تحریر: کوثر عباس قمی
فَلْيَنظُرِ الْإِنسَانُ إِلَى طَعَامِهِ
سورہ عبس کی آیت نمبر 24 میں ارشاد ہوا
ذرا انسان اپنے کھانے کی طرف تو نگاہ کرے
اس آیہ شریفہ میں طعام کے معنی وسیع ہیں اور نگاہ کرنے اور دیکھنے کے معنی بھی وسیع ہیں۔
کھانے پہ نگاہ اور غور وفکر کا مفہوم *کئی طرح* کا ہو سکتا ہے
نمبر1- چونکہ یہ آیات انواع و اقسام کی ان غذاؤں کے بارے میں ہیں جو خدا نے انسانوں اور چوپاؤں کے اختیار میں دی ہیں اور ان کی گفتگو کر رہی ہیں لہذا پروردگارِ عالم انسان کی حسِّ شکرگزاری کو ابھارتا ہے اور اس کو اپنے منعم کی معرفت کی دعوت دیتا ہے ۔
پہلے فرماتا ہے:
“انسان کو چاہیے کہ اپنی غذا کی طرف دیکھے کس طرح خدا نے اُسے پیدا کیا ہے”(فلينظر الانسان الىٰ طعامه).
اس کے بعد خدا نے کھانے والی چیزوں کا ذکر کیا ہے
خارجی اشیاء میں انسان کے سب سے زیادہ قریب اس کی غذا ہے جو کچھ تبدیلی کے بعد انسان کے بدن کا جزو بن جاتی ہے۔
اگر اس تک وہ غذا نہ پہنچے تو یہ بہت جلد فنا ہو جائے۔
اسی لیے قرآن نے تمام موجودات میں سے صرف ایسے غذائی مواد پر انحصار کیا ہے جو گیاه و نباتات و اشجار سے حاصل ہوتی ہے۔
دیکھنے سے مراد محض ظاہری طور پر دیکھنا ہی نہیں بلکہ اس موادِ غذائی کی ساخت اور بناوٹ کے بارے میں اور اس کے حیات بخش اجزاء کے بارے میں اور عجیب و غریب اثرات پر جو وہ وجودِ انسانی پر مرتب کرتی ہیں، غور و فکر کرنا ہے۔ کہ ان کا خالق کون ہے؟ اور کس طرح ایک سسٹم کے تحت بہت ساری ماکولات سے تشکیل پا کے میرے سامنے دستر خوان پہ موجود ہیں جن کے اگانے، کاٹنے اور مارکیٹ میں لانے حتی’ پکانے اور دستر خوان پہ لگانے میں میرا کوئی کردار نہیں
نیز غذا کے ظاہری مثبت اور منفی اثرات پہ غور کیا جائے کہ کونسی غذا بدن کے لیے مضر ہے اور کونسی مفید
مواد غذائی کی طرف دیکھنے سے مراد یہ بھی ہے کہ انسان جب دسترخوان پر بیٹھتا ہے تو اس وقت نگاہ ِتدبر و تفکر سے دیکھے کہ موادِ غذائی کو اس نے کن ذرائع سے فراہم کیا ہے ،
حلال ذرائع سے یا حرام ذرائع سے؟
مشروع ذرائع سے یا غیر مشروع ذرائع سے؟
جورزق اس کے پاس ہے اور اپنے اہل وعیال کے ساتھ مل کرکھارہاہے وہ حلال طریقہ سے حاصل کیاگیاہے یامال حرام کھارہاہے؟
اس لیے کہ رزق حلال اور حرام کے اپنی اپنی جگہ اثرات ہیں.
اگر انسان جو رزق کھا رہا ہے حلال نہ ہو تو کتنا بڑا عامل کیوں نہ ہو اعلی’ روحانی مدارج حاصل نہیں کر سکتا اور اگر اپنے بال بچوں کی پرورش رزق حرام سے کررہا ہے تو پھر اپنی اولاد سے اعمال صالح کی توقع نہ رکھے بلکہ اس کے برعکس وہ قبیح اور برے اعمال سر انجام دیں گے جو اس کے لیے دنیا میں بھی مسائل و مشکلات کا سبب بنیں گے اور آخرت میں عذاب کا
{اور یاد رکھیے معاھدے کے مطابق کام پورا نہ کرنا اور رقم پوری لے لینا
جاب میں پورا وقت نہ دینا اور تنخواہ پوری لے لینا
پیسے پورے لے لینا اور سودا یا مال کم دینا
پیسے اعلی’ جنس کے لینا اور مال گھٹیا دینا
کسی کے پلاٹ یا مکان پہ قبضہ کر لینا
کسی کا کام کرنے کے لیے رشوت لینا
کسی عورت کا مالی مشکلات میں مجبور ہوکر اپنی عزت نیلام کر دینا
اسی طرح *مال میں سے خمس اور زکات کا ادا نہ کرنا بھی حرام اور ان ذرائع سے حاصل کردہ رزق بھی رزق حرام ہے*}
پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جوشخص اپنی دعاقبول ہونے کی تمنا رکھتاہے تواسے چاہئے کہ پاک وپاکیزہ کھائے اورپہنے۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
تم میں جوشخص اپنے دل میں دعاکے قبول ہونے کی تمنارکھتاہے تواسے چاہئے کہ اپنے کسب معاش کوحلال وپاک کرے اورلوگوں کے مظالم سے باہرآئے کیونکہ جس انسان کے شکم میں حرام غذاہوتی ہے یااس کی گردن پردوسروں پرکئے گئے ظلم کابوجھ ہوتاہے تواس بندہ (مظلوم) کی (بد) دعابارگاہ خداوندی تک پہنچائی جاتی ہے
قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ:من اکل لقمة حرام لم تقبل صلاتہ اربعین لیلةً ولم تستجیب لہ دعوة اربعین صباحاًوکلّ لحم ینبتہ الحرام فالناراَولیٰ بہِ وانّ اللقمة الواحدة نبت اللحم۔
پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جوشخص ایک لقمہ بھی مال حرام کھاتاہے چالیس رات تک اس کی کوئی نمازقبول نہیں ہوتی ہے اورنہ چالیس صبح تک اس کی کوئی دعاقبول ہوتی ہے اور حرام مال کھانے سے بدن میں جتنابھی گوشت بڑھتاہے وہ جہنم کاحصہ بن جاتاہے اوریادرہے ایک لقمہ سے بھی بدن میں گوشت بڑھتاہے ۔
اس طرح وہ اخلاقی اور تشریحی پہلوؤں کو بھی موردِ توجہ قرار د ے۔
اس لیے کہ بعض روایات میں، جو معصومین سے منقول ہیں، آیا ہے کہ یہاں طعام سے مراد علم و دانش بھی ہے جو روحِ انسانی کی غذا ہے۔ اسے دیکھنا چاہیے کہ اسے کس سے حاصل کیا ہے؟
منجملہ دیگر باتوں کے امام محمد باقر ؑسے منقول ہے کہ آپ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا:
(علمه الذی يأخذه عمن يأخذه )
انسان دیکھے کہ جو علم حاصل کر رہا ہے وہ کس سے حاصل کر رہا ہے.
اس میں شک نہیں کہ آیت کے ظاہری معنی جسمانی غذائیں ہی ہیں جو بعد والی آیات میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہیں لیکن غذاء روحانی کو بھی اولویت کی بناء پر معلوم کیا جا سکتا ہے، اس لیے کہ انسان روح و جسم سے مرکب ہے اور جس طرح اس کا جسم مادی غذا کی احتیاج رکھتا ہے اسی طرح اس کی روح روحانی غذا کی محتاج ہے ۔
انسان کو چاہیے کہ جہاں اپنی جسمانی غذا کے بارے میں تفکر کرے وہاں بعد والی آیت کے مطابق اس غذا کے سر چشمے یعنی باران ِرحمت کے بارے میں بھی سوچے جو حیات بخش ہے۔ اور اسے اپنی روحانی غذا کے بارے میں بھی غور و فکر کرنا چاہیے
*جو بارانِ وحی کے ذریعہ سے پیغمبر ﷺکے قلب پاک کی سرزمین پر نازل ہوتی ہے*
*معصومین کے سینے میں اس کا ذخیرہ ہوتا ہے اور جوش مارنے والے چشموں کی طرح وہ ان کے صفحہِ قلوب پر جاری ہوتی ہے*
اور انواع و اقسام کے لذت بخش پھلوں یعنی ایمان و تقویٰ اور اخلاقی فضائل کی پرورش کرتی ہے۔
جی ہاں ! انسان کو اچھی طرح دیکھنا چاہئے کہ اس کے علم و دانش کا سر چشمہ کہاں ہے؟
یہ اس کی روحانی غذا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہیں کسی چشمہ آلودہ سے غذاء روحانی حاصل کر رہا ہو اگر ایسا ہے تو وہ اس کے جسم و روح کو مزید بیمار کر دے گا اور اسے ہلاکت میں ڈال دے گا۔
لھذا مومن ہوں یا کافر سب کو چاہیے کہ اپنے موادِ غذائی، ان کے عجائبات اور ان میں پوشیدہ اسرار و رموز پر غور کریں تاکہ بے ایمان افراد کو حق کا راستہ ملے اور مومن افراد کی ایمان کی قوت میں اضافہ ہو۔
واقعی موادِ غذائی ،پھل ، غذائی اجناس اور سبز یوں میں سے ہر ایک چشم بصیرت کے لیے ایک ایسی تعجب خیز دنیا رکھتے ہیں جس کا مدتوں مطالعہ کیا جا سکتا ہے اور ان سے درس حاصل کیے جا سکتے ہیں جو تمام عمر ہمیں روشنی دانش دے سکتے ہیں۔
اللھم طہر بطوننا من الحرام والشبہہ
امام زمانہ عجل اللہ تعالی’ فرجہ الشریف کی دعا کا ایک حصہ ہے کہ آپ نے فرمایا دعا کیا کرو کہ خداوند متعال تمہارے پیٹ کو حرام اور مشکوک رزق سے محفوظ رکھے
آمین یا رب العالمین
بحق محمد و آلہ الطاہرین
*اس تحریر کا مواد درج ذیل کتب سے حاصل کیا گیا*
تفسیر نمونہ سورہ عبس کی آیت نمبر 24 کے ذیل میں
تفسیر برہان ، جلد ۴ ص ۴۲۹
تفسیر برہان ، جلد ۴ ص ۴۲۹
تفسیر روح المعانی ، قرطبی ،
فی ظلال القران ،
درالمنشور اور المیزان زیر بحث آیات کے ذیل میں۔
ارشاد مفید مطابق نقل المیزان ، جلد ۲۰ ص ۳۱۹۔
مستدرک سفینة البحار/ج۳/ص۲۸۸.
(۴)بحارالانوار/ج۹۰/ص۳۲۱
بحارالانوار/ج۶۳/ص۳۱۴