دسمبر 29, 2024

۲۱ ماہ رمضان، جب ہدایت کے ستون گر گئے

تحریر: علامہ کوثر عباس قمی

حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب سن ۴۰ ھجری کے ماہ رمضان میں مسلسل اپنی شہادت کی خبر دے رہے تھے۔ یہاں تک کہ ماہ رمضان کے وسط میں جب آپ منبر پر تشریف فرما تھے تو آپ نے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا: شقی ترین شخص ان بالوں کو میرے سر کے خون سے رنگین کرے گا ۔

اسی طرح آپ نے فرمایا:

ماہ رمضا ن آگیا ہے ، یہ تمام مہینوں کا سردار ہے۔ اس مہینے میں حکومت کے حالات بد ل جائیں گے

آگاہ ہوجاؤ کہ تم اس سال ایک ہی صف میں (بغیرامیرکے) حج کروگے اور اس کی علامت یہ ہے کہ میں تم لوگوں کے درمیان نہیں رہوں گا

آپ کے اصحاب کہہ رہے تھے: وہ اس کلام کے ذریعے اپنی موت کی خبر دے رہے ہیں لیکن ہم نہیں سمجھ پا رہے تھے

اسی وجہ سے حضرت اپنی عمر کے آخر ی دنوں میں روزانہ رات کو اپنی اولاد میں سے کسی ایک کے گھر جاتے تھے،کسی رات امام حسن علیہ السلام کے پاس تو کسی رات امام حسین علیہ السلا م کے گھر اور کسی رات اپنے داماد عبد اللہ بن جعفر ،جناب ِ زینب کے شوہرکے گھر افطار کرتے تھے اورتین لقموں سے زیادہ کھانا نہیں کھاتے تھے۔

آپ کے بیٹوں میں سے ایک بیٹے نے کم کھانے کا سبب پوچھا تو امام نے فرمایا: خدا کا فرمان آرہا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ میر ا پیٹ خالی ہو

ایک یا دو رات سے زیادہ باقی نہیں اسی رات آپ کے سر پر ضربت لگی۔

ضربت کی رات آپ افطار کے لیے اپنی بیٹی ام کلثوم کے مہمان تھے

افطار کے وقت آپ نے تین لقمہ غذا تناول فرمائی اور پھر عباد ت میں مشغول ہوگئے اور شام سے صبح تک بہت ہی مضطرب اور بے چین تھے ۔

کبھی آسمان کی طرف دیکھتے اور ستاروں کی گردش کو دیکھتے ،اور طلوع فجر جتنا نزدیک ہوتا اضطراب اور بے چینی میں اتنا ہی اضافہ ہوتا تھا اور فرماتے تھے: خدا کی قسم ، نہ میں جھوٹ بول رہا ہوں اور نہ جس نے مجھے خبر دی ہے اس نے جھوٹ کہا ہے یہی وہ رات ہے کہ جس میں مجھے شہادت کا وعدہ دیا گیا ہے۔

یہ وعدہ پیغمبر نے آپ کو دیا تھا۔ علی علیہ السلام خود نقل کرتے ہیں کہ پیغمبرنے رمضان المبارک کی اہمیت و فضلیت کے بارے میں جوخطبہ ارشاد فرمایا اور پھر آخر ی خطبہ میں رونے لگے میں نے عرض کیا یا رسول خدا ۖ!آپ کیوں رو رہے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: اس مہینے میں جو تمھارے ساتھ پیش آئے گااسی کے بارے میں رو رہا ہوں :

”کأنِّیِ بِکَ وأنتَ تُصَلّی لرَ بَّکَ وَقد انبَعثَ اَشقَی الاولین

والآخرِینَ شقیقُ عٰاقِرناقَةِ ثَموُدَفَضَربَکَ ضَربَةً عَلیٰ

فَرْقِکَ فَخضَّبَ منِہ لْحیتَکَ

یعنی گویامیں دیکھ رہا ہوں کہ تم نماز میں مشغو ل ہو اور دنیا کا سب سے شقی اور بد بخت ترین آدمی ناقہ ٔ ثمود کے مارنے کی طرح کھڑا ہوگا اور تمہارے سر پر ضربت مارے گا اور تمھاری داڑھی کو خون سے رنگین کرے گا ۔

بالآخر کرب اور بے چینی کی رات ختم ہوئی اور علی علیہ السلام سحر کی تاریکی میں نماز صبح ادا کرنے کے لئے مسجد کی طرف چلے ،

گھر میں جو مرغابیاں پلی تھیں انہوں نے راستہ روکا اور لبا س سے لپٹ گئیں۔

بعض لوگوں نے چاہا کہ ان سب کو دور کر دیں مگر آ پ نے فرمایا: ”دَعُوْ ھُنَّ فَاِ نَّھُنَّ صَوایحُِٔ تَتْبَعُھٰا نَوایِحُ” یعنی انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو کہ وہ فریا د کر رہی ہیں اور اس کے بعد مسلسل نوحہ و بکا کریں گی۔

امام حسن علیہ السلام نے کہا: بابا: یہ کیسا فال ِ بد بیان کر رہے ہیں؟

فرمایا: اے بیٹا! یہ فالِ بد نہیں کہہ رہا ہوں میرا دل کہہ رہا ہے کہ میں قتل کیا جاؤںگا

ام کلثوم امام علیہ السلام کی گفتگو سن کر مضطرب ہوگئیں اور عرض کیا کہ حکم دے دیجیۓ کہ جعدہ بن ہبیرہ مسجد میں جائیں اور نماز جماعت پڑھا ئیں ۔

حضرت نے فرمایا: قضائے الہی سے بھاگا نہیں جاسکتا پھر آپ نے کمر کے پٹکے کو مضبوطی سے باندھا، اور یہ دو شعر پڑھتے ہوئے مسجد کی طرف روانہ ہوگئے:

اُشْدُدْ حَیازِ یْمِکَ لِلْموَتِ

فَانَّ الْموَتَ لاٰ قِیْکاٰ

وَ لاٰ تَجزَع مِن َ الموتِ

اذِاَ حَلَّ بِوَادِیْکاٰ۔

اپنی کمر کو مو ت کے لئے محکم باندھ لو کیو نکہ موت تم سے ضرور ملاقات کرے گی اور جب

موت تمھار ے قریب آئے تو اس سے فریاد و چیخ و پکار نہ کرو۔

عَبد الرّحمن بن عمرو بن مُلجَم مُرادی،

إبن مُلجَم مُرادی کے نام سے معروف، قاتل علی ابن ابی طالب جنگ نہروان کے خوارج میں سے ہے

ابن ملجم نے امام علیؑ کے مقام خلافت پر فائز ہونے کے بعد آپؑ کی بیعت کی اور جنگ جمل میں آپ کے لشکر میں رہ کر آپ کے دشمنوں کے خلاف جنگ لڑی لیکن جنگ صفین میں حکمیت کے مسئلے میں خوارج کے ساتھ ملحق ہوگیا جو جنگ نہروان میں امام علیؑ کے مد مقابل آکھڑے ہوئے اور جنگ کے اختتام پر جان بچا کر فرار ہونے والے معدود افراد میں اس کا بھی شمار ہوتا ہے۔

قطامہ نامی عورت کے باپ اور بھائی جنگ نہروان میں قتل ہوئے تھے اس لئے وہ عورت علی سے شدید کینہ رکھتی تھی ، ابن ملجم اس کے جمال پر فریفتہ ہو گیا ۔ اس سے نکاح کا خواستگار ہوا ۔ اس نے کہا کہ میرا مہر تین چیزیں ہیں :

١۔ تین ہزار درہم

٢۔ ایک غلام

٣۔ ایک کنیز ، علی کا قتل

ابن ملجم نے جواب دیا جو کچھ تو نے کہا مجھے منظور ہے سوائے قتل علی کے۔ کیونکہ یہ مجھ سے ممکن نہیں ۔

قطام نے کہا :” جس وقت علی کسی کام میں مشغول ہوں تم اچانک ان پر حملہ کر کے انہیں قتل کر دو ۔ اس طرح تم میرے کلیجے کو ٹھنڈک پہنچاو گے ، پھر تو تمہارے ساتھ زندگی خوشگوار گذرے گی اور اگر تم قتل کر دئیے گئے تو تمہارے لئے آخرت کا ثواب کہیں زیادہ ہے”۔

کسی شاعر نے قطامہ کے مہر کے سلسلے میں اشعار کہے ھیں:

فَلَمْ اٴرَ مَھْراً سا قہ٘

ذُوْسَما حَة

کَمَھْرِ قطام من فصیح و اٴعْجَم

ثلاثة اٴلا فٍ وعبدٌ وقِیْنةً وقَتْلُ عَلِیٍّ بالِحسٰام المصَمَّم

فَلاَ مَھْرَ اَ عْلیٰ منْ علی واِن عَلاٰ ولاٰ قَتْلَ اِلاّٰ دُوْنَ قَتْلِ ابن مُلْجَم

(میں نے آج ایسا مہر تک نھیں دیکھا جسے کوئی اھل کرم ادا کرے

چاھے وہ عرب ھو یا عجم مثل مہرقطام کے

تین ہزار درھم ،ایک غلام ، ایک کنیز

اور تیز تلوار سے علی بن ابی طالب کا قتل

اور کوئی بھی مہر علی علیہ السلام سے زیادہ قیمتی نہیں ھے اگرچہ کتنا ھی قیمتی کیوں نہ ھو

اور کوئی بھی جرم ابن ملجم کے جرم سے زیادہ بدتر نہ ھوگا)

اس وقت ابن ملجم نے کہا کہ خدا کی قسم! میں اس شہر میں اسی لئے آیا ہوں ۔

قطام اور دوسرے دو افراد جن کے نام وردان بن مجالد اور شبیب بن بجر ہ ہیں، ابن ملجم کے ساتھ معاون ہوئے تاکہ ١٩ رمضان المبارک کو سحر کے وقت مسجد میں اپنے ارادے کو پورا کریں ۔ قطام نے مسجد کے قریب خیمہ ڈال لیا تھا تاکہ لوگ سمجھیں کہ یہ اعتکاف و عبادت میں مشغول ہے اور یہ تینوں اس خیمے میں قطام کے ساتھ موجود تھے۔

قطام نے شمشیر زہر میں بجھائی تھی اسے حوالے کر کے کہا :اسے اپنے کپڑے میں چھپا لو ۔

ان سب نے اپنے ارادے سے اشعث بن قیس کو بھی مطلع کر دیا تھا ، اس نے رائے سے اتفاق کیا اور ان کی مدد کے لئے رات کو مسجد میں آگیا تھا

امام علیہ السلام مسجدمیں داخل ہوئے

ابن ملجم ملعون پیٹ کے بل سو رہا تھا اور تلوار اپنے نیچے چھپائی ہوئی تھی آپ نے اسے جگایا اور فرمایا اس طرح نہ سو کہ یہ شیطان کا سونا ہے

اور نماز کے لئے کھڑے ہوئے اور تکبیر ة الاحرام اور پھر قرأت کے بعد سجدے میں گئے

اس وقت ابن ملجم نے زہر میں بجھی ہوئی تلوار آپ کے سرِ مبارک پر ماری اس حال میں کہ بلند آواز سے کہہ رہا تھا:”للّٰہِ الحکم لاٰ لَکَ یا علی”۔

حکومت خدا کی نہ کہ تمہاری اے علی!

یہ ضربت بھی اسی جگہ لگی جہاں پہلے عمر وبن عبدود نے تلوار ماری تھی،

آ پ کا سرِمبارک پیشانی تک پارہ ہوگیا

علی علیہ السلام کے سر سے محراب میں خون جاری ہوگیا اورآپ کی داڑھی کو رنگین کر دیا۔ اس وقت حضرت نے فرمایا:”فُزتُ وربِّ الکعبةَ” رب ِ کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔ پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی۔”مِنْھٰا خَلَقْنٰاکُم و فِیھٰا نُعِیْدُ کمْ و مِنْھٰا نُخْرِجُکُمْ تَارَةً اُخْری”۔

(ہم نے اسی (مٹی) سے تمہیں خلق کیا ہے پھر اسی مٹی میں تمہیں پلٹائیں گے اور ایک بار پھر تمہیں اسی مٹی سے نکالیں گے)

جب عبد الرحمن ابن ملجم نے سر مبارک حضرت علی (ع) پر شمشیر ماری زمین لرز گئی ، دریا کی موجیں تھم گئی اور آسمان متزلزل ہوا، کوفہ مسجد کے دروازے آپس میں ٹکرائے، آسمانی فرشتوں کی صدائيں بلند ہوئيں ، کالی گھٹا چھا گئیں ،

اس طرح کہ زمین تیرہ و تار ہو گی اور جبرائيل امین نے صدا دی اور ہر کسی نے اس آواز کو سنا وہ کہہ رہا تھا:

(تهدمت والله أركان الهدى .. وانطمست والله نجوم السماء وأعلام التقى .. وانفصمت والله العروة الوثقى .. قتل ابن عم محمد المصطفى قتل الوصي المجتبى .. .. .. قتل علي المرتضى قتل والله سيد الأوصياء .. قتله أشقى الأشقياء ).

خدا کی قسم ہدایت کے ستون منہدم ہو گئے، خدا کی قسم آسمان کے ستارے بے نور ہو گئے پرہیزگاری کے پرچم سرنگوں ہو گئے، عروۃ الوثقی کو کاٹ دیا گيا، رسول خدا(ص) کے ابن عم کو شہید کر دیا گيا، سید الاوصیاء علی مرتضی کو شہید کر دیا گيا، انہیں شقی ترین شقی (ابن ملجم) نے شہید کر دیا۔

اس آواز نے کوفہ کی آبادی کو لرزا دیا ، تمام شہر کانپ اٹھا – لوگ جوق در جوق گھروں سے باہر نکل آے – امام حسن اور امام حسین علیھما السلام پریشان اور سراسیمہ حال مسجد کی طرف دوڑے جہاں لوگ پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے اور چیخ چیخ کر کہ رہے تھے کہ امیرالمومنین شہید کر دے گئے- فرزندان رسول نے آگے بڑھ کر دیکھا کہ محراب مسجد لہو سے تر ہے اور حضرت خاک و خون میں لوٹ رہے ہیں اور مٹی اٹھا اٹھا کر فرق مبارک پر ڈالتے جاتے ہیں

حضرت کے چہرہ اقدس کو خون سے تر دیکھ کر امام حسن نے گلوگیر آواز میں کہا ، بابا جان آپ کا خون کس نے بہایا ہے – حضرت نے سر اٹھا کر امام حسن کو دیکھا اور فرمایا ، بیٹے پہلے نماز ادا کرو – چناچہ امام حسن نے نماز پڑھائی اور حضرت نے بیٹھ کر نماز پڑھی –

نماز سے فارغ ہو کر حضرت کو محراب سے صحن مسجد میں لایا گیا – امام حسن نے قتل کے بارے میں پوچھا تو حضرت نے ابن ملجم لعین کا بتایا – اور فرمایا کہ ابھی لوگ اسے اس دروازے سے اندر لائیں گے-

ابن ملجم وار کر کے مسجد سے فرار ہو گیا تھا – کچھ ہی دیر میں ابن ملجم کو گرفتار کر کے باب کندہ میں سے مسجد لایا گیا –

امام حسن نے اس سے پوچھا ، اے بدبخت و لعین تو نے امیر المومنین کو قتل کر دیا ہے ، کیا یہ ان احسانات کا بدلہ ہے جو امیرالمومنین نے تجھ پر ہمیشہ کیے – ابن ملجم سر جھکا کر خاموش کھڑا رہا –

امیرالمومنین نے آنکھیں کھولیں اور ابن ملجم سے فرمایا ،

”اے ابن ملجم کیا میں تیرا اچھا امام نہ تھا – اور کیا میرے احسانات بھلا دے جانے کے قابل تھے”

اس پر ابن ملجم نے کہا ،

”کیا آپ اسے چھڑائیں گے جو دوزخ کا سامان کر چکا ہو ”

پھر حضرت نے اپنا رخ امام حسن کی طرف کیا اور فرمایا ! اے فرزند اگر میں بچ گیا تو مجھے اختیار ہو گا کہ اسے سزا دوں یا معاف کر دوں – اور اگر اس ضربت کے نتیجے میں چل بسا تو تم اسے قصاص میں قتل کر دینا اور اس کی ایک ضرب کے بدلے میں ایک ہی ضرب لگانا – اور قتل کے بعد اس کے ہاتھ پیر مت کاٹنا – کیوں کہ میں نے رسول الله کو فرماتے سنا ہے کہ ”خبردار کسی کو مثلہ (ہاتھ پیر کاٹنا) مت کرنا اگرچہ کاٹنے والا کتا ہی کیوں نہ ہو” – اور اس کے أیام اسیری میں جو کچھ تم خود کھانا اسے بھی وہی کھانے کے لئے دینا اور جو خود پینا اسے بھی وہی پینے کے لئے دینا-

بیٹوں اور اصحاب نے حضرت کو ہاتھوں پر اٹھایا اور گھر کی طرف لے چلے –

جس وقت امام علیہ السلام کو ضربت لگی اس وقت کوفہ کے تمام طبیب آپ کے پاس جمع ہوگئے ۔ ان لوگوں کے درمیان سب سے ماہر اثیر بن عمرو تھا جو زخموں کا علاج کرتا تھا۔ جب اس نے زخم دیکھا تو حکم دیا کہ گوسفند کا پھیپھڑا جو ابھی گرم ہو (تازہ ہو) لایا جائے اور پھر اس نے پھیپھڑے میں سے ایک رگ نکالی اور زخم پر رکھا اور جب اسے باہر نکالا تو کہا :یا علی! اپنی وصیتیں بیان کیجیۓ ،کیونکہ ضربت کا زخم دماغ تک پہونچ گیا ہے علاج سے کوئی فائدہ نہیں ہے اس وقت اما م علیہ السلام نے کاغذ اور دوات منگایا اور اپنی وصیت میں اپنے دونوں بیٹوں حسن و حسین کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا یہ وصیت اگرچہ حسنین سے کی ہے مگر حقیقت میں یہ تمام انسانو ں کے لئے رہتی دنیا تک ہے۔

آپ نے اپنے بیٹوں کو اپنے غسل، کفن، نماز اور تدفین کی کیفیت کے بارے میں بھی ہدایات دیں۔

اور فرمایا: اگر اس ضربت کی وجہ سے میری وفات ہو جاتی ہے تو تم ابن ملجم کو ایک ہی ضرب لگانا۔

امام نے اسی طرح سے قرآن، نماز، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، جہاد و خانہ خدا کو خالی چھوڑنے، اولاد کو خوف خدا کی تعلیم، امور میں نظم و ایک دوسرے کے ساتھ صلح کی وصیت فرمائی اور ان سے یتمیوں اور پڑوسیوں کا حق ادا کرنے کی سفارش کی

پھر فرمایا

میری لاش کا تابوت سامنے سے نہ اٹھایا جائے، وہ خود اٹھے گا اور جہاں جھک جائے ، وہاں مجھے دفن کرنا وہاں ایک قبر تیار ملے گی۔

(یہ وہ جگہ ہے جس کی داہنی طرف حضرت آدم اور بائیں طرف حضرت نوح کی قبر ہے)

امیرالمؤمنین کے بیٹوں امام حسن، امام حسین اور محمد بن حنفیہ نے اپنے چچا زاد بھائی عبداللہ بن جعفر کی مدد سے رات کے وقت آپؑ کو غریین (موجودہ نجف) کے مقام پر سپرد خاک کیا کیونکہ بنی امیہ اور خوارج اگر آپ کی قبر کو ڈھونڈ لیتے تو قبرکشائی کرکے آپ کی بے حرمتی کرتے۔

(جیسا کہ انہوں نے بعد میں باقی اماموں اور ان کے اصحاب کے ساتھ کیا)

سن 135 ھجری تک مولاء کائنات کی قبر مخفی رہی پھر امام جعفر صادق علیہ السلام کے دور میں ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا کہ ایک عباسی حکمران شکار پہ تھا تو اسے ایک ہرن نظر آیا اس نے اس کا پیچھا کیا اور اس کے پیچھے کتے چھوڑے ہرن ایک چھوٹے سے ٹیلے پہ جا کے رک گیا، کتے بھی رک گئے جیسے ہی وہ ہرن وہ جگہ چھوڑتا کتے اس کے پیچھے لگ جاتے وہ ہرن پھر اس ٹیلے کی پناہ لے لیتا

جب حضرت امام جعفر صادقؑ علیہ السلام سے اس بابت پوچھا گیا تو اس وقت آپ نے اس راز کو آشکار کیا کہ یہ ہمارے جد امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی قبر ہے

اللھم اجعلنی فی درعک الحصینہ اللتی تجعلھا من ترید

یا اللہ ہمیں اپنی قرار دی ہوئی مضبوط پناہ گاہ میں پناہ عطا فرما کہ تو جسے چاہتا ہے وہ پناہ عطا کرتا ہے

آمین یا رب العالمین

حضرت علی ع کی وصیت

”اُو صیکما بتقوی َ اللہ واَن لاٰ تبغیا الدُّنْیٰا وانِ بَغتْکَمٰا ولاٰ تأ سفا عَلیٰ شیئٍ مِنْھاَ زُویَ عَنْکُماٰ و قُوْلاٰ بِا لحقِّ وَاعْملاٰ للأجرِ وکُو نٰا لِلظَّا لم خَصْما و للمظلومِ عَوْناً۔”

” میں تم دونوں کو وصیت کرتا ہوں کہ تقوائے الہی اختیار کئے رہنا اور دنیا تمھاری کتنی ہی طلب گار ہو تم دنیا کے طلب گار نہ بننا اور دنیا کی جس چیز سے تمھیں محروم کردیا جائے اس کا غم نہ کھانا،جو کہو حق کی حمایت میں کہواور جوعمل کرو اجر الہی کیلئے کرو ،ظالم کے مخالف او ر مظلوم کے مدد گار رہو”۔

اُ وْصیکمٰا و جَمیعَ وَلَدِیْ وَ اھْلِی وَمَنْ بلغہ کتا بی بتقویَ اللّٰہِ ونَظْمِ اَمْرِ کُمْ وَ صَلاحِ ذاتِ بَیْنِکُمْ، فاِنّی سَمِعْتُ جَدَّ کُمْ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم یَقَوْلَُ” صَلاحُ ذاتِ البَین اَفْضلُ مِنْ عَا مَّةِ الصَّلاة و الصِّیام”۔

”میں تم دونوں کو اور اپنی تمام اولاد کو اور اپنے کنبہ کواور جس کے پاس بھی یہ میری تحریر پہونچے وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کا تقوی اختیار کریں ، اپنے ہر کام میں نظم (وضبط) کا خیال رکھیں اور باہمی تعلقات درست رکھیںکیونکہ میں نے تمھارے نانا حضرت محمد مصطفی ۖکو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ لوگوں کے درمیان اصلاح کرنا ایک سال نماز روزے سے افضل ہے”۔

”اللّٰہ اللّٰہ فیِ الا یتَام فَلاَ تَغِبُّواأفواھَھُمْ ولاٰ یضیْعوُا بحَضْرَ تِکُم.ْ واللّٰہ اللّٰہ فِیْ جِیْرانِکُمْ فَانِّھم وَصِیَّةُ نَبِیِّکُمْ. مَا زَاَل َیوصِیْ بِھِمْ حَتّٰی ظَنَنّٰا أ نَّہ سَیُوَرِّ ثُھُمْ”

”دیکھو !یتیموں کے بارے میں اللہ کو یاد رکھو ایسا نہ ہو کہ انہیں فاقہ کرنا پڑیاور نہ ایسا ہونے پائے کہ وہ تمھارے سامنے (کسمپری کی حالت میں ) ضا ئع ہوجائیں اور خدا سے ڈرتے ہوئے اپنے پڑوسیوں (کے حقوق)کا خیال رکھنا،کیونکہ وہ تمھارے نبی کی وصیت (کے مصداق) ہیں ،آپ برابر ان کے بارے میں وصیت و نصیحت فرماتے رہے یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوا کہ آپ انھیں حق وراثت بھی عطا کرنے والے ہیں”۔

”وَاللّٰہ اللّٰہ فِیْ الْقُرانِ لاٰ یَسبقُکُمْ با لْعَمَل بہ غَیْرُ کُمْ.وَاللّٰہ اللّٰہ فِیْ الصَّلاةِ فَانَّھا عَمُوْدُ دِیْنِکُمْ۔وَاللّٰہ اللّٰہ فِیْ بیْتِ رَبِّکُمْ لاٰ تَخَلُّوْہُ مٰا بَقیِتُمْ فَاِنَّہ اِن تُرِکَ لَمْ تُناظَرُوْا”۔

”اور دیکھو قرآن کے بارے میں خدا کو نہ بھولنا ،ایسا نہ ہوکہ اور لوگ اس (کے احکام) پر عمل کرنے میں تم سے آگے نکل جائیں۔ نماز کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو کیو نکہ یہ تمھارے دین کا ستون ہے ۔ اور خدا را اپنے پرودگار کے گھر کو جب تک جیتے رہو خالی نہ چھوڑنا کیو نکہ اگر اسے چھوڑ دیا گیا توتمہیں مہلت نہیں ملے گی اور بلا میں گرفتار ہو جائو گے”۔

”وَاللّٰہ اللّٰہ فِی الجھادِ بأ مْوَ الکُم وَانفسِکُم وَالسنتکم فی سَبیلِ اللّٰہ وعَلَیکُم بالتّواصُل والتبٰاذُلِ وَایّاکُم وَالتّدابُرو التَّقاطُع، لاٰ تَتْرُکُوا الأمْرَ بِالمعُروفِ والنِّھی عَنِ المنکر فَیُوَ لیّٰ عَلَیْکُمْ شِرَارُ کُمْ ثمَّ تَدْعُوْنَ فَلاٰیُستجٰابُ لَکُمْ”

”اور خدا کی راہ میں مال، جان اور زبان سے جہاد کرنے کے بارے میں خدا کو یاد رکھنا۔ باہمی تعلقات کو استوار رکھنا اور آپس کی داد و دہش میں فرق نہ آنے دینا اور خبر دار نہ ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرنا، نہ ایک دوسرے سے الگ رہنا ۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک نہ کرنا ورنہ بد کردار لوگ تم پر مسلط کر دئیے جائیںگے پھر دعائیں بھی مانگو گے تو قبول نہ ہونگی۔

پھر ارشاد فرمایا:

اے اولادِعبد المطلب! خبردار ایسا ہرگز نہ ہونے پائے کہ(میر ے قتل کا بدلہ لینے کے لئے )تم مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے لگو ” امیر المومنین قتل کر دئے گئے ”

”ألاٰ لاٰ تَقتُلُنَّ بَیْ اِ لا قَا تِلیْ، اُنْظُرُوْ اِذَا أنَامِتُّ مِنْ ضَربَتِہِ ھٰذہِ فَا ضْرِبُوْہُ ضَرْبَةً بِضَرْبة، وَلاٰ تُمَثّلُوْا بِالرّجُلٍ فَاِنِّی سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ، یَقْولُ”اِیاکُمْ و المُثلَةَ وَ لَوْ بِالْکلْبِ الْعَقُوْرِ” ۔ (2)

”یاد رہے کہ میرے قصاص کے طور پر صرف میرے قاتل کو ہی قتل کرنا ، اس کی ضربت سے اگر میری موت واقع ہوجائے تو قاتل کو ایک ضربت کے بدلے ایک ہی ضربت لگانا اور (دیکھو) اس شخص کی لاش مثلہ نہ کی جائے(ناک ،کان اور اس کے دوسرے اعضاء نہ کاٹے جائیں) کیونکہ میں نے رسول خدا ۖ کوفرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”خبردار کسی کی لاش کو مثلہ نہ کرنا اگر چہ کاٹنے والا کتا ہی کیوں نہ ہو”

اللھم انا نعوذ بک من شرور انفسنا وسیآت اعمالنا

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

seventeen − twelve =