سیاسیات- شہر علم و اجتہاد قم المقدسہ میں ادارہ سیاسیات، الاسوہ مرکز تعلیم و تربیت اور الھدی فاؤنڈیشن کی جانب سے 23 مارچ یوم تجدید عہد وفا کی مناسبت سے کانفرنس کا انعقاد کیا گیا کانفرنس کا باقاعدہ آغاز قومی ترانے سے ہوا
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مفتی امجد عباس کا کہنا تھا کہ 23 مارچ وہ دن ہے جو ہمیں ان مقاصد کی یاد دلاتا ہے جن کی خاطر الگ وطن کا مطالبہ کیا گیا الگ ملک کا مطالبہ اسلامیان برصغیر کا تھا، جسے عملی شکل دے دی گئی، اب پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کی ضرورت ہے ہمیں اس دن خود احتسابی کی ضرورت ہے۔
مولانا فیصل عسکری کا کہنا تھا کہ یوم پاکستان ، پاکستان کی تاریخ کا بہت اہم دن ہے 1936 میں جب مسلم لیگ کو الیکشن میں بری طرح شکست ہوئی تو اس تحریک میں مزید تحرک آیا ۔مسلم لیگ نے 7 سال مسلسل تحریک چلائی جس کے نتیجے میں 23 مارچ 1940 کو قرار داد پاکستان لاہور میں پیش کی گئی ۔ جسے قرار داد لاہور بھی کہا جاتا ہے ۔ یوم پاکستان، پاکستان کی تاریخ کا بہت اہم دن ہے۔ اس قرار داد میں دستور کی لازمی شرطیں ، بنیادی اصول ، آزاد اسلامی حکومتیں ، اقلیتوں کی حفاظت ، دو قومی نظریہ شامل تھے۔
پروفیسر ظفر عباس ملک نے قراد داد پاکستان کے مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ معاشرہ قومی تعصب سے پاک ہو پاکستان کی بنیاد لا الہ الااللہ پر رکھی گئی ہمیں پاکستان کے بنیادی مقصد کو بھولنا نہیں چاہیئے یہ قائد اعظم محمد علی جناح کا پاکستان ہے اور اس میں ہمیں اتحاد و وحدت سے رہنا ہو گا۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا سید عدیل عباس نقوی نے یوم پاکستان کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستان بننے کے بعد 1956 تک اس دن کو یوم جمہوریہ کے نام سے جانا جاتا تھا لیکن اسی سال حکومتی سطح پر فیصلہ کیا گیا کہ آج کے بعد اس دن کو یوم پاکستان کے نام سے منایا جائے گا۔ انہوں نے پاکستان کے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ زمان حاضر میں ملک سے عہد وفا نبھائیں اور پاکستان کو درپیش خطرات سے نکلنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
مولانا شاکر علی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 23 مارچ خود مختار اسلامی جمہوری ریاست کا دن ہے اگرچہ اس دن کو عام طور پر قرار داد پاکستان 1940 کے ساتھ جوڑا جاتا ہے اور عوامی تاثر بھی اس بات کی عکاسی کرتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے قرار داد پاکستان جو 22 مارچ کو پیش کی گئی تھی اور 24 مارچ کو منظور ہوئی تھی۔23 مارچ 1956 کا دن پاکستان کی برطانوی بادشاہت سے مکمل آزادی کا دن ہے۔ اس دن پاکستان کا پہلا آئین نافذ ہوا۔ اس سے پہلے سربراہ مملکت برطانوی بادشاہت کے نمایندہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس مکمل سیاسی آزادی اور نفاذ آئین کے دن کو یوم جمہوریہ کا نام دیا گا جو 1958 میں ایوب خان کی فوجی حکومت میں یوم پاکستان سے بدل دیا گیا۔ آج کے دن ہم پاکستان سے اس کی آزادی، خودمختاریت، جمہوریت اور آئین کے تحفظ کا عہد کرتے ہیں۔
الھدیٰ ویلفیئر فاؤنڈیشن کے سربراہ محمد شاهد رضا خان نے 23 مارچ قرارداد پاکستان کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 22 مارچ سے 24 مارچ 1940 کو پنجاب کے دل لاہور کے اقبال پارک میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس ہوا جس سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا کہ برصغیر میں مسلمان اور ھندو دو الگ مذہب ہیں اور مسلمان یہاں کی اقلیت نہیں بلکہ ایک الگ قوم ہے کیونکہ مسلمانوں کا انداز فکر،تہذیب، ثقافت، تمدن ،معاشرت، اور رسم و رواج الگ ہیں لہذا مسلمانوں کو اپنا وطن اپنی ریاست الگ چاہیے تاکہ وہ ایک الگ خود مختار قوم کی حیثیت سے اپنا تشخص قائم کرسکیں اور برطانوی حکومت برصغیر کے لوگوں کیلئے امن و خوشحالی واقعی چاہتی ہے تو برصغیر کو آزاد ریاستوں میں تقسیم کرے
اور قائد اعظم نے یہ بھی واضح کہا کہ مسلمان ایسا دستور قبول نہیں کریں گے جس سے ھندو حکومت قائم ہوجائے
قائد اعظم کی تقریر کی روشنی میں ایک قرارداد مرتب کی گئی جیسے 23 مارچ 1940 کو شیربنگال فضل الحق نے پیش کیا اور مولانا ظفر علی اور چند دیگر اراکین نے اس کی بھرپور تائید کی اور اس قرارداد کے مطابق ملک میں وہی دستور قابل عمل ہوگا اور مسلمانوں کے لیے قابل قبول ہو گا جسمیں برصغیر کا مسلم اور ھندو علاقوں میں تقسیم کرنے کا واضح ذکر موجود ہو اسکی تقسیم اس اندازے سے کی جائے تاکہ برصغیر کے مسلمان مغربی و مشرقی مسلم اکثریت کے علاوہ سب مل کر مسلمانوں کو آزاد اور آزاد ریاست قائم ہو جائے مسلم اور ہندو خودمختار ریاستوں اقلیتوں کے مذہبی رسم و رواج و ثقافتی، سیاسی و اقتصادی حقوق اور مفادات کیلئے موثر انتظام کیا جائے.
الھدیٰ فاؤنڈیشن کے سربراہ نے مزید کہا کہ ہم پاکستانی ہیں اور ہماری جان ،مال ،خون سب پاکستان کے لیے ہے ہم دنیا میں جہاں بھی رہیں پاکستانی بن کر رہیں اور پاکستان کی بہتری کیلئے مل جل کر کام کریں پاکستان کی محبت ہمیشہ ہمارے دل میں ہے۔
23 مارچ یوم تجدید عہد وفا کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس میں مدیر الاسوہ مرکز تعلیم وتربیت جناب میثم طہ نے کہا کہ ملک پاکستان کی ابتداء 1857ء کی جنگ آزادی سے شروع ہوتی ہے جو 90 سالوں کے بعد مملکت خداداد پاکستان کی صورت میں پایا تکمیل کو پہنچتی ہے
ان 90 سالوں میں تین مرحلہ قابل غور ہیں
1۔ نہرو رپورٹ کے مطابق ہندو مسلم اتحاد اور اکھٹا مل کر انتخابات میں حصہ لینا کہ کانگریسی ہندو مسلم رہنما کا یہی ایجنڈا تھا
2۔ سر سید احمد خان کے دو قومی نظریہ کے مطابق جداگانہ انتخابات میں حصہ لینا کہ مسلم لیگی رہنمائوں کا یہی موقف تھا
3۔ ان دو موقفوں کے ایک تیسرا موقف”الگ ریاست کا تصور” بھی پیش کیا گیا۔ ہمیں مصور پاکستان، حکیم الامت اور دانائے راز علامہ محمد اقبال کے فہم و فراست کی داد دینی پڑتی ہے کہ جس حقیقت کو قائداعظم سمیت دیگر مسلم رہنمائوں نے 1928 میں سمجھا اسے علامہ اقبال بہت پہلے 1907 ہی میں جان گئے تھے۔ 1907 میں وہ ہندو مسلم اتحاد کی خیالی جنت سے نکل کر دو قومی نظریے کی ضرورت و اہمیت کو جان چکے تھے اور ان کا 1905 سے پہلے کا لکھا ہوا “ہندوستانی بچوں کا گیت” تبدیل ہو کر اب “ملی ترانہ” بن چکا تھا اور “ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا” کے نغمے گانے والا اقبال اب “مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا” کے گیت الاپنے لگا تھا۔ علامہ اقبال کے دیدہ بینا نے دیکھ لیا تھا کہ نہ ہندو مسلم اتحاد ممکن ہے اور نہ ہی یہ وقت کی ضرورت ہے
ان کے یہی خیالات آخرکار 1930 میں ان کے خطبہ الہٰ آباد میں ایک آزاد اسلامی ریاست کی تجویز کی شکل اختیار کر گئے۔
بالآخر وہ دن آگیا جب 22 مارچ اور 24 مارچ 1940 کو لاہور میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں قرارداد لاہور جسے قرار داد پاکستان بھی کہا جاتا ہے منظور کی گئی جو دو قومی نظریہ کا منطقی نتیجہ اور قیام پاکستان کی منزل کا آخری سنگ میل ثابت ہوئی۔
یوم قرارداد پاکستان(1940)،یوم جمہوریت (1956)اور یومِ پاکستان(1958) برصغیر کی تاریخ میں کئی حوالوں سے اہم دن ہے، ہمیں اپنے آباؤ اجداد کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے مل کر قومی اتحاد اور سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
کانفرنس کے آخر میں ادارہ سیاسیات کے مدیر اعلی حجة الاسلام محمد ثقلین واحدی نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ 23 مارچ پاکستانی قوم کا اپنے نظریئے سے تجدید عہد کا دن ہے آج کا دن ایک تاریخی دن ہے جو مسلمانان برصغیر کی اس جدوجہد کی یاد دلاتا ہے جو انہوں نے الگ مملکت کے حصول کے لئے کی عظیم قومیں نظریات کی بنیاد پر زندہ رہتی ہیں قیام پاکستان یقینا ایک سخت مرحلہ تھا مگر استحکام پاکستان اس سے بھی کڑا مرحلہ ہے ہر مکتبہ فکر کے افراد کو اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہونگی۔