نومبر 22, 2024

آج کا دور تحقیق کا ہے، اندھی تقلید کا نہیں

غیر جانبدارانہ تحقیق کا مقصد حق اور سچائی کی تلاش کرکے حقائق تک رسائی حاصل کرنا ہے۔ جب انسان اپنی زندگی کے تمام معاملات خصوصاً مذہبی مسائل میں تحقیق کرنے کی عادت اپنائے تو اس سے نہ فقط اس کے ماضی کی تاریکیاں روشنی میں بدل جاتی ہیں بلکہ اس کا مستقبل بھی تابناک ہو جاتا ہے۔ تحقیق کو کھرے اور کھوٹے مسائل کی تمیز کی بنیاد قرار دینے والوں کی دنیا سنورنے کے ساتھ آخرت بھی محفوظ رہ جاتی ہے۔ تحقیق سے کام لینے والے علمی خزینوں کو دریافت کرنے میں کامیابی حاصل کرکے آسودہ حالی کی نعمت سے مالا مال ہوتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ مذہبی اعتقادی مسائل میں جو تحقیق کرکے حقائق کی شناخت کرنے کی راہ میں محنت اور جدوجہد کرتے ہیں، وہ شک و تردید کی تاریک وادی سے نکل کر یقین اور اطمینان کی روشن وادی میں داخل ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کی زندگی پرسکون حالت میں گزر جاتی ہے۔ اس کے برعکس جو تحقیق کی دنیا سے دور ہوتے ہیں، وہ اندھی تقلید کا شکار رہتے ہیں۔
مذہبی دنیا میں انسانوں کی اکثریت اندھی تقلید میں گرفتار دکھائی دیتی ہے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے، جو انسان کو اندھا بنا دیتی ہے۔ جو اس مرض میں مبتلا ہوتا ہے، وہ حق اور صراط مستقیم کی پہچان نہیں کر پاتا اور وہ بصیرت کی دولت سے محروم رہتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذہبی معاملات میں لوگوں کی اکثریت اندھی تقلید کا شکار رہنے کی وجوہات کیا ہیں؟ اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد کے اندھی تقلید میں گرفتار رہنے کے یوں تو بہت سارے عوامل ہوسکتے ہیں، لیکن ہماری نظر میں اس کی بڑی وجہ خواص کی تبلیغات اور تلقینات ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہر مکتبہ فکر کے پیروکاروں کی ذھن سازی کرنے میں اسی گروہ کے خواص کردار ادا کرتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ آج مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے خواص کی اکثریت مصلحت کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ مذہبی معاملات خاص طور پر اعتقادی مسائل میں وہ حق اور سچ کو جاننے کے باوجود عوام کے سامنے اسے عیاں کرنے کی ہمت اور جرات کا مظاہرہ کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ اگر کوئی ایسی جرات دکھاتا ہے تو عوام تو اپنی جگہ خود خواص بھی تعجب کے سمندر میں غوطہ زن ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ حدیث غدیر شیعہ سنی دونوں کی معروف کتابوں میں تواتر کے ساتھ منقول ہے، لیکن “من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ” کی تفسیر میں اہلسنت دانشمندوں کی اکثریت نے کہا اور لکھا ہے کہ اس میں لفظ مولیٰ کے معنی دوست ہے، سرپرست نہیں! چنانچہ برصغیر پاک و ہند میں رہنے والے اہلسنت علماء اور فضلاء نے اپنی محفلوں اور اپنے عوام کے درمیان حدیث غدیر کی اسی تفسیر کا بڑے شد و مد سے پرچار کیا۔ عام اہلسنت عوام نے اپنے خواص پر اعتماد کیا، ان کے پڑھے لکھے لوگوں نے بھی خود سے تحقیق کرنے کی زحمت نہیں کی۔ انہوں نے آنکھیں بند کرکے اپنے اساتذہ اور مفتیان کرام کی باتوں کو حرف آخر سمجھا اور اس بات پر باور کیا کہ حدیث غدیر میں لفظ مولیٰ سے مراد دوست ہی ہے بس! لیکن ہم نے دیکھا کہ جہاں اس تحقیقی دور میں ہر طرح کے تعصب سے پاک اذھان کسی بھی مسئلے کی صداقت کو تحقیق کے بغیر قبول کرنے کے لئے آمادہ نہیں، وہیں اہلسنت کے جید عالم دین مفتی طارق جمیل صاحب کا ذھن بھی تحقیق کے بغیر حدیث غدیر کی تفسیر کے سلسلے میں نقل ہونے والی باتوں کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوا۔
چنانچہ انہوں نے اس حوالے سے تعصب کی عینک اتار کر تحقیق کی تو اس نتیجے پر پہنچے کہ حدیث غدیر میں لفظ مولیٰ کے معنی دوست نہیں ہوسکتے، بلکہ تمام قرائن و شواہد اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اس میں لفظ مولیٰ کے معنی آقا، سرپرستی اور اولیٰ بالتصرف ہے۔ جب انہوں نے خود سے تحقیق کرکے حدیث غدیر کی سچائی پر مبنی تفسیر ڈھونڈ نکالی تو اس حقیقت سے اپنے حلقہ احباب کو بھی آگاہ کرنا ضروری سمجھا، وہ دیگر خواص کی طرح مصلحت کا شکار نہیں ہوئے، چنانچہ انہوں نے اپنے ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر اس حقیقت سے اپنے عوام و خواص کو آگاہ کرکے ان پر اتمام حجت کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا اور پوری دنیا نے دیکھ لیا کہ موصوف نے اپنے خواص و علماء کے بھرے مجمع میں اس حقیقت کا اعلان کر دیا کہ حدیث غدیر میں لفظ مولیٰ کی تفسیر میں دوست کہنا درست نہیں بلکہ اس سے مراد آقا، سرپرست اور اولیٰ بالتصرف ہی ہے۔
جب مولانا طارق جمیل صاحب نے ممبر درس سے علماء و فضلاء کے سامنے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا تو ہم نے دیکھا ان کے مخاطب خواص کی نگاہیں تعجب اور حیرت سے مولانا کی طرف مڑگئیں۔ ان کے اس تعجب و حیرت کو خود مولانا صاحب نے بھی مشاہدہ کیا اور فرمایا آپ لوگ بڑا تعجب کر رہے ہیں جبکہ حقیقت یہی ہے، جو میں نے آپ کے سامنے رکھی ہے۔ کاش مولانا طارق جمیل کی طرح سارے خواص تحقیق کو مذہب کے اختلافی مسائل کی بنیاد قرار دے کر فعالیت کرتے۔ آج کے سیاسی، سماجی اور مذہبی معاملات میں لوگوں کی اکثریت کو اندھی تقلید کا شکار کرنے میں شعور سے تہی خواص کے پرپیگنڈوں کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ تحقیق کے نام پر بعض مغرص افراد حق اور باطل کو آپس میں ملا کر کر عوام کے سامنے پیش کرنے کی بڑی مہارت رکھتے ہیں۔ ایسے افراد کی اس غلط حرکت کے باعث سادہ لوح عوام حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھتے ہیں۔
آپ سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بننے والے دعا زہراء کے کیس کو ہی لے لیجئے۔ جب ایک شریف گھرانے کی بیٹی اغوا ہوتی ہے اور والدین اپنی بیٹی کے لئے فریاد بلند کرتے ہیں تو جہاں پاکستان سمیت دنیا بھر سے لوگوں نے اظہار ہمدردی کیا، ظہیر گینگ کی مجرمانہ حرکت کی بھرپور مزمت کرتے ہوئے ذمہ دار اداروں سے درخواست کی کہ وہ ایکشن لیں اور اغوا کرنے والوں اور ان کے سہولت کاروں کو فی الفور قانون کے کٹہرے میں لاکھڑا کرکے قوم کی بیٹی کو ان کی چنگل سے آزاد کرانے میں کردار ادا کریں، وہیں وطن عزیز پاکستان کے کچھ تعلیم یافتہ افراد ہمیں ایسا دیکھنے کو ملے، جنہوں نے نہ صرف ظالموں کو بے نقاب کرکے قوم کی بے بس بیٹی کو نجات دلانے میں آواز نہیں اٹھائی بلکہ وہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کا مصداق بن گئے۔ انہوں نے اس خالص انسانی ناموس کے مسئلے کو فرقہ واریت کا رنگ دے کر بیٹی کے والدین کے زخم پر نمک پاشی کی گئی۔
بعض افراد نے اس حوالے سے مجرم کے اس گھناونے جرم پر پردہ ڈالنے کے لئے لمبے لمبے آرٹیکلز بھی لکھے گئے۔ ان میں سے بعض کو ہم نے بھی اہمیت دے کر مطالعہ کیا، کیونکہ لکھنے والے ہماری نظر میں معتبر تھے۔ جب ان کی تحریروں کو پڑھا تو حیرت کی انتہا نہ رہی، کیونکہ انہوں نے تعصب کی عینک پہن کر ایسی بے بنیاد باتیں لکھی گئی تھیں، جن کو مضحکہ خیز کا نام ہی دیا جاسکتا تھا۔ ایک صاحب نے بیٹی کے والد کے سید ہونے کو مشکوک قرار دیتے ہوئے اسے پاکستانی کے بجائے ایرانی قرار دیا، بیٹی کے اغوا کو مرضی کی شادی قرار دیا، کمسن بچی کے ساتھ ہونے والے زنأ بالجبر کے شرعی مسئلے کو براہمن کے بنائے ہوئے ذات پات ہندؤوانہ سماج کی نفسیات، جاگیردارانہ ذہنیت، طبقاتی تقسیم اور مسلکی فرقہ پرستی کے رنگ میں عیاں کرنے کی کوشش کی گئی، کم عمر نابالغ بچی کو ورغلا کر غائب کرنے کو شادی کا لبادہ اوڑھا کر جرم کی پردہ پوشی کرنے کے لئے یہ لکھا گیا کہ اماں عائشہ اور ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی والدہ کی شادی بھی 12 سال کی عمر میں ہوچکی تھی۔
نابالغ بچی کو اپنے گھر سے بھگا کر اغوا کرنے کو پسند کی شادی قرار دیا، شیعہ اور بعض اہلسنت مکتب فکر کے ہاں بیٹی کی شادی کے لئے ولی کی اجازت شرط ہونا مسلم ہونے کے باوجود یہ لکھا گیا کہ شیعہ مذہب کی طرف سے ولی کی شرط کی کیفیت اسلام کے فلسفۂ نکاح اور بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ انہوں یہ فتویٰ بھی دیا کہ شیعہ طریق میں ولی کی غیر لچکدار شرط غیر منطقی اور اسلام کی ہدایات کے منافی ہے۔ دعا زہراء لاہور ہائیکورٹ کے بعد سندھ ہائیکورٹ سے بھی اپنے نکاح کی سند حاصل کرچکی ہے، لیکن اس کے باوجود اس کے والدین اور شیعہ کمیونٹی کی طرف سے اس کے نکاح کو زنأ قرار دیتے جانا انتہائی قابلِ نفرت رویہ ہے اور بھی تہمتوں اور الزمات پر مبنی بہت ساری باتیں۔۔ یہاں اتنا ہی عرض کرنا چاہوں گا کہ موصوف کی ساری باتیں بغیر کسی تحقیق کے ہوائی فائرنگ تھیں۔ وہ صاحب مطالعہ ہونے کے باوجود مذہبی تعصب کی وجہ سے حقائق لکھنے سے قاصر رہے۔
زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ دعا زہراء کے کیس کا رخ ہی چینچ ہوگیا، اس کے والد نے اپنی بیٹی کے لئے میدان میں ثابت قدم رہ کر آج یہ ثابت کر دکھایا کہ میں پاکستانی شہری ہوں، باغیرت سید ہوں، میری بیٹی کو ظہیر گینگ نے اغوا کیا تھا، نکاح کا شور جعلی تھا اور بچی کے نکاح کی صحت کے لئے نہ فقط شیعوں کے ہاں ولی کی اجازت شرط ہے بلکہ اہلسنت کے مفتی اعظم تقی عثمانی نے بھی کھلے الفاظ میں کہا ہے کہ اہلسنت کے ہاں بھی ولی کی اجازت شرط ہے۔ اب کراچی ہائیکورٹ نے اس کیس کے سرغنہ مالی ٹپر ظہیر اور اس کے بھائی کو جیل کی بند کوٹھڑیوں کا مزا چکھایا ہے، وہ اب جیل میں ہیں اور رہیں گے۔ ان شاء اللہ ان کے دوسرے سہولت کار بھی جلد ان کے پاس پہنچ کر ذلت و رسوائی کا تاج پہننے پر مجبور ہوں گے۔ بہر صورت موصوف کو معلوم ہونا چاہیئے کہ آج کا دور تحقیق کا ہے، اندھی تقلید کا نہیں۔ جو اندھی تقلید کا شکار رہتا ہے، اس کے لئے احترام آدمیت اور انسانیت بے معنی ہوتی ہے۔
تحقیق اور اندھی تقلید کے تناظر میں ان سوالات کا ذھن میں ابھرنا فطری ہے کہ کیوں بعض لوگ ہمیشہ دوسروں کی جان لینے کے درپے ہوتے ہیں؟ کیوں ان کے لئے دوسرے انسانوں کی زندگی سے زیادہ اپنے مفادات عزیز ہوتے ہیں۔؟ کیوں ایک ٹولہ اسلام کے نام پر خود مسلمانوں کو خاک و خون میں نہلانے میں اپنی عافیت تلاش کرتا ہے؟ کیا واقعی اسلام کی تعلیمات یہی ہیں کہ مسلمان اپنے کلمہ گو مسلمانوں کو قتل عام کرکے جنت کا مستحق قرار پائیں گے؟ کیا قرآن مجید اور سنت نبوی میں جہاد کا مفہوم یہی ہے کہ مسلمان اپنے ہی مسلمانوں کا گلہ کاٹیں، انہیں ذبح کریں یا گولی سے بھون ڈالیں؟ کیا واقعاً کلمہ گو مسلمانوں پر مذہبی اختلافات کے باعث کفر اور شرک کے فتوے لگا کر ان کی جان و مال کو اپنے لئے حلال قرار دینے کی اسلام اجازت دیتا ہے۔؟ کیا اسلام کے اندر مسلمان اپنے مسلمان بهائیوں کا دشمن بن کر کفار سے دوستی کرنے کے لئے کوئی جواز موجود ہے۔؟
عقل اور منطق کا فیصلہ کیا ہے کہ مسلمانوں کو آپس میں متحد رہنے میں ان کی کامیابی مضمر ہے یا اختلافات میں۔؟ کیا انسانی عقل انسان کو یہ حکم نہیں کرتی کہ تمام معاملات زندگی میں سوچنا ہرگز نہیں بھولنا چاہیئے، مذہبی امور میں چاہے اصول ہوں یا فروع، انسان کو ضرور غور کرنا چاہیئے؟ کیا واقعی یہ ظلم نہیں کہ انسان کسی فرقے سے تعلق رکھنے والے کچھ جاہل و ناداں افراد کے کردار اور کرتوت کو معیار بنا کر کر اس فرقے کے ماننے والوں کے اعتقادات اور نظریات کے بارے میں سو فیصدی رائے قائم کرے۔؟ کیا انصاف کا تقاضا یہ نہیں کہ کسی فرقے یا مسلک کے قائلین کے نظریات کو سمجهنے کے لئے ان کے منابع اصلی شمار ہونے والی کتابوں کی طرف رجوع کریں اور بہت سارے سوالات۔۔۔۔۔ مگر افسوس ہمارے معاشرے کی اکثریت ان سوالوں پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتی، جس کی بنیادی وجہ اندھی تقلید کے زندان میں ان کا قید ہو کر رہنا ہے۔
روشن خیال پڑهے لکهے طبقوں کو تو کم از کم یہ سمجهنا چاہیئے کہ اندھی تقلید کی بجائے انسان کو دلیل اور منطق کی بنیاد پر تحقیق کرکے دوسروں کے عقائد اور نظریات کی نفی یا تایید کرنا ہی معقول اور اصولی روش ہے۔ بغیر کسی تحقیق کے کسی کے بارے میں رائے قائم کرنا توہمات و تخیلات کی دنیا میں زندگی گزارنے والوں کا کام تو ہوسکتا ہے، عقلاء کا نہیں۔ جس دن مسلمان اندھی تقلید کے خول سے باہر نکل کر دلیل و استدلال کے ذریعے سیاسی، مذہبی اور سماجی مسائل و امور کو سمجهنے پر ایمان لائیں گے، ایک دوسرے کے مذہبی ماخذ کتابوں کو پڑهکر ایک دوسرے کے عقائد اور نظریات کو سمجهنے کی کوشش کریں گے اور سنی سنائی بے بنیاد باتوں کو چهوڑ کر، اندھی تقلید کی دنیا سے باہر نکل کر وسعت ذہنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کے افکار اور خیالات کو درک کرنے کی سعی کریں گے، یقین کیجئے، اس دن سے بہت سارے روحی امراض جیسے لسانی، قومی، مذہبی تعصبات کا خاتمہ ہونا شروع ہوجائے گا۔ بے شک آج کا دور تحقیق کا ہے، اندھی تقلید کا نہیں۔
موجودہ دور میں علمی و تحقیقی سبقت اور مقابلے کا رجحان مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ آج دنیا میں لوگ پیشرفت اور ترقی کی طرف گامزن ہیں۔ بشر کی زندگی کے تمام شعبوں میں آئے روز تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ ان تمام تبدیلیوں کا اصلی محرک تحقیق ہے۔ جن ممالک میں تحقیقی کاموں پر زیادہ کام ہو رہا ہے، وہی نت نئی چیزیں ایجاد کرکے ترقی کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور وہی دنیا کے دوسرے ممالک کے لئے آئیڈیل بننے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو مذہب کی دنیا بھی اس حقیقت سے خالی نہیں۔ آج کے اس پیشرفتہ دور میں پڑھا لکھا طبقہ تحقیق ہی کو مذہب کی حقانیت کا معیار سمجھتا ہے، وہ ایسی باتوں کو قبول کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار نہیں ہوتا، جنہیں مذہبی رنگ سے اچھی طرح رنگین تو کیا گیا ہو، مگر وہ تحقیق شدہ نہ ہوں۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

16 + eighteen =