنز مکتوم صفحہ نمبر 153 میں درج ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر نے جب اپنے بیٹے کے مارے جانے کی خبر سنی تو ان الفاظ میں نوحہ پڑھا،  اے عبداللہ  !  تیرے غم میں میرا دل  رو رہا ہے،

اہل سنت کی معتبر تاریخ خمیس صفحہ نمبر 328 میں درج ہے کہ حضرت ابو حنیفہ کی موت کو یاد کر کے امام احمد بن حنبل روتے تھے اور ابو حنیفہ کو رحمتہ اللہ کہتے تھے،

اہل سنت کی معتبر کتاب مقتل ابی مخنف بحوالہ ینابیع المودت صفحہ نمبر 350 پر درج ہے کہ جب زینب سلام اللہ علیھا نے اپنے بھائی کے سر اقدس کو دیکھا جو سب سروں کے آگے آگے تھا،  اب چونکہ بازار کوفہ ہے اور مصیبت کی انتہا ہے نبی زادیوں پو لوگ صدقہ کی کھجوریں پھینک رہے ہیں،  قتل امام مظلوم کربلا کی خوشی میں طبل بجائے جارہے ہیں بازار سجے ہوئے ہیں، نواسہ رسول پاک کا سر اقدس نیزہ پر ہے اور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی نواسیاں سر برہنہ اونٹوں پر سوار ہیں، آل نبی پاک کی بے کسی کا یہ عالم ہے کہ یہود و نصارٰی بھی رحم کھا رہے ہیں، ایسی حالت میں ام المصائب حضرت زینت عالیہ سلام اللّٰہ علیھا نے اپنا سر چوب محمل پر مارا اور خون جاری ہو گیا، بہن کا سر اور بھائی کا سر ہم رنگ ہو گئے،

اہل سنت کی معتبر کتاب مدارج النبوہ جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 132 مولف شاہ عبد الحق محدث دہلوی اور سیرت حلبیہ جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 546 میں درج ہے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حمزہ کے گھر سے عورتو کے رونے کی آواز سنی تو پوچھا کہ یہ کیا ہے  ؟  لوگوں نے عرض کیا انصار کی عورتیں آپ کے چچا حضرت حمزہ پر رو رہی ہیں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ان عورتوں کے لئے دعا فرمائی کہ اللہ تعالٰی تم پر راضی ہو اور اولا کی اولاد سے بھی راضی ہو.

حضرت محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی متفق علیہ حدیث ہے کہ جو حسین علیہ السلام پر رویا یا رونے والی شکل بنائی اس پر جنت واجب ہے،

قارئین محترم  !

اہل سنت اور اہل تشیع کی مستند کتب کی روایات کے مطابق ثابت ہوتا ہے کہ شہداء اسلام کو رونا گناہ نہیں بلکہ ثواب ہے، جب حضرت حمزہ کے غم میں عزاداری کرنے سے رسول پاک راضی ہو جاتے ہیں تو نواسہ رسول و دیگر آل محمد علیہم السّلام کے غم میں عزاداری، ماتم داری پر اعتراضات کرنا اور پابندیاں و رکاوٹیں ڈالنا، من گھڑت فتوے لگانا گناہ کبیرہ ہے، ہم سب مسلمان ہیں، ہم کو آپس کے اختلافات ختم کرنے کے لئے مستند کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیئے، تاکہ فرقہ واریت جہالت اور گمراہی کا خاتمہ ہو،  مذہبی رواداری کو فروغ ملے، بغیر مطالعہ اور تحقیق کے سنی سنائی باتوں پر عمل کرنے سے فتنہ فساد ہی برپا ہوتا، دعا ہے کہ  پاکستان میں امن و امان قائم ہو، فرقہ واریت اور دہشت گردی کا خاتمہ ہو، اور اللہ تعالٰی ہم سب کو بھائی چارے کے ساتھ زندگی گزارنے کی توفیق عطا اور پاکستان و دین اسلام کے دشمن کو نیست و نابود فرمائے  !

تمام شد۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

five × 4 =