اگست 2, 2025

تحریر: بشارت حسین زاہدی

اہلِ بیتؑ کی درخشاں تاریخ میں امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی شخصیت ایک ایسی شمع کی مانند ہے جس کی روشنی میں صبر، مصلحت، اور کرم کے ایسے انمول موتی بکھرے ہوئے ہیں جو رہتی دنیا تک انسانیت کی رہنمائی کرتے رہیں گے۔ آپؑ کی زندگی کے چند پہلو، جن میں آپؑ کی صلح، مظلومیت اور کریمِ اہل بیتؑ کا لقب نمایاں ہے، ہر دور کے مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔

ایک صلح جو فتح بنی

امام حسنؑ کی صلح کا واقعہ محض ایک سیاسی معاہدہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک الہٰی حکمت عملی کا حصہ تھا۔ 40 ہجری میں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام حسنؑ منصبِ خلافت پر فائز ہوئے۔ اس وقت امت ایک نازک دور سے گزر رہی تھی، جس میں خانہ جنگی اور انتشار اپنے عروج پر تھا۔ معاویہ کی فوجیں مسلسل دھمکیاں دے رہی تھیں اور داخلی سطح پر بعض افراد کی غداری کی وجہ سے امامؑ کی اپنی فوج میں بھی کمزوری پیدا ہو گئی تھی۔ ایسے حالات میں، اگر امامؑ جنگ جاری رکھتے تو اس کے نتیجے میں صرف مسلمانوں کا خون بہتا اور اسلام کی بنیادیں مزید کمزور ہوتیں۔
امامؑ نے یہ دیکھ کر کہ امت کا اتحاد اور دین کی بقا اس جنگ کو روکنے میں ہے، معاویہ کے ساتھ ایک صلح کا معاہدہ کیا۔ اس صلح کے نتیجے میں امت کو وقتی طور پر خونریزی سے نجات ملی اور اموی حکومت کی حقیقت بھی آہستہ آہستہ ظاہر ہونے لگی۔ امام حسینؑ کی کربلا کی تحریک کے لیے راستہ ہموار کرنے میں بھی اس صلح نے کلیدی کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ امام حسنؑ کی صلح کو تاریخ کے مؤرخین نے "صلحِ کبریٰ” اور "فتح” کے نام سے یاد کیا ہے۔

مظلومیت کی ایک نئی جہت

امام حسنؑ کی مظلومیت کسی میدانِ جنگ کی مظلومیت نہیں تھی، بلکہ یہ ایک ایسی مظلومیت تھی جو داخلی اور خارجی دباؤ کا نتیجہ تھی۔ آپؑ کو اپنے ہی کچھ ساتھیوں کی غداری کا سامنا کرنا پڑا، جنہوں نے آپؑ کو دھوکہ دیا۔ ایک موقع پر آپؑ پر حملہ بھی کیا گیا اور آپؑ کی چادر چھین لی گئی۔ اس سے بھی بڑھ کر، آپؑ کی سب سے بڑی مظلومیت وہ طعنے اور الزامات تھے جو آپؑ کو صلح کے بعد برداشت کرنا پڑے۔ تاریخ میں کچھ لوگوں نے آپؑ پر بزدلی کا الزام لگایا، جبکہ حقیقت یہ تھی کہ آپؑ نے اپنی امت کے خون کی حفاظت کے لیے ایک حکمت عملی اختیار کی تھی۔
آپؑ کی مظلومیت کا آخری اور سب سے دردناک پہلو آپؑ کی شہادت تھی۔ آپؑ کو زہر دے کر شہید کیا گیا، اور اس سے بھی بڑھ کر، جب آپؑ کے جنازے کو آپؑ کے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلو میں دفن کرنے کے لیے لے جایا جا رہا تھا تو اس پر تیر برسائے گئے۔ یہ واقعہ آپؑ کی مظلومیت کو انتہا تک پہنچا دیتا ہے۔

کریمِ اہل بیتؑ

امام حسنؑ کو "کریمِ اہل بیتؑ” کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپؑ کی سخاوتاور کرم کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ آپؑ نے اپنی زندگی میں دو مرتبہ اپنی تمام دولت اللہ کی راہ میں تقسیم کر دی اور تین مرتبہ اپنا آدھا مال صدقہ کر دیا۔ آپؑ کے دسترخوان پر امیر و غریب، دوست و دشمن، سب کے لیے جگہ ہوتی تھی۔ آپؑ نے کبھی کسی سائل کو خالی ہاتھ نہیں لوٹایا۔ یہاں تک کہ ایک بار آپؑ نے ایک شخص کو سوال کرنے سے پہلے ہی اس کی حاجت پوری کر دی، تاکہ اسے سوال کی ذلت نہ اٹھانی پڑے۔ آپؑ کے اس کریمانہ طرزِ عمل نے لوگوں کے دل جیت لیے اور آپؑ کی محبت ہر دل میں بس گئی۔
خلاصہ یہ کہ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی زندگی ایک مکمل نمونہ ہے جہاں صلح، صبر اور کرم کو حکمت اور دانائی کے ساتھ برتا گیا۔ آپؑ کی صلح نے امت کو بچایا، آپؑ کی مظلومیت نے حق کی قیمت کا احساس دلایا، اور آپؑ کے کرم نے اہل بیتؑ کی عظمت کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ آپؑ کی سیرت ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ حقیقی طاقت ہتھیاروں میں نہیں بلکہ صبر، حکمت اور کریمانہ اخلاق میں پنہاں ہوتی ہے۔

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا واٹس ایپ چینل فالو کیجئے۔

https://whatsapp.com/channel/0029VaAOn2QFXUuXepco722Q

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

three + four =