تحریر:عمر فاروق
وفاقی بجٹ پیش ہوتے ہی حسب معمول دفاعی بجٹ کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کردیاگیا کہ فوج 80فی صدبجٹ کھارہی ہے۔ تعلیم اورصحت پرتوجہ نہیں دی جارہی، فوجی بجٹ میں اضافہ کردیاگیا پاکستان ایک سکیورٹی سٹیٹ بن چکا ہے اس قسم کے اعتراضات اورپروپیگنڈہ دراصل اس گریٹ گیم کاحصہ ہیں جس کے تحت پا ک فوج کوکمزورکرنااورعوام اورفوج میں دوریاں پیداکرناہے تاکہ عالمی طاقتیں اپنے مذموم مقاصدحاصل کرسکیں۔
یہاں ایک اور تاثر کی نفی کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے وہ یہ کہ دفاعی بجٹ سے مراد صرف وہ بجٹ نہیں ہے جو پاکستان آرمی کے لیے مختص کیا جاتاہے بلکہ یہ بجٹ افواجِ پاکستان کی تینوں شاخوں،پاک آرمی، پاک فضائیہ اور پاک بحریہ کے لیے مختص ہوتا ہے۔ اسی طرح باقی اداروں جن میں انٹر سروسز ادارے، ڈیفنس پروڈکشن ڈویژن اور پاکستان ملٹری اکائونٹس ڈیپارٹمنٹس شامل ہیں، کا انتظام بھی اسی بجٹ سے چلایا جاتا ہے ۔ بجٹ کا زیادہ ترحصہ ملازمین کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جاتا ہے، اسی سے صحت، تعلیم، ملٹری ٹریننگ، آپریشنز کی فنڈنگ،جدید ہتھیاروں اور نئی اشیا کی خریداری بھی کی جاتی ہے۔ اس کی تفصیل نئے دفاعی بجٹ کے تناظرمیں کچھ اس طرح ہے ۔
نئے مالی سال 2023-24 میں دفاع کے لئے بجٹ 1530 ارب سے بڑھا کر 1804 ارب کیا گیا ہے، (واضح رہے کہ سال 2020 کے بعد سے پاک فوج کے بجٹ میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا تھا، نہ ہی مسلح افواج کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ کیاگیا)مجوزہ تخمینہ میں سے پاک آرمی کو 824 ارب روپے ملیں گے، پاک آرمی کے بجٹ میں81ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔پاک فضائیہ کے لیے 368 ارب روپے دستیاب ہوں گے، ان کے لیے45 ارب روپے کا اضافہ تجویز کیا گیا ہے، جب کہ بحریہ کو 188 ارب روپے رکھے گئے ہیں،ان کے لیے 18 ارب روپے کا اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔
نئے مالی سال کے بجٹ میں دفاعی امور اور خدمات کے لیے 18 ارب 94 کروڑ 67 لاکھ ، دفاعی خدمات کے لئے 18 ارب 4 کروڑ، دفاعی ملازمین سے متعلق اخراجات کے لئے 705 ارب اور دفاع کے شعبے میں عملی اخراجات کے لئے 442 ارب روپے سے زیادہ مختص کئے جانے کی تجویز ہے۔دفاع کے شعبے میں مادی اثاثوں کی ترقی کے لئے 461 ارب سے زیادہ، ترقیاتی اخراجات کے لیے 3 ارب 40 کروڑ، شعبہ دفاعی پیداوار کے ترقیاتی اخراجات کے لئے 2 ارب ، دفاعی شعبے میں سول ورکس کے لئے 195 ارب اور دفاعی انتظامیہ کے لئے 5 ارب 40 کروڑ سے زیادہ رکھے جائِیںگے۔
دستاویزات کے مطابق ایف جی ایمپلائز بینوولینٹ فنڈ دفاع کے لئے 3 ارب 39 کروڑ سے زیادہ، گروپ انشورنس فنڈ دفاع کے لئے 16 کروڑ اور دفاع سے متعلق ڈیپازٹس اکائونٹس کے لیے2 ارب 92 کروڑ، وفاقی حکومت کے کینٹ و گیریژن میں تعلیمی اداروں کے لئے 12 ارب 51 کروڑ، ایٹمی توانائی کے شعبے کے لیے16 ارب 63 کروڑ سے زیادہ، ایٹمی توانائی کے شعبے کی ترقی پر مصارف کا سرمایہ 26 ارب سے زیادہ اور پاکستان نیوکلئیر ریگولیٹری اتھارٹی کی ترقی پر مصارف کا سرمایہ 15 کروڑ ہو گا۔
پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے پھرخطے بلکہ عالمی دنیامیںپاکستان کو نہایت اہمیت حاصل ہے اس اعتبارسے اگرہم دیگردنیاسے فوجی بجٹ کاتقابل کریں توحیرت انگیزنتائج نکلتے ہیں خصوصا پڑوسی ملک کا بڑھتا ہوا دفاعی بجٹ ہمیشہ سے چیلنج رہا ہے۔ بھارت کا دفاعی بجٹ 76 ارب ڈالر ہے، یعنی بھارت پاکستان کی نسبت اپنے ایک فوجی پر سالانہ 4گنا زیادہ خرچ کر تا ہے۔پاکستان میں ایک فوجی پر اوسطا سالانہ13400 ڈالر، بھارت میں 42000 ڈالر، امریکا 392,000 ڈالر، ایران 23000 ڈالرجبکہ سعودی عرب371,000 ڈالر خرچ کرتا ہے۔
دِفاعی اخراجات کے حوالے سے بھارت دنیا کا تیسرا بڑا ملک بن چکا ہے جس کا دِفاعی بجٹ پاکستان کی نسبت 7 گنا زیادہ ہے، اس کے علاوہ بھارت 5 سال کے دوران سالانہ 19ارب ڈالر خرچ کرکے دنیا کا دوسرا بڑا اسلحہ درآمد کرنے والا ملک بھی بن چکا ہے، یہ اخراجات پاکستان کے دفاعی بجٹ سے دوگنا ہیں۔دیگر ممالک کے دفاعی بجٹ کا جائزہ لیا جائے تو سعودی عرب کا دفاعی بجٹ 55.6 بلین ڈالر، چین کا 293 بلین ڈالر، ایران کا 24.6 بلین ڈالر، متحدہ عرب امارات کا 22.5 بلین ڈالر اور ترکی کا 20.7 بلین ڈالر ہے۔
اعدادوشمار کی روشنی میں دیکھا جائے تو 2022 میں دفاعی بجٹ مجموعی قومی بجٹ کا 18فیصد تھا، جو 2023 میں کم ہوکر 16 فیصد سے بھی نیچے آ گیا، سال 2017/18کا دفاعی بجٹ مجموعی قومی بجٹ کا 18فیصد تھا۔سال 2017/18کا دفاعی بجٹ مجموعی قومی بجٹ کا 18فیصد تھامالی سال2018-19 کاکل بجٹ 5932 ارب روپے تھا۔اس میں دفاع کے لیے 1100 ارب روپے رکھے گئے جو کل بجٹ کا 18.54 فیصد بنتا ہے(پاک فوج نے ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوے سال 2019 میں ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے اپنے بجٹ میں مختص 100 ارب روپے بھی ترک کر دیے تھے )۔
مالی سال2019-20کا کل بجٹ 7022 ارب روپے تھا جس میں دفاع کے لیے 1150 ارب مختص کیے گئے۔یہ کل بجٹ کا 16.37 فیصد بنتا ہے۔سال 2020-21 کا کل بجٹ 7136 ارب روپے تھا جس میں دفاع کے لیے کل 1290 ارب روپے رکھے گئے تھے جو کل بجٹ کا 18 فیصد بنتا ہے۔خراب ملکی حالات اور دگرگوں معیشت کے پیش نظر 2021-22 دفاعی مد میں 1370 ارب روپے مختص کیے گئے۔ اس طرح گزشتہ پانچ سالوں میں دفاعی بجٹ میں خاصی کمی واقع ہوئی نہ کہ اضافہ۔
قابل توجہ امر یہ ہے کہ 80کی دہائی کے اختتام تک پاکستان اپنے جی ڈی پی(یا مجموعی ملکی پیداوار)کا 7 فیصد دفاع پر خرچ کرتا تھا جو 90 اور 2000 کی دہائی میں کم ہو کر 3.9 فیصد رہ گیا۔ مالی سال2014-15 میں دفاعی بجٹ میں مزید کمی دیکھنے کو ملی جب اسے گھٹا کر 2.4 فیصد کردیا گیا۔ اب یہ تناسب مزید کم ہو کر 2.2 فیصد رہ گیا ہے لیکن اس کے باوجود افواج پاکستان کے پایہ استقلال میں کوئی کمی واقع ہوئی اور نہ ہی اس کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں میں کوئی خلل پڑا ۔انتہائی کم خرچ میں دنیا کی ساتویں بڑی فوج کا انتظام چلانا یقینا لائق تحسین ہے۔
پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ فوجی اخراجات والے 40 ممالک کی فہرست میں 23 ویں نمبر پر ہے ملٹری ایکسپینڈیچر ڈیٹا بیس اور ملٹری بیلنس انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز کے مطابق، پاکستانGDPکا (2.54 ) فی صددفاع پرخرچ کرتاہے جبکہ دفاع پر زیادہ خرچ کرنے والے ممالک میں عمانGDPکا 12 فیصد۔لبنان 10.5فیصد۔، سعودی عرب 8 فیصد۔، کویت 7.1فیصد۔، الجیریا 6.7فیصد۔، عراق 5.8فیصد۔، متحدہ عرب امارات 5.6فیصد۔، آذربائیجان 4فیصد۔، ترکی 2.77 فیصد۔، مراکش 5.3فیصد۔، اسرائیل 5.2فیصد۔اردن 4.9فیصد۔، آرمینیا 4.8فیصد۔، مالی 4.5فیصد۔، قطر 4.4 فیصد۔ روس 3.9 فیصد۔ امریکہ 3.4 فیصد اور بھارت 3.1فیصدخرچ کرتاہے ۔اس فہرست میں پاکستان کا نام بہت نیچے ہے۔جبکہ اس کے ہمسایہ ممالک اس فہرست میں کہیں اوپر ہیں۔
دشمن عناصر کی جانب سے ایسے کئی مغالطے،قیاس آرائیاں اور شکوک و شبہات پھیلا کر عام ذہنوں کو پراگندہ کیا جا رہا ہے تاکہ افواج پاکستان کے خلاف نفرت پھیلا کر اسے کمزور کیا جا سکے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا محل وقوع اور جغرافیائی پوزیشن ایسی ہے کہ اسے ہمہ وقت بے شمار چیلنجز درپیش رہتے ہیں جن میں عالمی سازشیں، پڑوسی ممالک کی ریشہ دوانیاں، لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی،سرحد پاردہشت گرد حملے اور ففتھ جنریشن وار سمیت بے شمار اندرونی وبیرونی مسائل شامل ہیں۔ افواج پاکستان اپنے قلیل بجٹ سے نہ صرف اپنے آپریشنل اخراجات پورے کرتی ہیں بلکہ ملک کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجز سے بھی نمٹتی ہیں۔وسیع پیمانے پر ہونے والے پراپیگنڈہ اور منفی ہتھکنڈوں کے باوجود ہماری افواج Motivated ہیں۔ وہ ملکی سا لمیت کی خاطر اپنے رات دن ایک کیے ہوئے ہیں۔
ان تمام حقائق اور اعداد و شمار کا بغور جائزہ لینے کے بعد بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کے عسکری ادارے تندہی اور جانفشانی کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآں ہو رہے ہیں۔ ایسے منفی تاثرات اور ہتھکنڈوں سے نہ صرف دفاعی ادارں کے مورال پر منفی اثر پڑتا ہے بلکہ قومی سطح پر فوج کے خلاف منفی جذبات بھی پروان چڑھتے ہیں جو ملکی سا لمیت کے لیے زہر قاتل ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کٹھن حالات میں جب کہ ملک کو اندرونی اور بیرونی سطح پر بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے، افوج پاکستان پر غیر ضروری تنقید کرنے کے بجائے ان کا ساتھ دیا جائے اور ان کے شانہ بشانہ دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنایا جائے۔