تحریر: ظہور عباس کمیلی
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جمعۃ المبارک کا دن سید الایام ہے اور تمام دنوں سے افضل و بر تر ہے، اس لیے مسلمانوں کے لیے یہ دن سلامتی و رحمت کا حامل ہے، جسکی بڑی اہمیت و فضلیت ہے۔ رمضان کریم کے جمعہ کی اہمیت اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے کیونکہ اس جمعہ المبارک میں رمضان الکریم کی فضیلتیں بھی شامل ہو جاتیں ہیں۔ لیکن جو فضلیت اور مرتبت رمضان المبارک کے آخری جمعۃ المبارک کو حاصل ہے وہ کسی اور دن کو حاصل نہیں۔ جمعۃ الوداع نور علٰی نور اور قرآن العیدین ہے، جو مسلماں کی عظمت و شوکت، ہیبت و جلالت کا عظیم مظہر ہے۔
جمعۃ الوداع کی طرح قبلہ اول کی بھی اسلامی حوالے سے بیش بہا فضلیت ہے، قبلہ اول (بیت المقدس) سرزمین فلسطین پر واقع ہے۔ یہ وہ مبارک مقام ہے جس کی جانب رخ فرما کر حضور نبی کریم اپنے اصحاب و انصار کے ہمراہ نمازیں ادا فرماتے تھے اور معراج کے سفر کا آغاز بھی اس مبارک مقام سے ہوا۔
قبلہ اول (بیت المقدس) چھ دہائیوں سے اسرائیل کے جبری قبضہ و تسلط میں ہے، جس کو یہودی ’’ہیکل سلمانی‘‘ میں تبدیل کرنے کا اعلان کرچکے ہیں اور اس مقدس مقام پر کسی مسلمان کو داخل ہونے کی اجازت حاصل نہیں۔ عالمی برادری مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے اس جابرانہ سلوک پر خاموش ہے۔ ملت اسلامیہ کی جانب سے جمعۃ الوداع کا مبارک دن قبلہ اول کی آزادی سے منسوب کرکے یوم القدس قرار دیا گیا ہے، تاکہ بیت المقدس کو یہودیوں کے شکنجہ سے آزادی دلانے کا جذبہ حریت مسلمانوں میں کبھی ماند نہ پڑے اور عالمی عدالت انصاف، انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بھی ملت اسلامیہ کے اس دیرینہ مسئلہ کو کبھی فراموش نہ کرسکیں۔
مشرق وسطٰی کی آنکھ فلسطین انبیاء کی سرزمین ہے، جہاں 1917ء تک مسلمان بڑی آبرومندانہ زندگی بسر کر رہے تھے، مگر دوسری جانب سویت یونین، یورپ و دنیا کے دیگر حصوں میں یہودیوں کا اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا تھا۔ اس اثر کو زائل کرنے کے لیے یہاں کے حکمرانوں نے یہودیوں کو اپنے ممالک سے نکال کر باہر پھینکنا شروع کیا۔ یہودیوں نے اپنے سرمائے کے بل بوتے پر برطانیہ اور امریکہ سے اپنے لیے ایک الگ ریاست کا مطالبہ کیا۔ یہودیوں کے اس مطالبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے برطانیہ نے اپنی فوجی طاقت کے بل بوتے پر عسکری لحاظ سے کمزور اسلامی مملکت فلسطین پر حملہ کیا اور اس کے ایک بڑے حصہ پر قبضہ کرلیا۔
برطانوی افواج نے فلسطین کے اس حصہ میں یہودیوں کی آباد کاری کا عمل شروع کیا اور دوسری طرف مسلمانوں کو بیدردی سے تہ تیغ کیا۔ یہاں آباد ہونے والے یہودیوں کو امریکہ اور برطانیہ نے نہ صرف مہلک ہتھیاروں سے لیس کیا، بلکہ ان کی بھرپور فوجی تربیت اور مدد کی۔ فلسطین میں مسلمانوں کی قتل و غارت کا سلسلہ 1947ء تک برطانیہ کی نگرانی میں جاری رہا۔ 1947ء میں فلسطین کی اس اسلامی سرزمین پر غیرقانونی طور پر وجود میں لائی جانیوالی ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا گیا۔
اسرائیل کے قیام کے بعد برطانیہ نے تو اپنی افواج فلسطین سے نکال لیں، مگر اس ناجائز یہودی ریاست کے تحفظ کی ذمہ داری امریکہ نے قبول کی۔ اس وقت سے تاحال اسرائیل امریکی سرپرستی میں نہ صرف مظلوم فلسطینی عوام پر جبر و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے بلکہ دنیا بھر کے اسلامی ملکوں کے خلاف ایک گھناؤنے اور مذموم ایجنڈے پر کاربند ہے۔ امریکہ اپنے ناجائز لے پالک طفل شر کے ذریعے مشرق وسطٰی سمیت تمام اسلامی دنیا کو غیر مستحکم اور پسماندہ رکھنا چاہتا ہے۔
مغرب نے جو نظریہ ہولو کاسٹ متعارف کرایا، اس کے مطابق چونکہ یہودیوں پر بہت ظلم و ستم ڈھائے گئے ہیں، لہذا ان کے لیے علیحدہ ریاست کا قیام ضروری ہے۔ اگر اس نظریہ کو درست بھی مان لیا جائے تو تاریخ بتاتی ہے کہ یہودیوں پر ظلم و ستم مسلمانوں یا عربوں نے نہیں ڈھائے، بلکہ یورپ اور امریکہ کے کئی علاقوں میں عیسائیوں نے ڈھائے۔ ہٹلر دور میں اور سے قبل و بعد یہودیوں کی نسل کشی کی گئی۔ ان کو اجتماعی قبروں میں زندہ دفن کیا گیا، وغیرہ وغیرہ۔ بعد میں عیسائیوں نے اپنے تاریخی جرائم پر پردہ پوشی کے لیے بچے کھچے یہودیوں کو اکھٹا کرکے مسلمانوں کی آزاد سرزمین پر مسلط کر دیا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہودیوں کی ریاست اسی جگہ قائم ہوتی، جہاں ان کے آباؤ اجداد کو عیسائیوں نے ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا تھا۔ اس لحاظ سے وہ جگہ وسطی یورپ، برطانیہ کے نزدیک بنتی ہے۔ یہودیوں نے بھی اپنے پیغمبر کی تعلیمات سے روگرانی کرتے ہوئے ان عیسائیوں سے تو محبت و دوستی کی پینگیں لڑانی شروع کر دیں، جنہوں نے ان کا قتل عام کیا، لیکن مسلمانوں کو اپنا دشمن قرار دیدیا۔
فلسطین کی آزادی کی تحریکوں کو دنیا بھر کے مسلمانوں کی حمایت و سرپرستی حاصل رہی، لیکن فلسطینی کاز کو جو اہمیت و حیثیت ایران میں اسلامی انقلاب کے رونما ہونے کے بعد میسر آئی، وہ اس سے قبل نہ تھی۔ امام خمینی (رہ) کے زیرسایہ برپا ہونے والے اسلامی انقلاب نے پہلے دن سے ہی سامراج طاغوت کو اپنا دشمن اور ازلی حریف قرار دیا اور اسرائیل کو ایک غیرآئینی، غیرقانونی اور عالمی قواعد کے منافی قوت قرار دیکر اس کے مکمل خاتمہ کا مطالبہ کیا۔
امام خمینی (رہ) نے اپنے ایک روحانی خطاب میں جمعۃ الوداع کو یوم القدس قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اے مسلمانوں جمعۃ الوداع اجتماعی وحدت کی علامت ہے، اس دن کو القدس کی آزادی کے طور پر مناؤ، فلسطین کی آزادی کے مصم ارادہ و عزم کر لو۔ امام خمینی (رہ) کے اس خطبہ کو دنیا بھر کے مفکروں نے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی جانب ایک اہم سنگ میل قرار دیا۔ اسلامی ممالک کے رہنماؤں نے اپنے تاثرات میں یہ امید ظاہر کی کہ وہ دن دور نہیں جب دنیا اسرائیل سے نجات کی خوشخبری سنے گی۔
یوم القدس ہر ظالم کے ظلم کی نفی کرتا ہے۔ جہاں فلسطین کی آزادی کی آواز اجتماعات میں بلند ہوتی ہے، وہاں امریکی ڈرون حملوں، کشمیر میں بھارتی و اسرائیلی گروپس کی گوریلا کارروائیوں، برما میں ہونیوالی قتل و غارت کے خلاف بھی ہر مسلمان صدائے احتجاج بلند کرتا ہے اور کرتا رہے گا، جب تک عالمی ناانصافیوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا، اس وقت تک پرامن دنیا کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ یوم القدس ملت اسلامیہ کے اجتماعی حقوق کا محافظ ہے، جو ہر مسلمان کو اپنی شرعی ذمہ داریوں کا احساس دلاتا ہے۔
نوٹ: سیاسیات کا کسی بھی خبر اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں. اگر آپ بھی Siasiyat.com پر اپنا کالم، بلاگ، مضمون یا کوئی خبر شائع کرانا چاہتے ہیں تو ہمارے آفیشیل ای میل Siasiyat172@gmail.com پر براہ راست ای میل کر سکتے ہیں۔