ہم کربلا پہنچ چکے تھے۔ حرم امام حُسین کا سنہری گنبد سامنے تھا۔ ہر عزادار زائرِ امام حُسین ہوچکا تھا۔ ہر زائر کی آنکھیں عزاداری کر رہی تھیں، زار و قطار گریہ جاری تھا، کوئی دونوں ہاتھوں کو بلند کئے لبیک یاحسین کہہ رہا تھا تو کچھ عزادار ہاتھوں کو چہروں پہ لاکر بلند آواز سے گریہ کناں تھے۔ سب امام کے حضور پیش ہوگئے تھے۔
اے امام حاضر ہیں!
اے امام! ہم تھک تو چکے ہیں، مگر آپ کے مصائب کو یاد کرتے ہیں۔ آپ کے مصائب کے سامنے یہ تین دن کی مسافت کچھ نہیں تھی۔ سیدہ زینب کا سفرِ شام طویل تھا، اس میں کئی بازار، موڑ اور دربار تھے، ان کو چشمِ تصور میں لاتے ہیں تو اس سفر کی تھکاوٹ ہیچ نظر آتی ہے۔ یہاں کچھ فاصلے پر زائرین نے اپنے بیگ اور جوتے رکھے اور کچھ دیر کے لئے زمین پر بیٹھ گئے، آگے پہنچنے والوں کا اژدہام تھا۔ حرم بظاہر سامنے تھا، لیکن درمیان میں عزاداروں کا سمندر تھا، شاید 500 میٹر کا فاصلہ ایک گھنٹے میں طے ہوگا۔۔ ہم نے ایک مسجد میں سامان رکھا اور ایک مقامی ہوٹل میں غسل ِزیارت کیا۔ یہاں بھی گلیوں میں کچھ مواکب تھے، جہاں سے قہوہ نوش کیا اور خود کو تازہ دم محسوس کیا۔ کچھ ایرانی تو یہاں پہنچنے کے بعد حرم کو بوسہ دیئے بغیر واپس جا رہے تھے، آگے پہنچنا محال تھا۔ گویا رینگتے رینگتے آگے جانے کی کوشش کی، آگے ایک مقام پر جا کر معلوم ہوا یہاں رش اس لئے ہے کہ یہاں پہ لوگ جوتے جمع کرتے اور اٹھاتے ہیں۔
حرمِ امام حسینؑ کی جانب
اس بڑے اجتماع میں حرم کے اندر داخل ہونا بڑی آزمائش تھی۔ کندھے سے کندھا ملا کر قدم بہ قدم ایک موڑ پر پہنچا تو ایک بزرگ نے فارسی میں بتایا کہ آپ پہلے حضرت عباس علمدارؑ کے حرم کی زیارت کریں، اس کے بعد امام حُسین ؑکی زیارت کیجئے گا۔ میں نے اس ہجوم میں اپنا رُخ غازی سرکار کے حرم کی طرف کیا۔ واللہ یہاں مڑنا چلنا گویا سمندر میں غوطے لگا کر تیر کر جانے کے مترادف تھا۔ ایک گھنٹے کی مشقت کے بعد حرم کے صحن میں داخل ہوا۔ یہاں کربلا کے مختلف قبائل کے دستے سینہ زنی کر رہے تھے۔ ایک دروزے سے ایک دستہ داخل ہوتا، سینہ زنی کرتا، ماتم داری کرتا اور دوسرے دروازے سے نکل جاتا۔ ہر دستہ رائج علاقائی طریقے سے ماتم داری کر رہا تھا۔ یہاں پر سرخ روشنی تھی، جو کرب و بلا کا منظر پیش کر رہی تھی۔ لائیو کوریج کیلئے کیمرے نصب تھے۔ صحن میں یاحسینؑ یاحسین ؑکی صدائیں گونج رہی تھیں۔ صحن سے ضریح تک پہنچنا بھی محال تھا۔ کبھی کبھی تو قدم زمین سے اٹھ جاتے تھے، کندھے سے کندھا ملا کر تیرتے ہوئے کچھ فاصلہ طے ہو جاتا تھا، اگر دائیں طرف سے ہجوم کی لہر آتی تو بائیں طرف چلے جاتے اور ایسے ہی بائیں طرف سے لہر کہیں سے کہیں پہنچا دیتی تھی۔
اچھی نہیں مریض کو دوری مسیح سے
حسرت یہ ہے کہ رووں لپٹ کر ضریح سے
ضریح امام حُسین ؑآنکھوں کے سامنے ہے۔ فاصلہ بہت کم ہے، ہر زائر کی خواہش ہے کہ ایک بار امام کی ضریح کو چھُو لیں، ایک بار بوسہ دے لیں۔ ایک ایرانی نوجوان میرے پہلو میں کھڑا ہے، رو رو کر کہتا ہے کہ ایک بار مجھے ضریح کو ہاتھ لگانا ہے، باتیں کرنی ہیں۔ ضریح سامنے ہے اور کربلا 61 ہجری کا منظر چشمِ تصور میں ہے، جب قبیلہ بنی اسد کی مدد سے امام زین العابدین ؑنے امام حسینؑ کے لاشہ اطہر کو کربلا کی اسی جگہ پر گرم ریت میں چھپا دیا تھا اور پھر قبر بنا کر کہا تھا کہ یہ قبر امام حسین ؑہے، جسے پیاسا شہید کیا گیا۔
حاضر ہوں یاحسینؑ
میں نے آنکھوں کو موند لیا، قدم خود ہی ضریح کے پاس پہنچے تو گناہگار ہاتھوں نے ضریح کو تھام لیا تھا۔ سفر کی ساری تھکان ختم ہوچکی تھی۔ لقاءاللہ کا سرور وجود کو سرشار کر رہا تھا۔ اے امام میں حاضر ہوں! مجھے کچھ نہیں چاہیئے، میں مانگنے نہیں آیا، میں اپنی جان آپ پر قربان کر دوں گا۔ اے امام! میں نے اس لمحہ کی ہمیشہ خواہش کی ہے، آج آخر وہ لمحہ آگیا کہ میں آپ کے قریب ہوں۔ اے امام! آپ تو کبھی ہم سے دور نہیں تھے، ہمیں ہر گناہ نے آپ سے دور کر رکھا تھا۔ آپ تو حاضر اور موجود ہیں، ہم ہی آپ سے دور ہیں۔ اے امام! وعدہ ہے، جب تک زندہ ہوں، آپ کی راہ پر استقامت کے ساتھ رہوں گا۔ آپ کی محبت میں قتل ہونا پسند کروں گا، مگر کبھی بھی ذلت کو قبول نہیں کروں گا۔
اے امام! آپ کا شکریہ، آپ نے مجھے اپنی معرفت نصیب کی۔ شکریہ اے امام! مجھے حرم سے حرم تک پیدل سفر کی سعادت نصیب کی۔ آپ سے بچین سے عشق ہے، جب میری ماں مجھے مجالس میں لیکر جاتی تھی، میں نے ماں کی گود میں یاحسین ؑکی صداﺅں کو سنا۔ آج آپ کے حضور حاضر ہوں، یہ ناقابل یقین لمحہ ہے۔ اے امام! اس دنیا اور آخرت میں ہمیں اپنی محبت سے محروم نہ کرنا۔ اے امام! ؑقبر میں، روز محشر میں ہماری سفارش کیجئے گا۔ ہم آپ کے نام لیوا تو ہیں، مگر ہمارے اعمال میں گناہوں اور کوتاہیوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
سلام یاحسینؑ سلام یاحُسینؑ۔۔۔
اے کاش! مجھے ابراہیم مجاب کی طرح سلام کا جواب آتا، مگر آہ میرے کان گناہوں کے باعث گرد آلود ہیں۔ میری پرنم آنکھیں بتلاتی ہیں کہ امامؑ ہمیں سلام کا جواب دیتے ہیں۔ ضریح کے قریب ہی نوافل ادا کئے، زیارت عاشورہ تلاوت کی۔ محضرِ امامؑ میں گزرنے والے چند لمحات میں ایک اپنائیت تھی، یوں محسوس ہوتا تھا کہ امام ہم کلام ہیں۔ ہم پرنم آنکھیں جھکائیں گریہ کناں تھے۔ یہاں سے ایک لمحہ بھی جدا ہونے کا جی نہیں تھا، دست دعا بلند کئے اور دل سے حسرت دل بیان کی۔
کرب و بلا نصیب سے جانا نصیب ہو
پھر لوٹ کے وہاں سے نہ آنا نصیب ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ختم شد)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔