تحریر: سید اعجاز اصغر
(چوتھا حصہ)
کیا مظلوم کربلا حضرت امام حسین علیہ السّلام پر رونا، ان کے غم میں ماتم کرنا بے کار و عبث ہے، ؟
نہیں ہر گز نہیں،
بلکہ یہ گریہ و ماتم ہی تو امام حسین علیہ السّلام کی بے گناہی کا ثبوت ہے، مظلومیت اور حق پر ہونے کا واضح اعلان ہے،
اگر کربلا حق و باطل کی جنگ نہ ہوتی تو آج 14 صدیوں کے بعد اس کا تذکرہ باقی رہ جانا ایک تعجب خیز امر ہوتا، مگر یہ حق کا امتیاز ہے اور حق کا معجزہ ہے کہ اگر کربلا قیامت تک بھی باقی رہے تو کسی بھی اہل حق کو حتی متدین انسان کو اس پر تعجب نہیں ہونا چاہیئے،
اگر کربلا دو شہزادوں کی جنگ ہوتی ؟ جیسا کہ بعض حضرات حقیقت دین سے نا آشنا ہونے کی بنا پر یہ بات کہتے ہیں اور جنکا مقصد سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے علاوہ کچھ اور ہونا بعید نظر آتا ہے تو وہاں کے نظارے قطعی طور پر اس سے مختلف ہوتے جو کچھ کربلا میں واقع ہوا،
وہاں غیر انسانی و غیر اخلاقی محفلیں تو سج سکتی تھیں مگر وہاں شب کی تاریکی میں ذکر الٰہی کی صداؤں کا بلند ہونا کیا معنی رکھتا ہے ؟
اصحاب کا آپس میں ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کا کیا مفہوم ہو سکتا ہے ؟
ماوں کا بچوں کو خلاف مامتا جنگ اور ایثار کے لئے تیار کرنا کس جذبے کے تحت ممکن ہو سکتا ہے ؟
کیا یہ وہی چیز نہیں ہے ؟
جس کے اوپر انسان جان، مال، عزت اور آبرو سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے، مگر اس کے مٹنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا،
یقینا یہ انسان کا دین حق ہوتا ہے، اس کا مذہب حق ہوتا ہے، جو اسے جرآت و شجاعت عطا کرتا ہے کہ وہ باطل کی چٹانوں سے ٹکرانے میں خود کو آہنی محسوس کرتا ہے، اس کے جذبے آندھیوں کا رخ موڑنے کی قوت حاصل کر لیتے ہیں، ان کے عزم و ارادے بلند سے بلند اور مضبوط سے مضبوط قلعے مسخر کر سکتے ہیں،
یہی وجہ ہے کہ امام حسین علیہ السّلام کے پائے ثبات میں لغزش کا نہ ہونا تو سمجھ میں آتا ہے کہ وہ فرزند رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ہیں، امام معصوم علیہ السّلام ہیں، مگر کربلا کے میدان میں اصحاب و انصار نے جس ثبات کا مظاہرہ کیا ہے اس پر عقل حیران و پریشان رہ جاتی ہے، عقل یہ تجزیہ کرنے سے قاصر رہ جاتی ہے، اس لئے کہ تجزیہ و تحلیل ہمیشہ ظاہری اسباب و عوامل کی بناپر کرنا ممکن نہیں ہے، اور یہی کربلا میں نظر آتا ہے،
جب یہ جذبہ عزاداران مظلوم کربلا دیکھتے ہیں تو ان کے اندر بھی عشق حسین علیہ السلام اجاگر ہوتا ہے، امام حسین علیہ السّلام کے عشق میں گرفتار عزاداران ماتم و گریہ و آزاری کو اپنے لئے شہ رگ حیات سمجھتے ہیں۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔