تحریر: علی محمد جوادی
سنہ ۲۰۱۲ میں شام اور عراق پر عربی ، عبری اور مغربی مثلث کی پشت پناہی میں داعش کے حملے اور ہزاروں بے گناہ لوگوں کے قتل عام کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران نے داعش کے خلاف شام اور عراق کی مدد، آیت اللہ باقر النمر کی آل سعود کے ہاتھوں بے گناہ شہادت اور یمن پر سعودی جارحیت کے خلاف ایران کے احتجاج اور یمنی مظلوم عوام کی حمایت کے بعد، بعض عربی ممالک نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کئے تھے ان ممالک میں سر فہرست سعودی عرب اور ان کے پیچھے چلنے والے بعض عربی خصوصا بعض خلیجی ممالک تھے۔
عربی ممالک کا ایران کے ساتھ رویہ
سفارتی تعلقات ختم کرنے کے بعد اس دوارانئے میں ان ممالک نے استکباری طاقتوں کے اشارے پر ہر وہ حربہ استعمال کیا کہ جس سے ایران کا دائرہ تنگ ہوجائے اور خطے میں ایران کی طاقت کمزور ہوجائے، استکباری طاقتوں کی جانب سے ایران کے خلاف خطے اور بین الاقوامی سطح پر اٹھائے جانے ہر غلط اقدام کی حمایت کی ۔ امریکہ کا اقوام متحدہ کی قرارداد کی خلاف ورز کرتے ہوے ایٹمی بین الاقوامی معاہدے سے یک طرفہ خروج کی حمایت کی ، ایران پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوے لگائی گئی شدید ترین ہمہ گیر پابندیوں کی حمایت کی ، خطے میں امریکی ریاستی دہشتگردی اور جنرل قاسم سلیمانی شہید کے قتل جیسے امریکہ کے غیر قانونی اقدامات کی بھی حمایت کی، حتی ایران کی دشمنی میں غاصب صہیونی خون خوار حکومت کے ساتھ بھی سفارتی روابط ایجاد کرنے کی مذموم اور شرم آور کوشش کی گئی۔ ایران کے اندر ایک تاریخی جھوٹ کی بنیاد پر استکباری میڈیا کی مدد سے اٹھنے والے فسادات میں %1سے بھی کم بلوائیوں اور فواحش کی بھی بھر پور حمایت کی تاکہ ان کے اپنے گمان میں ایران کا اسلامی نظام نابود ہوجائے۔
لیکن نتیجہ 180 ڈگری الثا نکلا ، اس دوران ہوا کیا؟ ایران ان دس سالوں میں نہ فقط کمزور نہیں ہوا بلکہ پہلے سے دس برابر طاقت ور بن کر سامنے آیا۔
ایران کی طاقت کے کچھ اہم مظاہر
ایران نے گذشتہ ۱۰ سالوں میں خطے کے بعض ممالک کی دشمنی اور عالمی استکباری طاقتوں کی جانب سے شدید ترین پابندیوں اور تنگنائیوں کے با وجود اپنی طاقت کے درج ذیل جلوے دکھائے ہیں۔
۱۔ایران کا خطے میں اثر و رسوخ پہلے سے زیادہ اضافہ ہوگیا ایران نے یمن میں انصار اللہ اور عراق میں قومی رضا کار فورس (حشد الشعبی) اصولی سیاسی حمایت کرکے حزب اللہ کی طرح اپنے لئے نئے اسٹریٹجیک دوست اور حامی پیدا کئے۔
۲۔عربی، عبری اور مغربی مثلث کی پشت پناہی اور 80 سے زاید ملکوں کی افرادی قوت پر مشتمل داعش جیسے خطرناک اور خون آشام طاقور عالمی دہشتگردوں کو ایران نے خطے میں نابود کرکے شام اور عراق کی حفاظت کی اورخطے کو داعش کے منحوس وجود سے پاک کرکے پر امن بنایا۔
۳۔ اس دوران سعودی عرب اور ان کے پیچھے چلنے والے بعض خلیجی ممالک نے قطر کا زمینی ، ہوائی ، اقتصادی اور سیاسی محاصرہ کیا لیکن ایران کی عقل مندی ، سیاسی ہوشیاری اور سنجیدہ حکمت عملی کی وجہ سے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کا یہ ظالمانہ محاصرہ ناکام رہا اور قطر ایران کا دوست و حامی ملک بن گیا۔
4۔ا مریکہ نے داعش کی شکست کا ایران سے بدلہ لینے کے لئے جنرل قاسم سلیمانی کو ریاستی دہشگردی کا نشانہ بناکر شہید کردیا تو ایران نے جرئت کا مظاہرہ کرتے ہوے عراق میں امریکہ کے عسکری اڈے عین الاسد کو میزائلوں کا نشانہ بنایا، دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ پہلا موقع تھا کی کسی ملک(ایران) نے دائریکٹ امریکہ پر حملہ کیا یعنی ایران نے امریکہ کی گستاخی کو بے جواب نہیں رکھا۔
۵۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ایٹمی بین الاقوامی معاہدے سے یک طرفہ خارج ہونے کے بعد ایران پر شدید ترین اقتصادی پابندیاں لگائی لیکن ایران کے اسلامی نظاام اور عوام کی ہوشیاری اور سنجیدہ حکمت عملی نے ان پابندیوں کو بے اثر بنایا جس کا خود امریکہ نے بھی اعتراف کیا ہے۔
۶۔ ایران نے شدید ترین پابندیوں کےباوجود مختلف شعبوں میں ترقی کی خصوصا علم و ٹیکنالوجی اور عسکری ودفاعی شعبے میں اب مغربی ایشیا میں ایران کا کوئی ثانی نہیں ہے اس وقت ایران اپناجدید ترین اسلحہ اور ٹیکنالوجی دوسرے طاقت ور ملکوں کو بیچتا ہے حتی اس حوالے سے روس اور چین جیسے ممالک بھی ایران کے محتاج ہیں۔
۷۔ ایران نے خطے میں استکباری طاقتوں اور غاصب صہیونی حکومت کے سارے ایجنڈوں اور نقشوں کو خاک میں ملا دیا ہے ایک طرف ایران کی طاقت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے تو دوسری طرف سے غاصب صہیونی حکومت مقبوضہ فلسطین میں کمزور ہوتی جارہی ہے اسرائیل کے چار طرف سے مقاومت بلاگ کی طاقت نے محاصرہ کیا ہواہے اگر اسرائیل نے اپنے پاوں گو اپنی گلیم سے زیادہ پھلانے کی حماقت کی تو اس کی نابودی یقینی ہے۔
۸۔ ایران نے خطے میں طاقت کا توازن بر قرار کیا ہے، ان دس سالوں میں عالمی سطح پرایران نے علم و ٹیکنالوجی کے علاوہ عسکری اور دفاعی شعبے خصوصا میزائل ڈراوں طیاروں کی ٹیکنالوجی میں بے مثال پیش رفت کی ہے اس حوالے سے ایران خطے میں منفرد ملک ہے اب اس خطے میں صرف اسرائیل عسکری طاقت نہیں ہے کہ وہ جو کچھ چاہے کرے بلکہ اب معمولی حرکت پر ایران کی طرف سے دندان شکن جواب مل جاتا ہے، رہبر معظم انقلاب نے کسی تقریر میں کہا: اب وہ وقت گذر گیا کہ کوئی آکر مارے اور بھاگ جائے بلکہ مارے تو لگے گا ، جی ہاں گذشتہ دہائی میں ایسی حماقت کرنے والوں کو ایران کا ایسا ہی عملی جواب ملا ہے۔
۹۔گذشتہ سال ایران میں ایک تاریخی جھوٹ کی بنیاد پر عالمی استکبارنے اپنے الیکٹرونک ، پرنٹ اور سوشل میڈیا کی مدد سے فریب دیکر بعض بلوائیوں اور فواحش کو ایران میں اسلامی نظام کے خلاف سڑکوں پر لایا ان 1% سے بھی کم بلوائیوں اور فواحش کی مغربی، عربی اور عبری شیطانی مثلث نے سیاسیِ ، مالی ، سفارتی اور میڈیا حمایت سے دریغ نہیں کیا تاکہ ایران کا اسلامی نظام نابود ہوجائے یا داخلی خانہ جنگی کی وجہ سے ایران کی بڑھتی ہوی ترقی اور طاقت رک جائے لیکن اسلامی جمہوریہ ایران کی طاقت اور الہی حکمت عملی کے سامنے یہ شیطانی مثلث کا آخری حربہ بھی ماند پڑگیا اور اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمنوں کو حزیمت اٹھانا پڑی۔
عرب ممالک کی برگشت کی علت
عرب ممالک نے ان سالوں میں خطے کی بدلتی ہوی صورت کا بخوبی نظارہ کیا ہے اور اس بدلتی ہوی صورت حال میں ایران کے مثبت کردار ، کامیابیوں اور بڑھتی ہوی طاقت کا بھی مشاہدہ کیا ہے، ان سالوں میں عربوں نے یہ بھی تجربہ کرلیا ہے کہ وہ ایران کے مقابلے میں ہر محاذ میں ناکام رہے ہیں اور مغربی طاقتوں کے ہاتھوں تحقیر اور ان کے مفادات کے لئے اسعمال ہونے کے علاوہ اور کوئی کامیابی نہیں ملی، لیکن ان کے مقابلے میں ایران ہر محاذ میں کامیاب رہا اور پہلے زیادہ طاقت حاصل کی ، خطے میں اثر و رسوخ پہلے سے زیادہ بڑھ گیا، خطے کی عوام ایران کو عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور ان کی امیدیں ایران سے وابستہ ہیں اور یوں ایران خطے میں محبوب اور طاقت ور ملک بن کر ابھرا ہے۔ عرب ملکوں نے اس حقیقت کو بھی درک کر لیا ہے کہ ایران عنقریب دنیا میں چند جہتی سپر پاور ممالک میں سے ایک ہوگا، اسی لئے انہوں نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات کو دوبارہ بحال کرنے میں ہی عافیت سمجھا ہے درحقیقت وہ ایران کی بڑھتی ہوی طاقت کے سامنے خم ہوگئے ہیں اور حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے۔ اب ہر عرب ملک سے ایران کو روابط بحال کرنے یا تعلقات کو پہلے سے بہتر بنانے کے لئے پیغامات مل رہے ہیں، حتی اطلاعات کے مطابق مصر نے بھی 40 سال بعد ایران کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لئے پیغام دیا ہے ، دوسری طرف سے ایران اور سعودی عرب میں سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد مشرق وسطی میں مثبت اثرات آنا شروع ہو گئے ہیں، بہر حال عرب ممالک کا موجودہ مٹبت رویہ خوش آیند ہے اور اس صورت حال سے امت محمدیہ کے درمیان اتحاد وحدت کی دوبارہ سے امید پیدا ہوگئی ہے اور اتحاد مسلمین کے سائے میں اپنے علاقے کے سیاسی، عسکری اور اقتصادی معاملات اور مشلات کا بیرونی مداخلت کو موقع دئے بغیر خطے کے ممالک خود ہی حل و فصل کر سکتے ہیں ، اتحاد و وحدت کی اسٹریٹجی سے غاصب صہیونی حکومت کا فسلطین پر سے ناجائز قبضہ چھڑانے کا بھی وقت آپہنچاہے اور مشرق وسطی سے امریکی دہشتگرد فوج کے انخلاء کا بھی وقت قریب ہے ۔
سوال یہ ہے کہ ایران کی ایسی بڑھتی ہوی طاقت کا راز کیا ہے؟
ایران کی معنوی طاقت کے اہم عناصر
در حقیقت ایران کی سیاسی، عسکری، دفاعی اور ڈپلومیٹک طاقت کا سر چشمہ اس کی معنوی اور رحانی طاقت ہے ایران کی معنوی طاقت کے تین عناصر ہیں۔
1۔ الہی قیادت :
اس وقت ایران دنیا میں وہ تنہا ملک ہے کہ جس کی قیادت دین شناس صالح فقیہ ( آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای)کے ہاتھ میں ہے وہ ایمان اور الہی تعلیمات کی روشنی میں حکمت ، فراست اور سنجیدگی کے تحت ملکی اور بین الاقوامی مسائل اور معاملات کو ملکی، قومی اور دینی مفادات میں سلجھاتے ہیں اور درست سمت رہنمائی فرماتے ہیں۔
2۔الہی نظام ولایت کا وجود:
ایران وہ تنہا ملک ہے جہاں الہی نظام قائم ہے اس ملک کا آئین اور قانون قرآنی معارف اور سنت کی بنیاد پر بناہے اور قرآنی دستورات و معارف پر عمل کرنا ہی ایران کی ترقی اور طاقت کا سرچشمہ ہے۔
3۔ الہی تفکر اور اقدار کی حکمرانی:
ایران میں اسلامی نظام کے برکت سے ملک کے تمام مسائل اور معاملات میں الہی سوچ سوچ اور الہی اقدار حاکم ہیں یہاں جہاد اور شہادت ، قومی عزت و سربلندی جیسے مفاہیم کی بڑی اہمیت اور قیمت ہے جس کی وجہ سے استکباری طاقتو سے خائف نہیں ہوتے ہیں۔
4۔ مومن اور معتقد عوام کی پشت پناہی:
ایران میں انقلاب اسلامی کے بعد ہر شعبے میں مومن افرادی قوت کی دینی تعلیمات کی روشنی میں تربیت کی ہے یہ مومن افرادی قوت عوام کی اکثریت کو تشکیل دیتی ہے لہذا یہ قوت ہر معاملے میں نظام کی پشت پر کھڑی ہے اسی لئے ہمیشہ دشمن کی مادی قوت ایران کی معنوی قوت کے سامنے شکست سے دوچار رہی ہے۔
ان شا اللہ استکباری قوتیں اسلامی جمہوریہ ایران کے دینی نظام کو نابود کرنے کی حسرت دل میں لیکر وہ خود نابود ہوجائیں گے۔اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو آپس میں محبت اور اتحاد و وحدت کی نعمت سے نوازے۔
One Response
ایران سعودی سفارتی تعلقات کے بعد مشرق وسطیٰ میں امریکہ اور ان کے اتحادیوں کا کیا کردار ہوگا کیا امریکہ ان تعلقات کو کامیاب ہونے دےگا اس بارے میں ایران اور سعودی نے کوئی اقدامات کیے ہیں