نومبر 22, 2024

مجھے آہ و فغان نیم شب کا پھر پیام آیا

تحریر: قادر خان یوسفزئی

سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی ایسا مثبت پروگرام نہیں جس سے ظاہر ہو کہ ملک میں مہنگائی اور بحرانوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔ روش کے مطابق ہر نئی آنے والی حکومت اپوزیشن کو قصور وار ٹھہراتی ہے اور جب اپوزیشن حکومت میں آ جاتی ہے تو سابقہ حکومت کی پالیسیوں کو مورود الزام ٹھہرا کر خود کو خراب حالات سے بری الزمہ کرنے کی کوشش کرتی ہے، کئی دہائیوں سے یہی عمل دیکھنے میں آیا ہے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ اگر ہم یہ کہیں کہ نوجوان نسل کے سامنے اصل حقائق یہی ہیں کہ ان کا مستقبل کسی بھی جماعت کے ہاتھوں محفوظ نہیں رہا، قریباً سب نے نوجوانوں کو اپنے فروعی مقاصد کیلئے استعمال کیا اور ان کے سامنے مثبت پروگرام نہیں رکھا۔ سیاسی جماعتوں کا ”تبدیلی“ ایک مبہم جذباتی نعرہ ہے جو مسلسل بلند کرتے چلے آ رہے ہیں، اسی سے بالعموم عوام اور بالخصوص نوجوانوں کو فریب دیتے آئے ہیں، نوجوانوں کو مستقبل کے جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کیلئے کسی کی تبدیلی کے نعرے کا موازنہ کرنا ہو تو اپنے علاقے، شہر اور ملک میں تعلیمی درس گاہوں اور ان میں پڑھائے جانے و الے علوم کو دیکھ لیں، اس سے ہمیں ارباب ِ اختیار کی ترجیحات کا بخوبی اندازہ ہوجائے گا۔

نوجوان نسل کو جس بے دردی سے تباہ کیا جا رہا ہے، اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اپوزیشن کا یہ وتیرہ رہا ہے، اس موقع پر ایک مذہبی جماعت کے مرحوم سربراہ کا بیان میرے سامنے ہے جب 25اگست1972میں ناصر باغ لاہور میں دوران تقریر انہوں نے فرمایا تھا کہ ”حکومت کے خلاف نفرت پھیلانا صرف ہمارا حق نہیں بلکہ ہمارا دینی اور قومی فریضہ ہے اور ہم نفرت پھیلانے سے باز نہیں آئیں گے۔“ اب اپنے قرب و جوار میں دیکھ لیں کہ ’نفرت پھیلانا‘ بس یہی ایک ٹیکنیک رہ گئی، جسے نوجوانوں میں بڑی شدت کے ساتھ استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس حربے کا توڑ تو یہی ہے کہ کوئی ایسی حرکت نہ کی جائے جس سے نفرت پھیلانے کا موقع ملے۔ مگر ایسا کون کرے گا، جو ہر چھوٹی سے چھوٹی بات سے لے کر ملکی مفاد کے حساس معاملات پر بھی سنجیدگی اختیار کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں اور سول بالا دستی کے نام پر اداروں کو اپنے جوتے کی نوک پر، لیکن ان کا یہی مقصد ہوتا تو شاید سول بالا دستی کیلئے سخت سے سخت رویہ بھی قابل قبول ہوتا لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ قطعی ایسا نہیں ہے۔ ہمیں اب کھل کر بتایا جا چکا ہے کہ رات کی تاریکیوں میں ملنے والے دن کی روشنیوں میں جھوٹ اور فتنہ پھیلاتے ہیں، اس قسم کے لوگوں کی ساری مشق کا مقصد صرف اور صرف مسند اقتدار کا حصول ہے، ان کے ہر جھوٹ کا مقصد زندگی کے اہم مصالح کی خاطر بولنا جائز ہی نہیں بلکہ واجب بھی ہے، لیکن اس قسم کے جھوٹ اور فساد فی الارض پھیلانے کے بے سروپا الزامات کا اثر دیر پا نہیں ہوتا، جھوٹ چند دنوں کے بعد خود ہی مر جاتا ہے۔ صرف دنیاوی لالچ کیلئے مذہب کا غلط استعمال کرکے نفرت پھیلانے کی امکان بھر کوشش کی جاتی ہے جس کا انجام یقینی طور پر کبھی بھی اچھا نہیں نکلا۔

پاکستان سے محبت کرنے والا کوئی بھی فرد اگر کسی شخصیت، سیاسی جماعت، تنظیم یا ادارے کی کوتاہیوں اور خرابیوں پر تنقید کرتا ہے تو یہ ایک صالح عمل کہلائے گا لیکن مقصد صرف فروعی مفادات کا حصول اور اپنی ذات ہے تو اس پر کوئی بھی یقین کرنے کو تیار نہیں ہو سکتا کہ اسے پاکستان کی آخری امید سمجھا جائے۔ مملکت کے استحکام کیلئے دل سے خواہاں با شعور خاموش اکثریت چاہتے ہوئے بھی کچھ اس لیے نہیں کر سکتی کیونکہ ان کی خاموشی میں وطن ِ عزیز سے محبت تو ہے لیکن اسی معاشرے کے اُن کرداروں کا خوف بھی حاوی ہے جن کے قول و فعل میں تضاد کی وجہ سے یہ دلی ناپسند کرتے ہیں۔ با شعور حلقے کی جانب سے اسقام و نقائص کے خلاف تنقید کو ملک دشمنی اور غداری سمجھ لیا جاتا ہے، حالاں کہ ان کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اپنی غلطیوں کی بر وقت اصلاح کرلی جائے تاکہ ملک کے استحکام میں فرق نہ آنے پائے۔ اسی نیت سے اور اسی مقصد کے پیش نظر وطن عزیز کے مستقبل نوجوانوں سے گزارش ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت یا شخصیت کے جذباتی نعروں میں بہہ جانے سے قبل ان کی کم از کم دو دہائیوں کی حکمت عملی اور سیاست کا احتساب کرلیا کریں، بڑے چور سے چھوٹا چور بہتر کی روش سے خود کو باہر نکالیں کیونکہ بڑا چور، بڑا بننے سے پہلے چھوٹا چور ہی تھا۔ ہر سیاسی جماعت کی کھلی حمایت کرنے سے پہلے ذرا رک کر پنی جذباتی کسوٹی میں پرکھنے کے بجائے، ان کی کارکردگی پر نگہ احتساب ڈالیں کہ اس سے کیا کیا کوتاہیاں ہوئی ہیں اور جنہیں اختیارات ملے، انہوں نے ان کا کس طرح استعمال کیا۔ ان کی دیانت، امانت، رفتار، گفتار، کردار کا کیا انداز رہا کہ حکومتوں کے استحکام پر ان سب امور کا اثر پڑتا ہے۔

نہایت ٹھنڈ ے دل سے بنظر ِ غائر ان تمام امور کا جائزہ لیں اور پھر دیکھیں کہ کہیں پانی تو نہیں مر رہا۔ اگر انہوں نے ان نقائص و اسقام کی بر وقت اصلاح کرلی تو پھر یقینی طور پر وہ ملک و قوم سے مخلص ہوگئے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے اور کسی نے صرف سیاسی حمایتیں ہی بدلی ہیں اور نفرت انگیز مہمات کا سلسلہ رکا نہیں ہے تو چاہے ہم کتنے ہی صفحات کالے کرلیں، خاموش اکثریت ابابیلوں کا انتظار کرتے رہیں اور عوام چاہیں کہ سب کچھ خود سے ٹھیک ہوجائے تو یاد رکھئے کہ نفرت پھیلانے کے ان گنت مواقع صرف با شعور قوم کی سست روی اور سہل پسندی کی وجہ سے انہیں ملتے رہیں گے جن کا کوئی توڑ بھی نہیں ہوگا۔ اس سے معاشرہ میں خلفشار رونما ہوگا اور خدانکردہ وہی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے جو 1969میں ہوئی تھی، اگر ایسا ہوا تو پاکستان اس دھچکے کا متحمل نہیں ہو سکے گا، صرف اتنا ہی عرض کروں گا کہ اس وقت معاشرہ کے جو حالات ہیں اس میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں بالخصوص تبدیلی کے نام پر سیاست کرنے والی جماعت کی نفرت پھیلانے کی مہم کیلئے بڑے ساز گار ہیں اور اسی لیے یہ لوگ اب کھلے بندوں ’نکھر‘ کر سامنے بھی آ رہے ہیں۔ دعا بھی یہی ہے کہ اللہ تعالی وطن عزیز کوکسی بھی قسم کی شر انگیز یوں سے محفوظ رکھے۔

مجھے آہ و فغان نیم شب کا پھر پیام آیا
تھم اے رہ روکہ شاید پھر کوئی مشکل مقام آیا

 

۔

 

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

13 − twelve =