نومبر 23, 2024

تہران ریاض معاہدے میں شہید سلیمانی کا کردار

تحریر: عادل عبد المہدی (سابق عراقی وزیراعظم)

حال ہی میں چین، سعودی عرب اور ایران کی جانب سے بیجنگ میں جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے اور اس میں بہت سوں کا کردار ہے۔ یہ ایسا اقدام ہے جس کی کامیابی کی صورت میں خطے اور حتی دنیا کا چہرہ تبدیل ہو سکتا ہے۔ کیونکہ یہ مسئلہ محض دو باہمی اختلافات کے حامل ممالک میں تعلقات کی بحالی تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ یہ معاہدہ خطے میں جاری بعض حساس اور خطرناک ایشوز حل ہو جانے کا باعث بنے گا۔ اس معاہدے سے متعلق اہم اور نیا نکتہ اس پر چین کی نظارت ہونا اور خطے میں نئی مساواتیں قائم کرنے میں چین کی صلاحیتیں ہیں۔ میں ستمبر 2019ء میں چین کے سرکاری دورے پر تھا۔ چینی صدر اور وزیراعظم سے ملاقات سے پہلے شہید قاسم سلیمانی نے مجھے فون کیا اور کہا کہ آیا آپ سعودی عرب جا سکتے ہیں؟

میں نے ان سے وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگے: “ہمارے اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کیلئے۔ یہ مسئلہ فوری ہے۔” میں نے انہیں جواب دیا کہ جیسے ہی بغداد واپس جاوں گا ریاض جانے کی تیاری کروں گا۔ میں نے شہید قاسم سلیمانی کی اس خواہش کو چینی حکام کے سامنے بھی بیان کیا اور انہوں نے اس کا بہت خیرمقدم کیا۔ میں نے شہید قاسم سلیمانی سے ان کی پیشکش کے بارے میں پوچھ گچھ کی۔ انہوں نے اس بارے میں جو وضاحتیں پیش کیں ان کا خلاصہ یہ ہے: “ہم قومی یکجہتی حکومت کے ذریعے یمن بحران حل ہونے میں مدد کر سکتے ہیں۔ سعودی عرب اور عراق کے درمیان تعلقات میں فروغ اور عراقی عوام سے وسیع پیمانے پر تعلقات قائم کرنے کی حمایت کر سکتے ہیں۔ دیگر ممالک کی نسبت ہمسایہ ممالک سے گفتگو آسان ہوتی ہے۔”

شہید قاسم سلیمانی نے مزید بیان کیا: “آئندہ دس سال تک تناو میں کمی کرنے کا وعدہ، غالب اور مغلوب کی بنیاد پر نہیں بلکہ باہمی احترام کی بنیاد پر، خلیج فارس میں آمدورفت کی یقین دہانی، شام، لیبیا اور خطے کے دیگر حصوں میں مسائل کو مشترکہ طور پر حل کرنا اور وزرائے امور خارجہ کا اجلاس۔” میں نے اس کے بعد سعودی برادران سے رابطہ کیا اور انہیں اطلاع دی کہ اس دورے کا مقصد آپ اور ایران کے درمیان ثالثی ہے اور شہید قاسم سلیمانی نے ایسی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے بھی اس کا خیرمقدم کہا اور میں 25 ستمبر 2019ء کی صبح ریاض روانہ ہو گیا۔ انٹیلی جنس کے سربراہ مصطفی الکاظمی، وزیر تیل ثامر الغضبان اور میرے آفس سیکرٹری محمد الہاشمی بھی میرے ہمراہ تھے۔ سعودی فرمانروا نے ایئرپورٹ پر ہمارا استقبال کیا اور رات کے آخری حصے میں ہم نے سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی۔

اس وقت سعودی عرب کی آرامکو تیل تنصیبات میزائل حملوں کا نشانہ بن چکی تھی اور اس کا الزام ایران پر عائد کیا جا رہا تھا۔ اگرچہ ایران نے اس واقعہ میں ملوث ہونے کا انکار کیا تھا۔ 5 ستمبر 2019ء کے دن امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو نے مجھے فون کیا اور کہا کہ افواہوں کے برخلاف، آرامکو پر گرنے والے میزائل خلیج فارس کے شمال سے فائر کئے گئے ہیں اور عراق سے نہیں آئے۔ اس وقت تناو کی شدت عروج پر تھی اور سعودی ولیعہد غصے میں بات کر رہا تھا۔ جب اس کی بات ختم ہوئی تو میں نے کہا: “کیا آپ ایران سے جنگ کے خواہاں ہیں؟” اس نے کہا: “نہیں”۔ میں نے کہا اگر جنگ کا ارادہ نہیں ہے تو پھر دو راستے ہی باقی بچ جاتے ہیں۔ یا تو تناو باقی رہے اور ہر لمحہ کنٹرول سے خارج ہونے کا امکان ہے، یا مذاکرات اور گفتگو انجام پائے۔”

سعودی ولیعہد نے کہا: “ہم کئی بار اس کی کوشش کر چکے ہیں لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔” میں نے اسے مرحوم ہاشمی رفسنجانی اور مرحوم ملک عبداللہ کے درمیان کامیاب مذاکرات کی یادہانی کروائی۔ اس نے کہا آپ کی پیشکش کیا ہے؟ میں نے کہا مذاکرات کا آغاز کریں، اپنا موقف لکھ کر دے دیں اور ہم اسے ایرانی حکام تک پہنچا دیں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ اس کا نتیجہ وسیع مذاکرات کے آغاز کی صورت میں نکلے گا۔ سعودی ولیعہد نے ایک کاغذ پر 9 نکات لکھ دیے جن میں عالمی قوانین کا احترام، ہمسایہ کے حقوق کا احترام، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور دنیا کے ممالک خاص طور پر ہمسایہ ممالک سے تعلقات کو فروغ دینا شامل تھا۔ یہ خط بہت خشک تھا اور میں نے اس میں کچھ تبدیلیاں پیدا کر کے اسے شہید قاسم سلیمانی کے سپرد کر دیا۔

جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت سے چند دن پہلے میں نے ان سے ایران حکام کے جواب کے بارے میں پوچھا۔ سعودی حکام بھی یہ سوال پوچھ رہے تھے۔ شہید قاسم سلیمانی نے کہا کہ ایرانی حکام نے اس پیغام کا جائزہ لیا ہے اور وہ جیسے ہی بغداد پہنچیں گے اس کا جواب دیں گے۔ لیکن انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ سابق امریکی حکومت نے بزدلانہ اور احمقانہ اقدام انجام دیتے ہوئے انہیں بغداد ایئرپورٹ پر شہید کر دیا اور بدقسمتی سے ان کا بیگ بھی مکمل طور پر جل گیا تھا اور وہ جواب ہمیں نہ مل سکا۔ 7 مئی 2020ء کے دن مصطفی الکاظمی نے میری جگہ وزارت عظمی کا قلمدان سنبھال لیا۔ انہوں نے بھی اس کام کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا اور مذاکرات آگے بڑھے۔ ان مذاکرات کی کامیابی میں چین کا کردار بہت اہم اور فیصلہ کن ثابت ہوا ہے۔

(بشکریہ اسلام ٹائمز)

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

seventeen − nine =