تحریر: عمر فاروق
اس دنیا میں ایمان سب بڑی دولت ونعمت ہے اور ایمان ہی ہمارے تمام اعمال کی اساس ہے جس کے بغیر ہر عمل بے بنیاد ہے،اس لیے ہمیں سب زیادہ اپنے ایمان کی حفاظت کی فکرکرنی چاہیے،کیونکہ اللہ تعالی کے عطاکردہ ساری نعمتوں میں سب سے عظیم اور مہتم بالشان نعمت ایمان کی نعمت ہے، روئے زمین پرنہ اس سے بڑھ کر کوئی نعمت موجود ہے نہ اس کے برابر۔دنیا کی ہرنعمت و لذت ،آسائش وسہولت، آرام وراحت اس مختصر زندگی کے ساتھ ختم ہوجائیگی ؛لیکن وہ نعمت جس کا ثمرہ دنیا میں سعادت واطمینان ہے اور اسکا اثر آخرت تک باقی رہتا ہے وہ اسلام کی ہدایت ہے اور وہی سب سے بڑی نعمت ہے جس سے اللہ تعالی اپنے خاص بندوں کو نوازتا ہے۔
پیرطریقت ،خادم الامت ، رہبر شریعت سید نور زمان نقشبندی شاذلی کاخطاب عروج پرتھا وہ وہ حسب معمول علم وعرفان کے موتی بکھیر رہے تھے اوروہاں موجودطالبان حق علمی وروحانی سوتوں سے بقدرتوفیق الہی اپنی روح کوسیرا ب کررہے تھے میں بھی احباب کے ہمراہ سلسلہ نقشبندیہ شاذلیہ راولپنڈی ڈویژن واسلام آباد کے امیرحافظ شاہدشاہ حیدری کی خصوصی دعوت پرجامع مسجدصدیقیہ کشمیری بازار پہنچاتھا جہاں مولانایونس صدیقی اوران کے صاحبزادے حافظ معاذصدیقی کے میزبانی میں یہ محفل سجائی گئی تھی ۔
حضرت فرمارہے تھے کہ بہت بابرکت ہے وہ ذات جس کی تدبیر کامل، حکمت بے عیب اور قدرت بے پایاں ہے۔ وہ حکم دے تو سر با فلک پہاڑ ملیامیٹ ہو جائیں، جاہ و حشم کے پیکر گدا بن جائیں اور سمندر میں موجوں کا زور دہکتے ہوئے ریگستان میں بدل جائے۔ اللہ تعالی صرف ایک دفعہ حکم دیتے ہیں اور وہ یوں نافذ ہوتا ہے جیسے پلک جھپکنا۔ بلند درجات اور عرش والے رب پر اس حقیر فقیر کی جان قربان۔!
انسان کا ارادہ کمزور اور عزم ناپختہ ہے۔ بدی سے نفرت اور نیکی پر استقامت ہو تو کیا خوب ہے لیکن گناہوں کی لذتیں دل فریب اور ان کے راستے خوش نما ہیں۔ پھر نفس کی چال یہ ہے کہ ہر وقت شکار کی تاک میں ہے۔ جس کا ایمان واجبی اور دل خالق کی یاد سے غافل ہو، ابلیس کے لیے اسے زیر کرنا زیادہ مشکل نہیں۔ نفس کا حقیقی معرکہ اس شخص سے پڑتا ہے جس کا باطن پاکیزہ اور ضمیر خدا شناس ہو۔ ابلیس جانتا ہے کہ ایسے شخص کو سیدھے سبھا گناہ کی ترغیب دے کر پھنسانا آسان نہیں۔ چناں چہ وہ عیاری کے ساتھ دام بچھاتا ہے۔
کبھی وہ انسان کو اللہ تعالی کی رحمت و مغفرت کی امید دلاتے ہوئے گناہ کرنے پر اکساتا ہے اور اس کے عذاب سے بے خوف کر دیتا ہے۔کبھی وہ انسان کو گناہ کے بظاہر اچھے نتائج اور بہتر ثمرات کا جھانسا دیتا ہے۔ جس طرح کہ شیطان نے آدم علیہ السلام سے کہا تھا:کیا میں تمھاری راہ نمائی کروں کہ ابدی زندگی والے درخت اور غیر فانی سلطنت کو حاصل کرنے کا گر کیا ہے؟(طہ)
کبھی وہ انسان کو حالات و ضروریات کی باطل تاویلات و توجیہات کرنے پر مجبور کرتا ہے اور اس سے کہتا ہے: مصلحت اسی میں ہے کہ تم گناہ کرو!کبھی وہ انسان کو جلال و اکرام والے رب کی محبت و معرفت سے بے پروا کر دیتا ہے اور اس سے بڑی کون سی حرماں نصیبی اور محرومی ہو گی کہ انسان اپنے پالن ہار کی پہچان اور اس کے قرب سے بے نیاز ہو جائے۔
ہر طرح کی حمد و ثنائے سرمدی اللہ عزوجل کو زیبا ہے جس نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے حقائق کا پردہ چاک کیا اور صراطِ مستقیم کی طرف راہبری کی۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا:بنی آدم کے دل رحمن کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں۔ وہ انھیں جس طرح چاہتا ہے (ہدایت یا ضلالت کی طرف)پھیر دیتا ہے۔تویہ اللہ کاخصوصی فضل وکرم ہوتاہے اس شخص پرجس کادل ایمان سے بھردے ۔ وہ جس کو چاہے ہدایت دے اور جس کو چاہے گمراہی کے اندھیروں میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دے۔
بس اس حقیقت سے اپنی طبیعت کو یکسو اور مزاج کو پختہ کر لیں کہ ہمارے دلوں کا محافظ و نگہبان کوئی اور نہیں بلکہ خود رحمن کی ذات ہے۔عبادت کے کمال، عقل کے عروج اور علم کی گہرائی سے مستغنی ہو کر حق تعالی کی چوکھٹ پہ عجز و ندامت کے ساتھ اپنا ماتھا ٹیک دیں۔ وہ عزت و جبروت کا مالک ہے جب چاہے کسی متصل کا رابطہ منقطع کر دے اور جب چاہے کسی بچھڑے ہوئے کو اپنا بنا لے۔
حضرت اقدس سیدنورزمان نقشبندی شاذلی نے فرمایاکہ سچے اور درست اِیمان والا اللہ کی رحمت اور بخشش کی امید ، یا ان کے ملنے کا یقین ، اور اللہ کی ناراضگی اور عذاب کے خوف کی کیفیات کے درمیان ہی رہتا ہے ،پس اللہ کی رحمت اور بخشش کی امید یا یقین میں اللہ کے عذاب سے لاپرواہ ہوجانا درست نہیں ، اور نہ ہی اللہ کے عذاب کے خوف میں اس کی رحمت اور بخشش کی امید چھوڑ دینا درست ہے۔ :اللہ کی رحمت سے امید اور اللہ کے غضب سے خوف ہی کامیابی کی ضمانت ہے ،ق ایمان اسی خوف اور امید کے درمیان ہے، صرف امید انسان کو بے لگام کرتی ہے اور صرف خوف مایوسی کا موجِب بنتا ہے
حدیث میں ہے کہ اگر کوئی کافر اللہ کے پاس موجود اس کی ساری ہی رحمت کے بارے میں جان لے تو کبھی جنت (کے حصول ) سے مایوس نہ ہو ، اور اگر کوئی مومن اللہ کے پاس جو عذاب ہیں ان کے بارے میں جان لے تو کبھی خود کو جہنم سے محفوظ خیال نہ کرے، اسی لیے کہا جاتا ہے:(الایمان بین الخوف والرجا) ایمان خوف اور امید کے درمیان ہے۔ بندہ کے ایمان کو صحیح سلامت رکھنے کے لیے ان دونوں باتوں کے درمیان اعتدال وتوازن برقرار رکھنا بہت ضروری ہے۔ یعنی بندہ اللہ کے عذاب کے خوف سے بے پرواہ نہ ہو،اور نہ اس کی رحمت سے مایوس ہو۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اگر کوئی منادی آسمان سے یہ ندا دے کہ اے انسانو! تم سب جنت میں جا ئوگے سوائے ایک شخص کے، تو مجھے خوف ہے کہ وہ شخص میرے سوا کوئی نہ ہو گا۔ اور اگر منادی یوں ندا دے کہ اے انسانو! تم سب جہنم میں داخل ہو گئے سوائے ایک شخص کے تو مجھے امید ہے کہ وہ شخص میں ہوں گا۔حضرت ذو النون مصری رحِمہ اللہ نے فرمایا : خوف عمل کا نگہبان ہے اور امید آزمائشوں میں سہارا ہے۔ چنانچہ امام غزالی فرماتے ہیں کہ امید اس لئے محمود ہے کہ وہ عمل پر ا کساتی ہے اور مایوسی جو کہ امید کی ضد ہے اس لئے مذ موم ہے کہ وہ عمل سے روک دیتی ہے۔جسے امید کی حالت میسر ہو تی ہے وہ اعمال کے ساتھ طویل مجا ہدہ کر لیتا ہے اور اسے عبادات پر پابندی نصیب ہو جاتی ہے اگرچہ احوا.ل میں تبدیلی ہو تی رہے۔
نور ایمانی کے بعد پھر کسی روشنی کی ضرورت نہیں اور دولت ایمانی کے بعد پھر کسی دولت کی خواہش نہیں ،یہ وہ دولت اور نعمت ہے کہ جس پر دولت کے انبار اور ساری نعمتیں قربان ہیں ، خطیب الہند حضرت مولانا عطا اللہ شاہ بخاری فرمایا کرتے تھے کہ دنیا میں چار چیزیں بے حد عزیز ،قابل محبت اور نہایت قیمتی ہوا کرتی ہیں مال جان آبرو ایمان ،اور فرماتے تھے کہ جب جان پر بن آئے تو مال قربان کرنا چاہئے ،اگر آبرو پر حرف آئے تو جان ومال دونوں قربان کرنا چاہئے اور اگر ایمان پر کوئی ابتلا آئے تو جان ،مال اور آبرو تینوں ہی کو قربان کر دینا چاہئے ،ان تینوں کی قربانی دینے کے بعد اگر ایمان محفوظ رہتا ہے تو یہ سودا نہایت سستا ہے ۔
سیدنورزمان نقشبندی کے بیان کااحاطہ مشکل ہے آخری پیغام افتخارافی کی زبان میں پیش کررہاہوں
کسی بشر میں
ہزار خامی
اگر جو دیکھو تو چپ ہی رہنا
کسی بشر کا جو راز پایا عیب دیکھو
تو چپ ہی رہنا
اگر منادی کو لوگ آئیں
تمہیں کریدیں
تمہیں منائیں
تمہاری ہستی کے گیت گائیں
تمہیں کہیں کہ
بشر میں دیکھی برائیوں کو بیان کر دو
تو چپ ہی رہنا
جواز یہ ہے دلیل یہ ہے
ضعیف لمحوں کی لغزشوں کو
حرام ناطے کی قربتوں کو
ہماری ساری حماقتوں کو
ہماری ساری خباثتوں کو
وہ جانتا ہے
وہ دیکھتا ہے
مگر وہ چپ ہے
اگر وہ چپ ہے
تو میری مانو
وہ کہہ رہا ہے
کہ
چپ ہی رہنا!