تحریر: عاصمہ شیرازی
ہماری گھڑیاں اُلٹی چلتی ہیں یا قدم پیچھے کی طرف اُٹھتے ہیں، زمانہ آگے یا ہم بے نشان منزلوں کے راہی؟ وقت رفتار سے دور، نبض حالات سے دور اور راستہ منزل سے دور۔ غم یہ نہیں کہ وقت بیت رہا ہے، ظلم یہ ہے کہ ہم اس سے بے پرواہ ہیں کہ رُکے گا کہاں؟
ایک صفحے کی حکومت بناتے بناتے ہم نے وہ تحریر ہی کھو دی جس نے آئین کو نظام کی بنیاد بنایا تھا۔ تجربے کی بھینٹ عوام اور مملکت کو چڑھایا گیا۔ ایک ایسا نظام بنا دیا گیا جس میں مذاکرہ، مکالمہ اور بات چیت کو شجرِ ممنوعہ بنایا گیا۔
خود کلامی کی بنیاد پر بنائے جانے والے معاشرے cult (فرقہ یا اندھی تقلید کرنے والا گروہ) تشکیل دیتے ہیں، جمہور کی نفی کرنے والے معاشرے شخصیت پرستی کو دوام دیتے ہیں جبکہ اظہار پر پابندیاں صرف شور کو جنم دیتی ہیں۔ ہم سب ایک صفحے کی حکومت کے وہ حشرات بنا دیے گئے کہ جن پر ذاتی مفادات کے بے شمار تجربے ہوئے اور اب ڈر یہ ہے کہ کسی محلول کی مانند تحلیل نہ ہو جائیں۔
نو مئی کے واقعات غیر معمولی تھے۔ منصوبہ سازی غضبناک اور نتائج کی کامیابی کی ضمانت ڈرامہ اداکاروں تک کو معلوم۔۔۔ نہ جانے یہ یقین کس نے دلایا تھا کہ دس مئی کی صبح انقلاب آ چکا ہو گا، فوجی قیادت بھاگ چکی ہو گی، اقتدار پر چنیدہ عوام کا قبضہ ہو گا۔
کس نے انقلاب کے نام پر انتشار پھیلایا؟ دس مئی کی صبح کو وہ خواب ٹوٹا جس کی تعبیر کی کرچیاں تحریک انصاف کے کارکنوں اور سپورٹرز کی آنکھوں میں پیوست ہو گئیں۔
بظاہر بے بس مقتدرہ حرکت میں آئی۔ سُرخ لکیر عمران خان تھے جو اب کاٹے کا نشان بن چکے اور ’بیہانڈ یو سکیپر‘ والے ڈھونڈتے رہ گئے جبکہ کپتان کالے پردوں میں چھپ گیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کی جذباتی پریس کانفرنس میں سب کچھ تھا مگر وہ نہ تھے جنھوں نے عمران خان کو کبھی ریڈ لائن بنایا تھا۔ سب کچھ تھا ذکر نہیں تھا تو اُن پردہ نشینوں کا جنھوں نے بُت تراشے، تبدیلی کے سکرپٹ میں ذاتی مفاد اور عناد کا رنگ بھرا اور مقبول چہرے کی مقبولیت کو استعمال کیا۔
وہ کون تھے جنھوں نے کپتان کے ساتھ ملک، آئین اور عوام کو مسلسل امتحان میں ڈالا؟ نو مئی کو آواز عمران خان کی تھی مگر ڈائیلاگ بھی تو کسی کے تھے؟ سر آئینہ عکس عمران خان کا تھا مگر پس آئینہ بھی تو کوئی تھا؟ منصوبہ کس کا؟ ماخوذ کس کا؟ پرفارمنس کس کی؟ شریک کار کون؟ سہولت کار کون اور دیگر اداکار کون؟
نامکمل سچ اور نامکمل اور یکطرفہ حقائق زہر قاتل ہیں، جب تک نو مئی کی پوری تصویر سامنے نہیں آئے گی تب تک شفاف تحقیقات بھی ممکن نہ ہو پائیں گی۔ نو مئی کو فوج کے خلاف بغاوت ہوئی جس پر کاروائی ہونا چاہیے، ’خود احتسابی‘ کے ساتھ ساتھ احتساب کو منظر عام پر لانا بھی ضروری ہے۔
بلآخر نامعلوم ہی سہی تاہم ایک لیفٹینٹ جنرل، تین میجر جنرل اور کتنے ہی افسروں کے خلاف کاروائی تو ہوئی اور آنے والے دنوں میں سیاسی رہنما کے خلاف بھی کاروائی کے امکانات ہیں مگر جناب! ایک بار جنرل پاشا سے لے کر گذشتہ آئی ایس آئی چیف کو بھی بُلا کر پوچھ لیجیے کہ آیا کوئی ایسا سافٹ ویئر بھی ڈالا گیا تھا جسے کنٹرول، آلٹ، ڈیلیٹ دبا ریورس کیا جا سکے۔ جب تک احتساب بلاتفریق نہیں ہو گا شفافیت پر سوالات اُٹھیں گے، بہرحال اس طور اُمید ہے کہ شاید یہ رسم بھی ٹوٹے کہ پیٹی بھائی کو بھی شامل تفتیش کیا جائے۔
شاہراہ دستور پر بظاہر دستور کی جنگ آخری مرحلے میں ہے، دبئی ازلی حریفوں کے گٹھ جوڑ کا آخری مقام اور پنڈی اختیار کی مسافت کے دائرے میں محفوظ مقام پر۔ ایک اور میثاق جمہوریت اور معیشت کی بازگشت ہے، ایک اور ڈائیلاگ کا مرحلہ، جمہوریت، آئین اور سیاست سب اپنے اپنے دائرے میں مگر مجھے کیوں اُمید ہے کہ دائرے کے سفر میں قیام کا وقت ہے، مکالمے کا وقت ہے، سوچنے کا وقت ہے کہ آگے بڑھا جائے۔
سیاسی قیادت، عسکری، عدالتی سربراہان، میڈیا سب پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم پر سر جوڑیں، ادارے خود کو ریگولیٹ کریں، ایک معاشی، معاشرتی، سیاسی ایجنڈا ترتیب دیں، راستہ ڈھونڈیں، منزل مل ہی جائے گی اور دائرے کا سفر اختتام پذیر ہو گا۔
بشکریہ بی بی سی اردو