سیاسیات-جمہوری عربی شام کے صدر “بشار الاسد” سے عراق کی حکمت ملی کے سربراہ “سید عمار الحکیم” نے ملاقات کی۔ دونوں رہنماوں نے بغداد اور دمشق کو درپیش مسائل کے ساتھ خطے کی تازہ ترین صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔ اس موقع پر بشار الاسد نے کہا کہ بغداد میں سیاسی اور سکیورٹی استحکام خطے اور عراق کے مستقبل پر مثبت اثر ڈالے گا۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ اور جغرافیہ کے اعتبار سے خطے میں اس ملک کو جو مقام حاصل ہے، وہ اس کے سیاسی اور اقتصادی بنیادی کردار کی وجہ سے ہے۔ بشار الاسد نے کہا کہ وہ عراق کو برادر ملک نہیں بلکہ اپنا جڑواں بھائی سمجھتے ہیں۔ دوسری جانب سید عمار الحکیم نے کہا کہ شامی حکام سے بات چیت دونوں ممالک کے مفاد میں ہے اور یہ خطے کے تمام ممالک کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ شام سے بحران کا خاتمہ ہمسایوں پر اچھے اثرات مرتب کرے گا۔ کیونکہ ایک مستحکم شام، خطے کی سلامتی کا باعث ہے۔ لہذا شام کی جانب سے سیاسی عمل کا آغاز اس کے مقام اور حیثیت کی وجہ سے ہے۔
حکمت ملی عراق کے سربراہ نے شام سے سیاسی عمل کے آغاز کو خطے کے تمام ممالک کے مفاد میں قرار دیا۔ انہوں نے بغداد اور دمشق کے درمیان تمام شعبوں بالخصوص اقتصادی اور سیاسی میدان میں تعاون کے فروغ پر زور دیا۔ واضح رہے کہ گذشتہ ماہ عراقی پارلیمنٹ کے اسپیکر “محمد الحلبوسی” عرب پارلیمنٹ کے 34ویں اجلاس میں عرب دنیا میں شام کی واپسی کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ عرب ممالک پارلیمانی اور حکومتی سطح پر عرب دنیا میں شام کی واپسی کے حوالے سے حتمی فیصلہ کریں۔ تاکہ یہ ملک دنیا، خطے اور عرب ممالک کے درمیان اپنا مثبت کردار ادا کرسکے۔ محمد الحلبوسی نے کہا کہ جنگ کی وجہ سے تباہ حال شام میں استحکام، انفراسٹرکچر کی بحالی اور مہاجرین کی باعزت واپسی کے لئے سنجیدہ کوششیں کی جانی چاہئیں۔ انہوں نے اپنی گفتگو کے ایک اور حصے میں کہا کہ عراق اپنے فلسطینی بھائیوں پر صیہونی جارحیت کی مذمت کرتا ہے۔ ہم ایک بار پھر فلسطین کاز کے حوالے سے اپنے ٹھوس اور اصولی موقف کا اعادہ کرتے ہیں۔
محمد الحلبوسی نے کہا کہ چاہے جتنا وقت گزر جائے یا دنیا کی صورت حال تبدیل ہو جائے، ہم اپنی بنیادی سوچ اور پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر عمل کرتے رہیں گے کہ ہمارے فلسطینی بھائیوں کو دارالحکومت قدس کے ساتھ اپنا آزاد ملک قائم کرنے کا حق حاصل ہے۔ انہوں نے شامی زلزلہ زدگان کی مدد پر بھی زور دیا۔ محمد الحلبوسی نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ایوان عرب اپنے اختلافات کو ایک سائیڈ پر رکھ کر کئی عرصے سے دنیا و خطے کو درپیش چیلنجز کے حل کے لئے ایک وسیع حکمت عملی وضع کرے۔