تحریر:عاصمہ شیرازی
سپنے پوچھ کے تھوڑی آنکھوں میں آتے ہیں اور نہ ہی اُنھیں ویزے کی ضرورت ہے، اُمیدیں کب جیب دیکھتی ہیں کہ کریڈٹ کارڈ مستقبل کی ضمانت بن جائیں۔
ابھی فروری میں ہی اٹلی کے ساحل پر ڈوبی کشتی میں قومی فُٹ بال کھلاڑی شاہدہ رضا اور اُس کے یورپ میں محفوظ مستقبل کے خواب ڈوبے۔
وسطی پنجاب، ہزارہ قبیلے کے ستائے ہوئے لوگ، بلوچستان کے آزردہ شہری، کشمیر کے پہاڑوں سے روزگار کے لیے بھاگتے نوجوان، یہ سب خوابوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، نااُمید ہیں یا پاکستان میں اپنے مستقبل سے مایوس۔
ایسا کیا ہوا ہے کہ سالوں میں ہونے والے واقعات اب ہر دوسرے مہینے ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ انسانی سمگلنگ کا نیٹ ورک وسیع ہو گیا ہے یا پاکستانی نوجوانوں کا صبر ختم ہو چلا ہے۔
کیا وجہ ہے کہ کم پڑھے لکھے بھی ملک سے بھاگنا چاہتے ہیں اور زیادہ پڑھ لکھ کر انجینئیر، ڈاکٹر اور مختلف شعبوں سے وابستہ افراد بھی ملک سے فرار ہو رہے ہیں۔
دُنیا کا دل بڑا ہو گیا ہے یا ہمارے دامن تنگ پڑ گئے ہیں۔ بیرون ملک روزگار کی کشش ہے یا کم پر گزارہ نہ کرنے کی عادت، ہوس بڑھ رہی ہے یا شکر گزاری ناپید۔۔۔ کچھ تو ہے کہ المیے بڑھتے جا رہے ہیں اور مداوا کوئی نہیں؟
سوچیے، یہ المیے کب تک جنم لیتے رہیں گے، پاکستان سے زندہ بھاگنے والوں کو کب تک یورپ کے ساحل لاشوں کی صورت اُگلتے رہیں گے؟
پاکستان کی ہاکی اورفٹ بال کی معروف کھلاڑی شاہدہ رضا رواں سال اٹلی کے قریب سمندرمیں کشتی کو پیش آنے والے حادثے میں ہلاک ہوئی تھیں
قومی انسانی ترقی انڈیکس کے سرویز کے مطابق پاکستان کی 60 فیصد سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جبکہ دُنیا کے پانچ ایسے ممالک میں پاکستان شامل ہے جن کی اکثر آبادی نوجوان ہے جبکہ بیروزگاری کی شرح پانچ فیصد سے زائد ہے۔
عالمی درجہ بندی کے مطابق پاکستان بیروزگاری میں 16ویں نمبر پر ہے، پاکستان بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے مطابق 2021 میں پاکستان سے بیرون ملک جانے والے نوجوانوں کی تعداد دو لاکھ 88 ہزار تھی، 2022 میں یہ تعداد تین گُنا بڑھ کر سوا آٹھ لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ 2023 میں اب تک دو لاکھ سے زائد پیشہ ور افراد بیرون ملک جا چکے ہیں۔
آبادی میں بے تحاشا اضافہ ایک مسئلہ تو ہے ہی مگر اتنی بڑی نوجوان آبادی کو مثبت طریقے سے استعمال نہ کرنا ایک المیہ بنتا جا رہا ہے۔
ستر کی دہائی میں پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک بڑا موڑ تب آیا جب پاکستانی تربیت یافتہ نوجوانوں کو سرکاری سرپرستی میں بیرون ملک جانے کی ترغیب دی گئی تاکہ پاکستان نہ صرف ہیومن ریسورس کا استعمال کرے بلکہ ترسیلات میں اضافہ بھی ممکن ہو سکے۔
کیا اب ایسا ممکن نہیں کہ ان نوجوانوں کو تکنیکی تعلیم دی جائے اور پاکستان سے باہر سرکاری سطح پر بھیج کر بہترین مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ زرمبادلہ کاحصول ممکن ہو۔
یورپ کے کئی ممالک میں نوجوان آبادی کافی حد تک کم ہو گئی ہے جبکہ ورک فورس کے لیے جوان چاہییں۔ ہمارے ہاں ایسا میکنزم کیوں نہیں بن سکتا کہ ان ممالک میں دوطرفہ تعلقات استعمال کیے جائیں۔ اس سب کے لیے پالیسی، ترجیحات اور سنجیدگی کی ضرورت ہے جو کم از کم اب تک نظر نہیں آتی۔
دوسری جانب سرکار کی جانب سے مختلف تعلیمی سکالرشپ حاصل کرنے والے دماغ پاکستان واپس آنے کو ترجیح نہیں دیتے۔ گذشتہ کچھ سالوں میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے سرکار کے اخراجات پر بیرون ملک جانے والے اکثر دانشور واپس نہیں آتے۔
یہ ایک اور بڑا المیہ ہے لیکن سرکار نہ صرف بے پرواہ بلکہ شاید بے خبر بھی ہے۔ ایسے لوگوں کی تحقیقات کر کے اُنھیں یا تو پاکستان لایا جائے یا اُن پر مستقل پابندی عائد کی جائے۔
وطن عزیز کے شہری کیوں دوسرے درجے کے شہری کہلانا پسند کرتے ہیں، یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے۔ پاکستان میں روزگار کے مواقع بڑھائے جائیں تو کوئی کیوں یورپ کی گلیوں میں چھپتے پناہ گزین بننے کی تمنا کرے؟ پاکستان میں اُمید دلائی جائے تو کوئی اپنے مستقبل کو سمندر کی لہروں کے سپرد کیوں کرے؟ وطن عزیز کو فلاحی ریاست بنایا جائے تو کوئی کیوں یورپ کی آس لگائے؟
پاکستان میں بڑھتی نوجوان آبادی کو سیاسی، معاشی اور معاشرتی منصوبے کا حصہ نہ بنایا گیا تو ملک کہاں کھڑا ہو گا یہ کسی نے سوچا بھی نہیں۔
حکومتی سطح پر نوجوانوں کے لیے جامع منصوبے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی اس بڑی تعداد کو ملک کی بہتری کے بیرون ملک بھجوانے کی بھی تاکہ بہترین استعمال ہو ورنہ یونہی یورپ کے ساحلوں پر خدانخواستہ ہم لاشیں ڈھونڈتے رہیں گے اور پکارتے رہیں گے کہ ساحلو! ہماری لاشیں واپس کرو۔
بشکریہ بی بی سی اردو