نومبر 23, 2024

یونان سانحہ—قصوروار کون ؟

تحریر: عمر فاروق

آزاد کشمیر کے ضلع کوٹلی کی تحصیل کھوئی رٹہ کی یونین کونسل بنڈلی کی آبادی 10ہزار کے لگ بھگ ہے کوٹلی شہر سے 32 کلومیٹر کے فاصلے پر پہاڑوں کے درمیان یہ چھوٹا سا گائوں واقع ہے اس گائوں کے ہر گھر کا کوئی ناکوئی فرد بیرون ملک مقیم ہے ،چند سال پہلے تک یہا ں کے لوگ کھیتی باڑی اورمحنت مزدوری کوترجیح دیتے تھے مگرپھرنوجوانوں کوبیرون ملک جانے کاایساچسکاپڑاکہ انہوں نے قانونی اورغیرقانونی طریقے سے یورپ اوردیگرممالک جاناشروع کردیا۔

انسانی سمگلروں کی لاٹری نکل آئی انہوں نے یہاںڈیرے جمالیے ،سمندر کے خطرناک راستے سے اٹلی اوردیگرممالک جانے کی کوشش کرنے والوں میں ایسے افراد بھی شامل تھے جو یہاں اچھی زندگی گزار رہے تھے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس یونین کونسل کے لگ بھگ 700 افراد چندسالوں میں اٹلی جا چکے ہیں۔جبکہ سینکڑوں افراداس سفرمیں یازندگی کی بازی ہارچکے ہیں یاپھروہ مختلف ممالک کی جیلوں میں قیدہیں ۔

یونان کشتی کے حالیہ سانحہ میں ابتدائی رپورٹ کے مطابق اس گائوں کے نوجوان بڑی تعدادمیں اپنی زندگی کی بازی ہارگئے ہیں کمشنر پونچھ ڈویژن چوہدری شوکت علی کے مطابق اس کشتی پر ضلع کوٹلی کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے 40 سے 50 لوگ موجود تھے۔جبکہ ڈپٹی کمشنر کوٹلی نے 27افراد کی ابتدائی فہرست جاری کی ہے، جن کے بارے میں امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ اسی کشتی پر سوار تھے،

جنوبی یونان کے علاقہ پیلوس میں تارکین وطن کا جہاز بحیرہ روم کی ‘پانی کی قبر’ میں دفن ہو گیا،جہازمیں نصف سے زیادہ تعدادپاکستانیوں کی تھی جنھیں جہاذکے نچلے حصے میں رکھاگیاتھا ۔ یونانی کوسٹ کارڈ نے جن 104 لوگوں کو زندہ بچایا ہے، ان میں 12 پاکستانی شہری بھی ہیں۔اب یہ حادثہ کیسے پیش آیاکوسٹ گارڈکی غلطی تھی یاگنجائش سے زیادہ افرادسوارتھے ،جہاذمیں کوئی فنی خرابی ہوئی یامسافروں کی بھگدڑسے جہاذڈگمگاگیا؟ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے اورتحقیقات میں وقت لگے گا سوال یہ ہے کہ ایسی کیاوجوہات ہیں کہ اتنی بڑی تعدادمیں نوجوان بیرون ملک ہجرت کرنے پرمجبورہورہے ہیں ؟

آزادکشمیرکی بات کریں تواس کی آبادی 42 سے 45 لاکھ کے درمیان ہے جس میں سے7لاکھ افرادبیرون ملک قانونی طورپر مقیم ہیں اوراتنی ہی تعدادمیں افرادغیرقانونی طریقے سے بیرون ملک آبادہیں جبکہ تین سے چارلاکھ افرادسرکاری ونجی محکموں اورمختلف کاروبارسے منسلک ہیں آزادکشمیرکاشایدہی کوئی شہری ہوجوکسی ناکسی کام میں مصروف نہ ہو؟یوں اگردیکھاجائے توتقریبانصف آبادی برسرروزگارہے۔پھرکیاوجہ ہے کہ ہمارے نوجوان غیرقانونی طریقے سے بیرون ملک جانے کارسک لیتے ہیں ؟

قوم پرست حسب معمول اس سانحہ کوبھی پروپیگنڈہ کے طورپراستعمال کررہے ہیں حالانکہ بیرون ملک جانے والوں ایک بڑی تعدادان کی ہوتی ہے جن کی ذہن سازی بیرون ملک بیٹھے یہی قوم پرست کرتے ہیں اورانہیں یہ لالچ دیتے ہیں کہ تم کسی ناکسی طرح یورپ پہنچوہم تمھیں سیاسی پناہ بھی دلوائیں گے اورملازمت بھی ۔یہی وجہ ہے کہ آزادکشمیرمیں ایسے بہت سے نوجوان ملیں گے جواس وجہ سے ریاست مخالف سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں کہ جب وہ بیرون ملک جائیں گے تویہ سرگرمیاں دکھاکروہ سیاسی پناہ حاصل کریں گے حکومت اگرانسانی سمگلروں کے خلاف کاروائی کرہی رہی ہے توایسے عناصرکوبھی لگام ڈالے تاکہ یہ نوجوانوں کوورغلانہ سکیں ۔

پناہ گزینوں کے عالمی ادارے(آئی او ایم) کی مسنگ مائگرنٹس رپورٹ کے مطابق رواں سال مجموعی طور 220 افراد وسطی بحیرہ روم کے راستے یا لاپتہ ہوگئے یا جان سے گئے۔ ان میں سے زیادہ تر افراد تارکین وطن تھے۔گزشتہ سال اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین نے کہا تھا کہ انہوں نے یونان کی طرف سے غیر رسمی واپسی کے 540 واقعات ریکارڈ کیے اور ہزاروں لوگوں کے انٹرویو کیے جنہیں واپس دھکیل دیا گیا تھا۔

ہمارے نوجوانوں میں کے ذہن میں یہ بھردیاگیاہے کہ تم بیرون ملک جاکرہی ترقی کرسکوگے ؟۔سوال یہ ہے کہ بیرون ملک جانے والے واقعی خوشحالی کی زندگی بسرکرتے ہیں ؟بی بی سی سے گفتگوکرتے ہوئے حسن زیدی کا کہنا ہے کہ وہ گذشتہ دس سال سے غیر قانونی تارکین وطن اور انسانی سمگلنگ کے حوالے سے تحقیق کرتے آئے ہیں۔ انھوں نے تارکینِ وطن کو درپیش مشکلات کے حوالے سے دستاویزی فلم بنائی جس کے لیے انھوں نے ایسے آٹھ ممالک پر براستہ سڑک سفر کیا جن سے یہ لوگ یورپ میں داخل ہوتے ہیں۔وہ کہتے ہیں ان کی سوچ ہوتی ہے کہ یورپ میں اچھا کمائیں گے۔ مشکلات دور ہوں گی۔ ان کا طرز زندگی اچھا ہو جائے۔ لیکن میں نے دیکھا کہ یورپ پہنچنے والے اکثر لوگ جو خواب لے کر یورپ آئے وہ پورے نہیں ہوئے ۔تو ان کی صورتحال بہت خراب تھی۔

انھوں نے بتایا کہ پہلے ہنگری اور سربیا کی سرحد سے لوگ یورپ داخل ہوتے تھے لیکن اب وہاں باڑہ لگا دی گئی ہے، اس لیے اب نیا راستہ لیبیا سے ہے جہاں سے لوگ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ زیادہ پیسے دیں تو ایجنٹ لیبیا تک ویزا لگا دیتے ہیں اور اس سے آگے غیر قانونی سفر کا انتظام کرتے ہیں۔

یورپ میں داخلے سے پہلے ان ممالک میں تارکینِ وطن کے حالات زندگی بہت برے ہیں۔ این جی اوز انھیں کھانے کی چیزیں دیتی ہیں۔ یہ چونکہ ان ممالک میں غیر قانونی ہوتے ہیں اس لیے ان کے کوئی حقوق نہیں ہوتے۔ یہ آپ کو وہاں جنگل میں ملیں گے۔ پلوں کے نیچے یا پارکنگز میں خیمے لگا کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ شہروں میں نہیں جاسکتے کیونکہ پھر پولیس پکڑ لیتی ہے۔

ان کے بقول یورپ جا کر دیکھیں تو کئی سال تک یہ چھپ کر کام کرتے ہیں۔ اس کی ضمانت نہیں کہ انھیں اجرت ملے گی، کتنی ملے گی۔ آجر جب دل کرے گا جتنا دل کرے گا پیسے دے گا۔ کیونکہ انھیں بھی پتا ہے کہ یہ غیر قانونی تارکین وطن ہیں۔کئی لوگ چھ، سات مہینے تک کام کرتے ہیں۔ انھیں اجرت نہیں ملتی۔ لیکن وہ ان کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کر سکتے۔ یہ یہاں سے خواب تو بڑے بڑے لے کر جاتے ہیں لیکن اس کی حقیقت بہت المناک ہے۔

ان کے مطابق پاکستان سے یورپ داخل ہونے کے لیے یہ لوگ اپنی جان کو ِخطرے میں ڈالتے ہیں۔ یہ بھیڑ بکریوں کی طرح سفر کرتے ہیں۔ یہ بغیر خوراک کے سرحد پر بارڈر پولیس کی فائرنگ سے بچتے ہوئے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔جن سے بات کی ان میں سے 90 فیصد لوگ کہتے ہیں کہ انھیں دوسرا موقع ملے تو اس طرح نہیں آئیں گے۔ وہ قرض لے کر یا ماں کے زیور بیچ کر آئے ہیں۔ وہ واپس جانا چاہتے ہیں لیکن جا نہیں سکتے۔

حسن کہتے ہیں کہ سرحدی فورسز کی جانب سے پکڑے جانے والے لوگوں پر جسمانی تشدد کیا جاتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ ہنگری کی سرحد پر فورسز لوگوں پر تربیت یافتہ کتے چھوڑ دیتے ہیں۔ کئی لوگ زخمی ہو کر واپس بھاگ جاتے ہیں۔سردی میں سرحد عبور کرنے کی کوشش کرنے والے کی تارکینِ وطن کے جسمانی اعضا کو اتنا نقصان پہنچا کہ کاٹنے پڑے۔ جو لوگ مر جاتے ہیں ڈنکر انھیں وہیں کہیں جنگل میں پھینک جاتے ہیں کیونکہ وہ لاش ساتھ لے جانے کا رسک نہیں لے سکتے۔اس کے علاوہ ایک اور خطرہ بھی ہے۔ کئی پاکستانی ترکی میں اغوا بھی ہوئے جہاں ان کی ویڈیوز بنا کر ان کے گھر والوں کو بھیجی گئیں کہ پیسے بھیجیں۔

ایسے ہی ایک حادثے میں جاں بحق ہونے والے بیٹے کی ماں نے کہاتھا کہ مجھ سے کوئی پوچھے تو میں کہوں گی نہ جا۔ یہیں بھوکے رہو پاکستان میں۔ میں تو اس کے شوق میں اپنا بیٹا گنوا بیٹھی ہوں۔ میرا بیٹا چلا گیا۔ان کا کہنا تھا میرا دل اتنا ڈر گیا ہے کہ میں کہتی ہوں کوئی جہاز پر بھی نہ جائے۔ آدھی روٹی کھا لو۔ دیکھو اب میں رو رہی ہوں۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

three × 3 =