سیاسیات-عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد کے لیے پاکستان کو ناصرف مختلف اشیاء کی قیمتیں بڑھانی ہوں گی بلکہ ریونیو بڑھانے کے لیے سخت اقدامات بھی کرنے ہوں گے۔
غیر ملکی خبر ایجنسی رائٹرز کے مطابق عالمی مالیاتی ادارے اور پاکستان کے درمیان 3 ارب ڈالر کی فراہمی کا معاہدہ ہوا ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ 2019 کے ای ایف ایف کے بجائے اسٹینڈ بائی معاہدہ ہوا ہے۔
خبر ایجنسی کے مطابق آئی ایم ایف بورڈ اسٹاف لیول معاہدے کی منظوری وسط جولائی تک دے گا، آئی ایم ایف معاہدہ توانائی شعبے کی لاگت وصول کرنے کے لیے ٹیرف بڑھائے گا، پاکستان کو صارف نرخ ریکارڈ مہنگائی کے باوجود بڑھانا ہوں گے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک کو درآمدی پابندیاں ختم کرنا ہوں گی، گرتے زرمبادلہ ذخائر بچانے کے لیے یہ اقدام اٹھایا گیا تھا، درآمدات پر پابندی سے معاشی نمو متاثر ہوئی ہے، اس وقت پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 3.5 ارب ڈالر ایک مہینے کی درآمدات کے مساوی ہیں۔
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو مارکیٹ بیس شرح تبادلہ پر آمادہ کیا گیا ہے، اسٹیٹ بینک نے بھی مہنگائی کم کرنے کے لیے عملی اقدامات کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے، اس کے ساتھ سرکاری اداروں کے نقصانات حکومت کے مالی انتظام متاثر کرتے ہیں ان کی گورننس بھی بہتر کرنا ہو گی۔
خبر ایجنسی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکومت نے محض 15 ارب روپے پرائیوٹائزیشن کے لیے رکھے ہیں، آئی ایم ایف کے توقع سے بڑے بیل آوٹ کے باوجود پاکستان کو کثیر جہتی اور دوطرفہ مالی معاونت درکار رہے گی، آئی ایم ایف معاہدے کے بعد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے 3 ارب ڈالر آجائیں گے اور پاکستان کو سب سے زیادہ قرض دینے والے چینی قرضوں کا رول اوور اہم پیش رفت ہو گی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لیے پاکستان کو 9 ارب ڈالر قرض فراہمی کے وعدے ہوئے ہیں تاہم پاکستان کو عالمی قرضوں کی ادائیگی سمیت 22 ارب ڈالر درکار ہیں۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کی رپورٹ میں ہے کہ آئی ایم ایف چاہتا ہےکہ ترامیم شدہ بجٹ پر عمل ہو، اتھارٹیز بجٹ کے سوا اخراجات اور ٹیکس مراعات دینے سے گریز کریں، پروگرام کا کامیاب ہونا معاہدے کی پاسداری میں ہے، آئی ایم ایف فنڈ چاہتا ہے کہ مالیاتی ڈسپلن کے ذریعے موجودہ چیلنجز حل ہوں، درپیش چیلنجز میں مہنگائی، مالی خسارہ کم کرنے اور زرمبادلہ ذخائر بڑھانا ہے۔