تحریر: میثم طہ
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ ( 03 : سورہ آل عمران : آیت 159)
سورة آل عمران کی آیت 159، "فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ” ، رسول اللہ ﷺ کی قیادت اور اخلاقیات کے انمول اصولوں کا ایک مکمل خاکہ پیش کرتی ہے۔ یہ آیت درحقیقت ایک مربوط اور مرحلہ وار "سافٹ اسکلز اور لیڈرشپ مینوئل” کی حیثیت رکھتی ہے جس کی بنیاد اللہ کی رحمت اور محبت پر ہے۔ اس آیت کا ہر جملہ پچھلے جملے سے منطقی طور پر جڑا ہوا ہے اور ایک مکمل تربیتی نظام کو پیش کرتا ہے۔
یہ آیات سورہ آل عمران (آیت 159) سے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے اخلاق عظیمہ اور قیادت کے سنہری اصولوں پر مشتمل ہیں۔ ذیل میں ہر جملے کی وضاحت اور ان کے درمیان منطقی ربط پیش کیا جا رہا ہے۔
- فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّهِ لِنتَ لَهُمْ
"پس اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ آپ ان کے لیے نرم مزاج ہیں۔”
یہ جملہ پوری آیت کی بنیاد ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی وہ عظیم رحمت بیان کرتا ہے جو اس نے اپنے نبی ﷺ پر نازل فرمائی، یعنی آپ ﷺ کا نرم دل، شفیق اور رحمدل ہونا۔ یہ نرمی آپ ﷺ کی فطرت نہیں بلکہ اللہ کی خاص عنایت اور تربیت کا نتیجہ تھی۔ یہ وہ صفت ہے جس نے لوگوں کے دلوں کو آپ ﷺ کی طرف کھینچا۔
- وَلَوْ كُنتَ فَظّاً غَلِيظَ الْقَلْبِ لاَنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِكَ
"اور اگر آپ تندخو اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے گرد سے ضرور بھاگ کھڑے ہوتے۔”
یہ جملہ پہلے جملے کے برعکس ایک فرضی صورت حال (Hypothetical Situation) پیش کرتا ہے تاکہ نرمی کی اہمیت کو مزید اجاگر کیا جا سکے۔ منطقی طور پر یہ پہلی نعمت (نرمی) کی قدر و قیمت بتاتا ہے۔ اگر وہ نرمی نہ ہوتی تو نتیجہ بالکل الگ ہوتا: لوگ منتشر ہو جاتے، جماعت بکھر جاتی اور دعوتِ دین کا کام رک جاتا۔ یہ قیادت کے لیے ایک بنیادی سبق ہے۔
یہ پہلے جملے کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے ہے۔ "نرمی” کے فوائد کو سمجھانے کے بجائے، اس کے نہ ہونے کے نقصانات بتا کر اس کی اہمیت کو زیادہ موثر طریقے سے اجاگر کیا گیا ہے۔
- فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ
"سو آپ انہیں معاف کر دیا کریں اور ان کے لیے مغفرت کی دعا مانگا کریں۔”
اب اللہ تعالیٰ اپنے نبی ﷺ کو دو عملی ہدایات دے رہا ہے جو نرمی کے اس جوہر کو عملی شکل دیتی ہیں:
- عفو: ماضی میں ہونے والی کوتاہیوں، غلطیوں اور جذباتی reactions کو نظر انداز کرنا۔
- استغفار: ان کے مستقبل کے لیے اللہ سے بخشش اور رہنمائی کی دعا مانگنا۔
یہ قدم نرمی کو محرفیک جذبہ بنانے سے آگے بڑھ کر ایک فعال اور مثبت عمل میں بدل دیتا ہے۔
پہلے دو جملوں میں وصف (نرمی) بیان ہوئی۔ اب اس وصف پر عمل کرنے کے دو طریقے بتائے جا رہے ہیں۔ یعنی "نرم دل ہونا” صرف ایک احساس نہیں، بلکہ اس کا اظہار "معافی” اور "دعا” کے روپ میں ہونا چاہیے۔
- وَشَاوِرْهُمْ فِي الأَمْرِ
"اور (اے نبی!) کاموں میں ان سے مشورہ کیا کریں۔”
یہ ہدایت قیادت کا ایک اور اہم ستون ہے۔ نرمی اور درگزر کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنے ساتھیوں کو مشورے میں شامل کریں۔ اس سے لوگوں کے اندر احساسِ ذمہ داری، ان کی عزتِ نفس میں اضافہ اور اجتماعی عقل سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، چاہے آپ ﷺ خود وحی کے براہ راست مخاطب ہی کیوں نہ ہوں۔
یہ ایک اقدامی قدم ہے۔ معافی اور دعا کے ذریعے ماحول کو مثبت بنانے کے بعد، اب اس مثبت ماحول کو تعمیری کاموں میں استعمال کرنے کا حکم ہے۔ مشورہ دینے سے لوگوں کا آپ ﷺ کے "گرد” رہنا (جس کا ذکر پہلے جملے میں ہے) بامقصد ہو جاتا ہے۔
- فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّهِ
"پھر جب آپ (کسی کام کا) فیصلہ کر لیں تو اللہ پر بھروسہ رکھیں۔”
مشورہ اجتماعی عمل ہے، لیکن حتمی فیصلہ (عزم) قائد کا اپنا فرض ہے۔ یہ جملہ مشورے اور فیصلے کے درمیان توازن قائم کرتا ہے۔ مشورہ لینا ضروری ہے، لیکن ہر کسی کی رائے پر عمل کرنا نہیں۔ آخری فیصلہ کرنے کے بعد شک و تردد کو چھوڑ کر اللہ پر پورا بھروسہ (توکل) کرنا چاہیے۔
یہ مشورے کے عمل کو منطقی انجام تک پہنچاتا ہے۔ مشورہ → فیصلہ → توکل۔ یہ ایک مکمل Operational Cycle ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ مشورہ لینے کا مطلب بے عملی یا تذبذب نہیں ہے۔
- إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ
"بے شک اللہ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔”
یہ جملہ پچھلی ہدایت پر اللہ کی طرف سے ایک زبردست انعام اور تسلی ہے۔ جب ایک مومن اللہ پر توکل کرتا ہے تو وہ محض ایک حکم کی تعمیل ہی نہیں کرتا بلکہ اس عمل کے ذریعے اللہ کی محبت کا مستحق بن جاتا ہے۔
یہ پوری آیت کا حسنِ اختتام ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ ان تمام اعمال (نرمی، درگزر، دعا، مشورہ، توکل) کا ایک حتمی نتیجہ اور اجر ہے اور وہ ہے اللہ کی محبت حاصل کرنا، جو کہ ہر مومن کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔
اس آیت میں قیادت و تربیت کا ایک مربوط اور مرحلہ وار پروگرام پیش کیا گیا ہے:
- بنیاد: قائد کا اپنا Character نرم اور شفیق ہونا (*لِنتَ لَهُمْ*)۔
- خطرہ: اگر بنیاد غلط ہو (سختی) تو نتیجہ تباہ کن ہوگا (*لاَنفَضُّواْ*)۔
- عملی اقدام (اندرونی): ماضی اور مستقبل کے لیے درگزر اور دعا (*اعْفُ – اسْتَغْفِر*) سے تعلقات کو مضبوط بنانا۔
- عملی اقدام (اجتماعی): مضبوط تعلقات کو کام میں لاتے ہوئے لوگوں کو شاملِ مشورہ کرنا (*شَاوِرْ*)۔
- حتمی فیصلہ و عمل: مشورے کے بعد فیصلہ کرکے اللہ پر بھروسہ کرنا (*عَزَمْتَ – فَتَوَكَّلْ*)۔
- انعام: ان تمام steps پر عمل کرنے کا حتمی اجر اللہ کی محبت ہے (*يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ*)۔
یہ آیات ایک دوسرے سے اس طرح جڑی ہوئی ہیں کہ وہ ایک مکمل "سافٹ اسکلز اور لیڈرشپ مینوئل” کی حیثیت رکھتی ہیں، جس کی بنیاد رحمتِ الٰہی پر ہے۔
تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا واٹس ایپ چینل فالو کیجئے۔