نومبر 23, 2024

حق و باطل کے معیار کی پہچان

تحریر: ڈاکٹر علی محمد جوادی

حق و باطل ان مفاہیم سے ہے جس کی تعریف اور تشخیص بہت ہی پیچیدہ اور باریک ہے اسی لئےمعمولا عوام حق و باطل کی تشخیص میں دھوکہ کھاتے ہیں اور باطل کو حق سمجھ کر اس کے ساتھ دیتے ہیں۔ کچھ لوگ آج کل پاکستان میں سکیولر سیاسی پارٹیوں کے رہنماوں میں سے بعض کو ان کے چاہنے والے حق و باطل کا معیار قرار دینے میں مصر ہیں اور ان کو اور ان کے ظاہری کردار کو تاریخی و قرآنی عظیم ہستیوں اور ان کی پاک سیرت کے ساتھ تشبیہ بھی دیتے ہیں۔ سب سے پہلے تو صرف واقعہ کی ظاہری مشابہت دلیل نہیں بنتی ہے کہ موجودہ دور کے کسی واقعے کو تاریخی کسی انسانیت ساز واقعے کے ساتھ تشبیہ دی جائے بلکہ اس واقعے کو وجود میں لانے اور لیڈ کرنے والوں اور تاریخی انسانیت ساز واقعے کو ایجاد کرنے اور لیڈ کرنے والے رہنماوں میں بھی شخصیتی منزلت، علمی کمالات اور اخلاقی و رفتاری فضائل کے حوالے سے مشابہت پائی جانی چاہئے جو کہ کسی بھی صورت ممکن نہیں ہے۔ لذا تشبیہ غلط اور قیاس مع الفارق ہے۔ ہاں البتہ ان کے اپنے اور حامیوں کی طرف سے بنائے ہوے معیارات کے مطابق حق و باطل ہو سکتے ہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان میں اکثر حکمرانی غیر صالح، غیر عادل اور غیر متدین لوگوں رہی ہے اور ساری سکیولر پارٹیان اسی زمرے میں آتی ہیں تو یہاں حق اور ناحق معنا ہی نہیں رکھتا ہے بلکہ یہ بنی امیہ اور بنی عباس کی جنگ کی طرح اقتدار اور طاقت کے حصول کے لئے آپس کی کشمکش ہے اور دونوں طرف کے لیڈران اور حامیان باطل راہ پر گامزن ہیں کیوں کہ قرانی تعلیمات کے مطابق حق حکمرانی ان کو حاصل نہیں ہے۔ درحقیقت قرآنی تعلیمات کی روشنی میں حق حکمرانی ان کو حاصل ہے جو خدا پر راسخ ایمان رکھتا ہو۔ دین شناس ہو، راہ خدا پر گامزن ہو، راہ خدا پر لوگوں کی ہدایت کرتاہو ، الہی تعلیمات کے مطابق اپنے معاملات کو چلا تا ہوں اور قرآن کی دستورات کے مطابق حکمرانی کرتاہو۔ دوسرے الفاظ میں صالح، عادل اور متدین ہو تو وہ حق ہے اور حق حکمرانی رکھتا ہے وگرنہ کوئی بھی ہو حق نہیں ہے اور حق حکمرانی بھی نہیں رکھتا ہے ۔ لیکن اقتدار کی ظاہری جذابیت کی وجہ سے دنیا میں حکمرانی کا حق نہ رکھنے والے افراد مختلف طریقوں اور حیلوں سے بر سر اقتدار آتے ہیں اور طاقت کو ہاتھ میں لیتے ہیں اور عوام الناس کی اکثریت بھی انہی کے ساتھ ہوجاتی ہے یہیں وجہ ہے کہ قرآن نے اکثریت کے افکار اور اعمال کی مذمت کی اور اکثریت کو معیار حق بنانے سے منع کیا ہے: (وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۚ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ﴾ اگر روی زمین پر اکثریت کی پیروی کروگے تو وہ تمہیں راہ خدا سے بٹکائیں گے۔ یہ لوگ وہم و گمان اور جھوٹ کے علاوہ کسی حقیقت کی پیروی نہیں کرتے ہیں۔ یہیں وجہ ہے کہ قرآن نے انسانوں کی اکثریت کو گھاٹے میں کہا ہے: وَٱلْعَصْرِ ١ إِنَّ ٱلإِنسَانَ لَفِى خُسْرٍ ٢ إِلاَّ ٱلَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْاْ بِٱلْحَقِّ وَتَوَاصَوْاْ بِٱلصَّبْرِ) زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے سوای وہ لوگ جنہوں نے صحیح ایمان لایا ہو اور اس ایمان کے مطابق اعمال صالح انجام دیا ہو اور ایک دوسرے کو حق پر رہنے اور مصائب پر صبر کی تلقین کرتے ہوں۔ پس حق کا معیار ایمان راسخ، اعمال صالح اور حق اور مصائب پر صبر کی تلقین کرنا ہے۔ اسی لئے امیر المونین علی علیہ السلام نے فرمایا: ( وإن الحق والباطل لا يعرفان بالناس، ولكن اعرف الحق تعرف أهله، واعرف الباطل تعرف من أتاه) اور حق وباطل لوگوں کی اقلیت اور اکثریت سے پہچانے نہیں جاتے ہیں۔ ہاں پہلے حق کو پہچانو تو اہل حق پہچانے جائیں گے اور اسی طرح پہلے باطل کو پہچانو تو اہل باطل پہچانے جائیں گے۔ اور یہ بات بھی یاد رکھیں کہ کسی کا ظاہری کردار اور دلفریب و خوبصورت نعرے بھی حق و باطل کا معیار نہیں ہیں کیوں کہ اس حوالے سے بھی امیر المومنین علیہ السلام کا رہنما فرمان موجود ہے: (وَ قَالَ عليه السلام لَمَّا سَمِعَ قَوْلَ الْخَوَارِجِ لَا حُكْمَ إِلَّا لِلَّهِ كَلِمَةُ حَقٍّ يُرَادُ بِهَا بَاطِلٌ) جب امام علی نے خوارج کا یہ نعرہ کہ ( حق حکمرانی صرف خدا کو حاصل ہے) سنا تو فرمایا: ان کا نعرہ تو درست ہے لیکن اس سے اپنے باطل مقاصد اور ارادوں کی تکمیل کے لئے استفادہ کیا جاتا ہے۔ قرآنی اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حق حاکمیت کی اولویت صالح ، عادل اور متدین افراد کو حاصل ہے لیکن اگر ایسے افراد میسر نہ ہوں یا ایسے افراد کے لئے معاشرے میں زمینہ اور شرائط مہیا نہ ہوں اور حکومت کے حصول کے لئے راہ ہموار نہ ہو تو پھر بھی مجبوری کی حالت میں کوئی نا کوئی حاکم ہونا چاہئے تاکہ معاشرے کے نظم و انظباط کو بر قرار رکھے اگرچہ وہ حاکم فاجر ہی کیوں نہ ہو یہ مطلب بھی امیر المومنین علیہ السلام کے فرمان سے استفادہ ہوجا تا ہے «لابُدَّ لِلنّاسِ مِن أَمِیرٍ بَرٍّ أَو فاجِرٍ» مجبوری کی حالت میں لوگوں کے لئے کوئی نا کوئی حاکم ہونا چاہئے چاہے وہ صالح ہو یا فاجر ہو۔ امام کے اس فرمان کا مطلب یہ نہیں ہے کہ فاجر حاکم بھی حق ہے ۔ نہیں بلکہ حق حاکم وہی ہے جو دینی تعلیمات کی روشنی میں صالح ، عادل اور متدین ہو لیکن ایسے فرد کی عدم موجودگی یا شرائط مہیا نہ ہو تو معاشرے کے نظم و انظباط کے خاطر غیر صالح، غیر عادل اور غیر متدین فرد کی حکمرانی مجبوری ہے اور اگرسب کے سب ایسے ہی حکمران ہوں تو پھر یہاں حق و باطل کوئی معنا نہیں رکھتا ہے ہاں ایسے مرحلے میں کار آمد اور ناکار آمد حکمران، عوام دوست اور عوام دشمن حکمران کی بحث ہوسکتی ہے۔ نہ حق و باطل کی بحث

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

five − 3 =