جولائی 31, 2025

تحریر: بشارت حسین زاہدی

ہر سال کی طرح اس سال بھی اربعین حسینی کے موقع پر پاکستان سے لاکھوں زائرین امام حسینؑ کے عشق میں سرشار ہو کر کربلا کا رخ کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا روحانی سفر ہے جو ہر مومن کی دلی خواہش ہوتی ہے اور جس کی فضیلت بے پناہ ہے۔ اربعین کا یہ پیدل سفر، جسے "مشی” کہا جاتا ہے، امام حسینؑ اور ان کے باوفا اصحاب کی لازوال قربانیوں کی یاد تازہ کرتا ہے اور دنیا بھر کے محبانِ اہل بیت کو ایک لڑی میں پرو دیتا ہے۔ زائرین مختلف ملکوں سے ہزاروں میل کا سفر طے کرکے نجف سے کربلا تک پیدل چلتے ہیں، راستے کی صعوبتوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں، اور اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار رہتے ہیں۔

زائر امام حسینؑ کی فضیلت احادیث میں بھی کثرت سے بیان ہوئی ہے۔ ائمہ معصومینؑ نے زائرین امام حسینؑ کے لیے جنت کی بشارتیں دی ہیں، گناہوں کی بخشش کا وعدہ کیا ہے، اور یہ فرمایا ہے کہ ان کی ہر قدم پر نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ یہ زیارت صرف ایک مذہبی فریضہ نہیں بلکہ ایک روحانی تجربہ ہے جو انسان کی روح کو پاکیزگی بخشتا ہے اور اسے اہل بیتؑ کی محبت سے مزید سرشار کرتا ہے۔

حکومتی پابندیاں: زائرین کی مشکلات اور حقوق کی پامالی

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس سال پاکستانی حکومت نے اربعین کے زائرین کے زمینی سفر پر پابندی عائد کر دی ہے، جس سے زائرین میں شدید تشویش اور بے چینی پائی جاتی ہے۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب زائرین نے اس مقدس سفر کے لیے اپنی تیاریاں مکمل کر لی تھیں، ٹکٹ خرید لیے تھے اور دیگر انتظامات پر خطیر رقم خرچ کر چکے تھے۔ یہ پابندی زائرین کے بنیادی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے اور ان کی مذہبی آزادی پر قدغن لگانے کے مترادف ہے۔

حکومت کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ پابندیاں سکیورٹی خدشات کی بنا پر عائد کی گئی ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا زائرین کو سکیورٹی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے؟ اگر حکومت بلوچستان میں امن و امان برقرار رکھنے میں ناکام ہے تو اس کا خمیازہ غریب اور پرجوش زائرین کیوں بھگتیں؟ یہ اقدام ایک طرح سے حکومت کی اپنی رٹ کی کمزوری کا اعتراف بھی ہے۔ شیعہ علماء کونسل پاکستان کے قائدین اور دیگر مذہبی رہنماؤں نے اس فیصلے کی شدید مذمت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ حکومت فوری طور پر اپنا فیصلہ واپس لے اور زمینی راستے کھولے۔ایک غیر آئینی اور غیر انسانی اقدام

پاکستان، ایران اور عراق میں ایسی کوئی جنگی صورتحال نہیں ہے کہ اس طرح کے بڑے اور غیر آئینی اقدامات کیے جائیں۔ اربعین جیسے مقدس سفر کو ایک بیان کے ذریعے روک دینا لاکھوں عوام سے زیادتی اور زائرین کو اربوں کا نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ خاص طور پر وہ غریب لوگ جو سال بھر کی کمائی جمع کر کے اس سفر کے منتظر ہوتے ہیں، ان کے لیے یہ ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ زائرین کو فول پروف سکیورٹی فراہم کرے یا متبادل راستوں پر سہولیات مہیا کرے۔ اگر حکومت سکیورٹی فراہم نہیں کر سکتی اور اپنی نااہلی تسلیم کرتی ہے تو پھر اسے زائرین کو مالی معاوضہ فراہم کرنا چاہیے یا ہوائی سفر کی مفت سہولت دینی چاہیے۔

قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی اور دیگر رہنماؤں نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ تفتان والا راستہ نہیں چھوڑیں گے، چاہے اس کے لیے کتنی ہی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ یہ زائرین کا حق ہے اور وہ اس کے حصول کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ حکومت سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اس اہم مسئلے پر فوری نظرثانی کرے اور اربعین کے مقدس سفر کے لیے زمینی راستوں سے جانے والے زائرین پر لگائی جانے والی پابندی کا فیصلہ واپس لے۔ یہ نہ صرف زائرین کے حقوق کا مسئلہ ہے بلکہ حکومت کے لیے اپنی ساکھ برقرار رکھنے کا بھی امتحان ہے۔

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا واٹس ایپ چینل فالو کیجئے۔

https://whatsapp.com/channel/0029VaAOn2QFXUuXepco722Q

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

twenty − seventeen =