تحریر:غلام عباس
مسلمانوں کے مسائل کو دنیا اپنا مسئلہ نہیں سمجھتی نہ ہی انہیں حل کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔فلسطین مسلم سرزمین ہے جہاں مسلمانوں کا قبلہ اول موجود ہے۔دنیا بھر کے مسلمانوں کی عقیدتوں کا مرکز و محور ہے۔یہیں سے خاتم الانبیاﷺکو معراج کے لیے لے جایا گیا ۔مسلمانوں نے ایک امن معاہدے کے نتیجے میں ارض فلسطین کو حاصل کیا اور اس کے بعد تمام اہل فلسطین کو بالعموم اور اہل قدس کو بالخصوص مکمل مذہبی آزادی دی۔اگر آپ عثمانی دور کے قدس شریف کو دیکھیں تو وہاں آپ کو مذہبی آزادی کی عظیم الشان یادگاریں نظر آئیں گی۔کہیں بڑے بڑے کلیسا ہیں تو کہیں یہودیوں کے سینگال ہیں مسلمانوں نے کبھی مذہب کی بنیاد پر قدس میں کوئی تفریق نہیں کی بلکہ سب کے ساتھ برابری کا سلوک کیا۔صلیبی جنگجوں میں صلیبی قابضین نے مسلمانوں کے خلاف ہر بار بربریت کا مظاہرہ کیا اس کے برعکس تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی مسلمانوں نے فلسطین کو آزاد کرایا انہوں نے کبھی مذہب کی بنیاد پر قتل عام نہیں کیا یہاں تک کہ جب صلاح الدین ایوبی کے دور میں قدس آزاد کرایا گیا تو معاہدے میں ان فوجیوں کو بھی پر امن واپس جانے کی اجازت دی گئی جو مسلمان لشکر سے لڑ رہے تھے۔
سینکڑوں سالوں سے اہل فلسطین مسلمان ہو چکے ہیں اور ان کی اسلام سے عقیدت و محبت ضرب المثل ہے۔انہوں نے ہمیشہ قربانیاں دیں اور قبلہ اول کا دفاع کیا۔پہلی جنگ عظیم کے ساتھ ہی برطانوی استعمار نے صیہونی تحریک سے وعدہ کر لیا کہ انہیں بڑے پیمانے پر فلسطین میں بسایا جائے گا اور یہیں پر ان کا ملک بنے گا۔اس کے بعد فلسطین میں برطانوی سرپرستی میں صیہونی آباد کاری کے بڑے منصوبے شروع کیے گئے مقامی سطح پر دیہاتی فلسطینیوں کو پیسے دے کر ،ڈرا دھمکا کر اور ریاستی قوت استعمال کر کے زمینیں ہتھیائی گئیں اور ان پر دنیا بھر سے آئے صیہونی آباد ہونے لگے۔مقامی سطح پر برطانوی حکومت تھی پھر بھی اہل فلسطین نے اپنی آواز بلند کی۔انہیں دبایا گیا اور ان کا قتل کیا جانے لگا۔جب اہل فلسطین نے دیکھا کہ ان کا ملک تیزی سے استعماری ایجنڈے کا شکار ہو رہا ہے تو انہوں نے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا مگر بین الاقوامی اسٹبلشمنٹ کی مکمل حمایت اور مقامی سطح پر عرب حکمرانوں کی طرف سے مطلوبہ حمایت نہ ملنے کی وجہ سے اسرائیل نامی ملک معرض وجود میں آ گیا۔صیہونی نظریہ کے مطابق وہ فرات سے حجاز تک کی زمین پر دعوی رکھتے ہیں۔ یوں اسرائیل تیزی سے شام،لبنان اور مصر کی طرف فوجی طاقت سے زمینوں پر قبضہ کرنے لگا۔صورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہ لبنان کا دارالحکومت بیروت بھی اسرائیلی قبضے میں چلا گیا۔
اس وقت تک ایران کا باد شاہ خطے میں امریکی پولیس مین بنا ہوا تھا اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہو چکے تھے۔اسی فروری کے مہینے میں امام خمینی جلاوطنی ختم کے تہران کے ہوائی اڈے پر پہنچنے ہیں اور اسرائیل نواز ایرانی بادشاہ فرار کر گیا ۔امام خمینی ایران کے نظام کو اسلامی نظام میں بدل دیتے ہیں اور فلسطین کی آزادی کو اپنا مشن قرار دیتے ہیں۔
امام خمینی نے عرب حکمرانوں کی غفلت پر بہت زیادہ تنقید کی کہ قبلہ اول صیہونیوں کے قبضے میں ہے اور ہم آرام و سکون سے بیٹھے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا فلسطین کی آزادی کا راستہ امت مسلمہ کے وحدت سے ملے گا اگر ہم چاہتے ہیں کہ فلسطین کو آزاد کرائیں اور قبلہ اول کی رونقیں بحال کریں تو ہمیں متحد ہونا پڑےگا۔انہوں مسلمانوں کو قبلہ اول یاد کرانے کے لیے ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ کو یوم القدس قرار دیا۔ایسا پہلی بار ہوا کہ قبلہ اول کی آزای کا مسئلہ مسلسل امت مسلمہ کے عام افراد تک پہنچا اور انہیں مسلسل جدوجہد کا روڈ میپ دیا گیا۔آج کی دنیا سوشل میڈیا کی دنیا ہے اس وقت ذرائع ابلاغ محدود تھے امام خمینی نے بڑے پیمانے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت میں میڈیا مہم شروع کی۔عربی،انگریزی اور دنیا کی دیگر بڑی زبانوں میں فلسطین کے قضیہ کو دنیا کے سامنے پیش کیا گیا،اسی طرح ڈاکومنٹریز بنائی گئیں،ٹی وی چینلز پر مسلسل اہل فلسطین کی حمایت کی گئی۔صیہونی اور صیہونی نواز حلقوں کی یہ خواہش تھی کہ قضیہ فلسطین کو دبا دیں گے اور اسے امت مسلمہ کے ذہنوں سے محو کر دیں گے اس کا خاتمہ ہوا۔آج امت مسلمہ کو معلوم ہے کہ ہمارا قبلہ اول صیہونیوں کے قبضے میں جسے ہم نے آزاد کرانا ہے ۔
اسی کی دہائی میں ہی آپ نے بتا دیا تھا کہ مذاکرات سے کچھ حاصل نہیں ہو گا اور آج وہ بات بالکل درست ثابت ہوئی ہے۔امام خمینی نے اہل فلسطین و لبنان کو تاکید کی کہ وہ اپنی سرزمینوں کو خود آذاد کرائیں اور خود کو طاقتور بنائیں۔خطے میں اسرائیل کے مسلسل مسلمان ممالک کی زمینوں پرقبضے کے خلاف مزاحمتی تحریک شروع ہوئی۔لبنان کی عوام نےقابض افواج پر حملے شروع کر دیے جذبہ آزادی لیے جوان اپنی مادر وطن کے لیے جانیں قربان کرنے لگے یوں پہلے بیروت اور پھرجنوبی لبنان آزاد ہو گیا لبنان کے بارڈر پر حزب اللہ جیسی طاقتور فورس بن گئی جس نے لبنان سے اسرائیل کو نکال دیا اور ایسا خوفزدہ کیا کہ اب اسرائیل لبنان کی مسلم زمینوں کی طرف پھیلاو کو سوچ بھی نہیں سکتا۔اسی طرح غزہ میں حماس جیسی مزاحمتی تحریک اٹھی جس نے فلسطین کی آزادی کے لیے اسرائیل سے براہ راست مسلسل جنگیں کی ہیں۔حماس نے اسرائیل کو پیغام دیا ہے کہ اب وہ دور ختم ہو گیا جب اسرائیل ٹینک فلسطینی زمینوں کو روندتے ہوئے شہروں مسلمانوں کا قتل عام کرتے تھے اور انہیں کسی قسم کے ردعمل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھااب حالات بدل چکے ہیں نوجوان مادر وطن کی آزادی کے لیے تیار ہیں۔امام خمینی نے کہا تھا اگر تمام مسلمان ملکر ایک ایک بالٹی پانی کی اسرائیل پر ڈال دیں تو اسرائیل میں ایسا سیلاب آئے کہ وہ اس میں غرق ہو جائے۔بات آج بھی وہیں کھڑی ہیں کہ ہمیں وحدت امت کو زندگی کا حصہ بنانا ہو گا اور فلسطین کے مسلمانوں کی مسلسل حمایت کرنا ہو گی تبھی جا کر قبلہ اول آزاد ہو گا۔