نومبر 23, 2024

کشمیریوں کی زمینوں پر جبری قبضے

تحریر: عمر فاروق

مقبوضہ کشمیرکے عوام زمینوں سے جبری بے دخلی کے خلاف سراپااحتجاج ہیں احتجاج کی لہرسری نگرتادہلی پہنچ چکی ہے کل جماعتی حریت کانفرنس نے زمینوں سے جبری بے دخلیوں کے خلاف 15فروری کوہڑتال کی کال دی ہے ۔مودی سرکارانسدادتجاوزات کی آڑمیں مظلوم کشمیریوں کی قیمتی زمینوں ،جائیدادوں اوراملاک پرقبضہ کررہی ہے،

بھارتی میڈیاکی رپورٹس کے مطابق مقبوضہ کشمیرکی انتظامیہ نے پہلے مرحلے میں کشمیر کے دس اضلاع میں 3لاکھ 58 ہزار 720 کنال زمین پرقبضہ کرنے کاٹارگٹ مقررکیاتھا جس میں سے اب تک 2 لاکھ 16 ہزار 683 کنال زمین پرسرکاری قبضہ کرلیاگیاہے ۔اننت ناگ میں 38132کنال،کولگام میں 8928،پلوامہ میں 26603،شوپیاں میں 11341،سری نگرمیں 2415،بڈگام میں 21698،گاندربل میں 12110،بارہ مولہ میں 51975،کپواڑہ میں 27489،بانڈی پورمیں 15992کنال زمین کشمیریوں سے چھین لی گئی ہے ۔ان اضلاع سے مزید1لاکھ 41ہزار587کنال اراضی پر اگلے چندروزمیں قبضہ کرلیاجائے گا ۔

لیگل فورم فارکشمیرنے بھی ایک رپورٹ میں دعوی کیاہے کہ جموں وکشمیر کی قابض بھارتی انتظامیہ نے اسرائیلی طرز کی کارروائی میں کشمیریوں کی دو لاکھ ایکٹر اراضی پر قبضہ کر لیا ہے ۔ وادی کشمیر میں ایک لاکھ78 ہزار ایکڑ جبکہ جموں میں25 ہزار ایک سو59ایکڑ اراضی کو مالکان کو کوئی نوٹس دیے بغیر زبردستی قبضہ میں لی ہے۔ مقبوضہ کشمیرمیں بڑے پیمانے پر انتظامی تبدیلیوں اور قانون سازی نے اس پابندی کو ختم کر دیا ہے جس کے تحت غیر کشمیریوں کو رہائشی یا تجارتی استعمال کے لیے جائیداد خریدنے سے روکا جا سکتاتھا۔سابقہ ریاستی قوانین کی منسوخی کے بعدبھارتی مسلح فورسز جہاں چاہیں زمین پر قبضہ کر سکتی ہیں جبکہ بھارتی حکومت صنعتی استعمال کے نام پر کسی بھی زمین اور جائیداد پر قبضہ کرنے کی مجازہے۔

ریونیو محکمے کی طرف سے مقبوضہ کشمیرکے 20اضلاع میں جاری کی گئی مبینہ ریاستی اراضی کی 11737صفحات کی فہرست بنیادی طور پر بگ لینڈاسٹیٹ ایبولیشن ایکٹ(زرعی اصلاحات ایکٹ)، جے کے اسٹیٹ لینڈ ویسٹنگ آف اونر شپ ایکٹ 2001 اور1956 اور سابقہ ریاستی حکومتوں کی طرف سے بے زمین کسانوں کے حق میں منظور کیے گئے دیگر متعدد قوانین کے تحت کشمیریوں کی ملکیت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جنگلات کی زمین پرروایتی جنگلات کے باشندوں کو ہندوستان میں فارسٹ رائٹس ایکٹ (ایف آر آئی)کے تحت جبری نقل مکانی کے خلاف تحفظ حاصل ہے اور انہیں چرنے کے حقوق حاصل ہیں اور لکڑی کے علاوہ انہیں جنگلاتی وسائل تک رسائی حاصل ہے۔

غرضیکہ کشمیر کے 20 اضلاع میں مسماری مہم تیزی سے جاری ہے جہاں ریونیو اہلکار، پولیس اور بلڈوزر کشمیریوں کی روزی روٹی چھیننے کے لیے سرگرم عمل ہیں شہری آبادی کے خلاف انسداد تجاوزات مہم کے نام پر مقبوضہ کشمیرمیں اسرائیلی طرز کے نوآبادیاتی ماڈل عمل کیاجارہاہے ۔جس کا مقصد کشمیریوں کو ان کی زرعی اور غیر زرعی زمینوں سے بے دخل کرنا ہے تاکہ ان کو معاشی طورپر بے اختیار بنایاجائے۔ اس کے ساتھ ساتھ انسداد تجاوزات مہم آبادی کے تناسب میں تبدیل کا ایک عمل بھی ہے تاکہ باہر کے ہندوتاجروں کو آبادکیا جائے اور انہیں ووٹنگ اور دیگر حقوق دیے جائیں۔

ایک طرف یہ صورتحال ہے تودوسری طرف 24 اگست 2009کی بی بی سی اردوکی ایک رپورٹ اچانک میرے سامنے آئی ہے جس میں لکھا گیاہے کہ10لاکھ 54ہزار721کنال زمین فوج کے قبضے میں ہے کشمیراسمبلی میں پوچھے گئے ایک سوال کے تحریری جواب میں حکومت نے کہا ہے کہ اس رقبہ پر فوج، سی آر پی ایف، بی ایس ایف اور انڈو تبیتن بارڈر پولیس یا آئی ٹی بی پی غیر قانونی طور قابض ہے۔ جبکہ ایک لاکھ99 ہزار 314کنال کے حقوق حکومت نے مقامی قانون کی رو سے فوج اور دیگر ایجنسیوں کو منتقل کردئے ہیں۔ ایوان میں جاری کردہ اس دستاویز میں فوجی قبضہ کی تحصیل وار تفصیل دی گئی ہے۔

اس حوالے سے لداخ سرفہرست ہے جہاں چار لاکھ تین ہزار چھ سو کنال سے زائد رقبہ پر فوج کے کیمپ اور اہم تنصیبات قائم ہیں ۔ اسی طرح شمالی کشمیر کی تیرہ تحصیلوں میں کل ملاکر51 ہزار992 کنال زمین پر فوج کا قبضہ ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس خطے کے اوڑی اور کرناہ تحصیلوں میں وسیع رقبہ پر فوجی تنصیبات ہیں۔سرکار کا کہنا ہے کہ جنوبی کشمیر کی تحصیلوں میں 20ہزار797 کنال اراضی فوج کے تصرف میں ہے۔ وسطی کشمیر کے سرینگر، بڈگام اور گاندربل خطوں میں پچپن ہزار چار سو اڑسٹھ کنال زمین پر فوج اور نیم فوجی عملہ مقیم ہے۔ حکومت نے اس حساس سوال کے جواب میں واضح کیا ہے کہ صوبے میں زمین کی منتقلی کا قانوں ‘لینڈ اینڈ اکوِزیشن ایکٹ’ پوری طرح سے نافذ العمل ہے اور اس کی رو سے اگر کسی (فوجی یا غیر فوجی ادارہ ) نے زمیں حاصل کی ہے اس کی واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

یہ پندرہ سال پہلے کی ایک رپورٹ ہے آج صورتحال مزیدگھمبیرہوچکی ہے،کشمیرسے مسلمانوں کانام ونشان مٹانے کے لیے مودی حکومت ہرہتھکنڈہ استعمال کررہی ہے۔کشمیریوں کی زمین ہتھیانے کے لیے مودی انتظامیہ مختلف حربے استعمال کررہی ہے حالیہ دنوں میں بھارتی فورسز کا گھنائونا منصوبہ سامنے آیا ہے۔وادی میں آبادی کے قریب توپخانہ نصب کر دیا گیا جس کی وجہ سے مقامی آبادی نے نقل مکانی شروع کر دی۔بھارتی سرکار کا تو مقصد ہی یہی ہے کہ کسی طرح کشمیری اپنا گھر بار چھوڑ کر چلے جائیں اور وہ غیر کشمیریوں کو یہاں آباد کر سکے۔

اس کے ساتھ ساتھ مودی انتظامیہ کشمیر کو مختلف طریقوں سے تقسیم کررہی ہے وادی کشمیر کے کل رقبہ 15,520مربع کلومیٹر میں سے 8,600مربع کلومیٹر پر جموں اور دہلی میں رہنے والے کشمیری پنڈتوں کو بسا کر ایک علیحدہ مرکز کے زیر انتظام علاقہ تشکیل دیئے جانے کامنصوبہ زیرتکمیل ہے۔ اس کا نام پنن کشمیرتجویزکیاجارہاہے ہے یعنی وادی کشمیر کو دو علیحدہ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیا جائے۔

پنن کشمیر کے نقشے سے معلوم ہوتا ہے وادی کشمیر کا پورا میدانی اور زرعی علاقہ قاضی گنڈ سے کپواڑہ تک اسکی زد میں آئیگا اور محض ٹنگڈار، اوڑی ،پہاڑی اور جنگلات کے سلسلوں میں مسلمانوں کو بسنے دیاجائیگا۔ اس سلسلے میں جموں و دہلی میں مقیم شدت پسند کشمیری پنڈت گروپ وادی کشمیر کے اندر ایک اسرائیل طرز کا خطہ بنانے کی تجویز دے چکے ہیں۔مودی کے مذموم عزائم میں سے یہ بھی ہے کہ جموں و کشمیر کا نام تبدیل کرکے اسکو جموں پردیش رکھا جائے، یعنی لفظ کشمیرکوہی حذف کردیاجائے ۔تین دن قبل معروف امریکی اخبار نیویارک ٹائمز مودی کا ہندوستان کو ہندو ملک بنانے کا منصوبہ بے نقاب کر چکا ہے ۔

مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی قابض فوج نے کشمیریوں کو اقتصادی طور پر کمزور کرنے کے مذموم منصوبہ پر عمل کرتے ہوئے زرعی زمینوں پر دھڑادھڑقبضہ کررہاہے ان زرعی زمینوں پر زبردستی قبضہ کرکے فوجی کیمپس قائم کئے جارہے ہیں۔ اسی منصوبے کے تحت متحدہ جہاد کونسل کے چیئرمین سید صلاح الدین کے آبائی علاقے سویہ بگ بڈگام میں قابض فوج نے لوگوں کی زرعی اراضی پر قبضہ کرکے وہاں فوجی کیمپ قائم کردیاہے ۔اورجوزمینیں کشمیریوں سے کرائے پرلے جارہی ہیں اس کامعاوضہ بھی نہایت قلیل دیاجارہاہے ۔سری نگرکے ہوائی اڈے سے ملحقہ علاقوں مجموعی طور پر 168کنال قیمتی زمین1947سے بھارتی فضائیہ اور سرینگر ہوائی اڈے کے حکام کے قبضے میں ہے اور مالکان کو صرف 155 روپے فی کنال ماہانہ معاوضہ دیاجارہاہے ۔یہ معمولی رقم بھی 7ماہ بعد جاری کی جاتی ہے۔

مقبوضہ جموں وکشمیرمیں زمینوں سے بے دخلی کی مہم مودی حکومت کی نوآبادیاتی ذہنیت کااظہارہے۔ انسداد تجاوزات کے نام پر اراضی خالی کرنے کی مہم کشمیریوں پر مظالم ڈھانے کے لئے مودی حکومت کا ایک اور ہتھیار ہے۔جس کا مقصد کشمیریوں کو اپنی ہی سرزمین پر بے گھر کرنا ہے۔ مودی حکومت علاقے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرانے کے لیے ایک کے بعد ایک نیا قانون متعارف کروا رہی ہے۔ کشمیری مسلمانوں کی جبری بے دخلی اور زمینوں اور جائیدادوں پر غیر قانونی قبضہ انہیں دوسرے درجے کے شہری بنانے کی بی جے پی حکومت کی پالیسی کا حصہ ہے۔

کشمیریوں کی زمینوں پرقبضہ کامقصد مسلمانوں کی تعداد بتدریج کم کرناہے۔ اس کے لیے پوری منصوبہ بندی سے بھارت کے فٹ پاتھوں پر پڑے شودر پاوندے اور دیگر کم ذات ہندو ں کو کشمیر میں لا کر آباد کر رہا ہے۔تاکہ کشمیرمیں آبادی کاتناسب میں بگاڑپیداکردیاجائے۔جب کبھی کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی پچاس فیصد سے کم ہو جائے گی تو بھارت استصواب رائے کے لئے تیار ہو جائے گا۔ مذہب کی بنیاد پر اگر الحاق کی بات ہوئی تو کشمیر تب تک مسلم اقلیتی سرزمین بن چکی ہو گی۔

زمینوں پرقبضے کے بعد نئی حدبندیاں کی جارہی ہیں جس میں مسلم اکثریتی حلقوں کو تقسیم کیا جارہاہے اور نئی حلقہ بندی میں ہندو آبادی کو شامل کیا جارہاہے۔ اور جن علاقوں میں ہندو اکثریت نہیں ہے وہاں نئے ووٹر بنا کر نئی بستیاں بنائی جارہی ہیں۔ اس نئی سازش کے تحت مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریتی علاقوں کو کانٹ چھانٹ کر ان کی حیثیت کو تبدیل کرنے کا عمل سرفہرست ہے۔بھارتی عدلیہ بھی ہندوتواکے اس ایجنڈے میں مودی کی ہمنواہے ،دودن پہلے بھارتی سپریم کورٹ نے کشمیرمیں مسلم مخالف حلقہ بندیاں درست قراردیتے ہوئے مسلمانوں کی درخواست مسترد کردی ہے ۔کشمیر کے نہتے اور بے یارومددگار عوام عالمی ضمیر کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ شاید اقوام متحدہ میں پڑی وہ بوسیدہ قراردادیں معجزاتی طور سے پذیرائی پا جائیں۔اورانہیں بھی آزادی کا سورج دیکھنا نصیب ہوجائے ۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

four × two =