جولائی 27, 2025

تحریر : بشارت حسین زاہدی

معاشرے کی ترقی اور تنزلی میں بے شمار عوامل کارفرما ہوتے ہیں، جن میں معاشی، سیاسی اور سماجی پہلو نمایاں ہیں۔ تاہم، ایک پہلو جو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، وہ روحانیت اور علماء کا کردار ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ دونوں عناصر کسی بھی قوم کے عروج و زوال میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ روحانی بالیدگی اور علماء کی صحیح رہنمائی ہی ایک معاشرے کو فلاح اور کامیابی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے، جبکہ ان کی کمی یا انحراف زوال کا پیش خیمہ بنتا ہے۔
روحانیت سے مراد صرف چند عبادات کی ادائیگی نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ سے گہرا تعلق، خود احتسابی، اخلاقی پاکیزگی، اور مخلوق خدا سے ہمدردی کا نام ہے۔ یہ وہ اندرونی قوت ہے جو افراد اور بالآخر پورے معاشرے کو نیکی، سچائی اور انصاف پر قائم رکھتی ہے۔
قرآن پاک بارہا اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ قوموں کی تقدیر ان کے اخلاقی اور روحانی احوال سے جڑی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ” (الرعد: 11)
 ترجمہ: "بیشک اللہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلیں۔”
>
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ کسی بھی معاشرے کی تبدیلی کا آغاز افراد کے اندر سے ہوتا ہے۔ جب افراد روحانی طور پر بیدار ہوتے ہیں، اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہیں، اور برائیوں سے اجتناب کرتے ہیں، تو یہ اجتماعی تبدیلی کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ اس کے برعکس، جب روحانیت رخصت ہو جاتی ہے، نفسانی خواہشات غالب آجاتی ہیں، اور اخلاقی گراوٹ عام ہو جاتی ہے، تو معاشرتی ڈھانچہ کمزور پڑ جاتا ہے اور زوال کا آغاز ہوتا ہے۔
حضور اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ روحانیت کی عملی تصویر ہے۔ آپ ﷺ نے صرف ظاہری عبادات ہی نہیں سکھائیں، بلکہ تزکیہ نفس اور اخلاق حسنہ کی تعلیم پر بھی زور دیا۔ آپ ﷺ نے ایسے صحابہ کرامؓ کی جماعت تیار کی جن کی روحانیت نے انہیں دنیا و آخرت میں کامیابی سے ہمکنار کیا۔ یہی روحانی قوت تھی جس نے انہیں ہر قسم کی مشکلات کا سامنا کرنے اور دنیا میں عدل و انصاف کا نظام قائم کرنے کے قابل بنایا
معاشرے میں روحانیت کو زندہ رکھنے اور اسے صحیح سمت دینے میں علماء کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ علماء انبیاء کرامؑ کے وارث ہیں اور ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اللہ کے کلام اور سنت نبوی ﷺ کی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچائیں۔
قرآن پاک نے علماء کی فضیلت اور اہمیت کو بیان کیا ہے:
"إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ” (فاطر: 28)
ترجمہ: "بیشک اللہ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔”
>
اس آیت میں "علم” سے مراد صرف ظاہری علم نہیں بلکہ وہ علم ہے جو خشیت الٰہی اور روحانی معرفت کا باعث بنے۔ ایسے ہی علماء معاشرے کے لیے مشعل راہ ثابت ہوتے ہیں۔
علماء کا کردار اس وقت مؤثر ہوتا ہے جب وہ:
 * ہدایت اور رہنمائی فراہم کریں: وہ لوگوں کو قرآن و سنت کی صحیح سمجھ دیں، حلال و حرام کی تمیز سکھائیں اور انہیں دنیاوی فتنوں سے بچائیں۔
عملی نمونہ بنیں: ان کا اپنا کردار، اخلاق، اور تقویٰ عامۃ الناس کے لیے ایک مثال ہو۔ جب علماء اپنے علم پر عمل کرتے ہیں، تو ان کی بات میں تاثیر پیدا ہوتی ہے۔
 * معاشرتی اصلاح کا بیڑا اٹھائیں: وہ صرف مساجد اور مدارس تک محدود نہ رہیں بلکہ معاشرے میں موجود برائیوں کے خلاف آواز اٹھائیں، عدل و انصاف کی بات کریں، اور مظلوموں کا ساتھ دیں۔
 * اتحاد بین المسلمین کو فروغ دیں: وہ فرقہ واریت اور انتہا پسندی سے گریز کرتے ہوئے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوشش کریں۔
 * سیاسی و سماجی شعور بیدار کریں: وہ لوگوں کو ان کے حقوق اور فرائض سے آگاہ کریں اور انہیں ذمہ دار شہری بننے کی ترغیب دیں۔
تاریخی تناظر میں اگر ہم مسلمانوں کے عروج کے ادوار کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس وقت علماء کا کردار انتہائی فعال اور مؤثر تھا۔ وہ نہ صرف دینی علوم کے ماہر تھے بلکہ انہیں دنیاوی علوم پر بھی دسترس حاصل تھی، اور وہ معاشرے کی قیادت کرتے تھے۔ جب علماء نے اپنا یہ کردار چھوڑ دیا یا وہ درباری بن گئے، تو معاشرتی زوال کا آغاز ہوا۔
معاشرے کا زوال اس وقت شروع ہوتا ہے جب روحانیت اپنی جگہ مادہ پرستی، حرص و ہوس، اور بے حیائی کو دے دیتی ہے۔ جب افراد اپنے خالق سے دور ہو جاتے ہیں، اخلاقی اقدار پامال ہوتی ہیں، اور اجتماعی مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے، تو قومیں اندرونی طور پر کھوکھلی ہو جاتی ہیں۔
اسی طرح، علماء کا انحراف یا نا اہلی بھی زوال کا ایک بڑا سبب بنتی ہے۔ جب علماء حقیقی علم سے دور ہو جاتے ہیں، یا وہ دنیاوی مفادات کے اسیر ہو جاتے ہیں، یا وہ تفرقہ بازی کا باعث بنتے ہیں، تو معاشرہ اپنی صحیح رہنمائی سے محروم ہو جاتا ہے۔ ایسے علماء معاشرے میں مزید انتشار اور گمراہی پھیلاتے ہیں، جس کے نتیجے میں قومیں اپنی منزل سے بھٹک جاتی ہیں.
قرآن و سنت کی روشنی میں یہ بات عیاں ہے کہ کسی بھی معاشرے کے عروج کا راز اس کی روحانی بالیدگی اور علماء کی مؤثر، سچی اور بے لوث رہنمائی میں پنہاں ہے۔ جب افراد روحانی طور پر مضبوط ہوں گے اور علماء حقیقی معنوں میں انبیاء کے وارث بن کر معاشرتی اصلاح کا فریضہ انجام دیں گے، تو کوئی بھی قوم ترقی اور فلاح کی راہ پر گامزن ہو سکتی ہے۔
اس کے برعکس، اگر روحانی اقدار پامال ہوں اور علماء اپنے اصل منصب سے ہٹ جائیں، تو معاشرہ نہ صرف اندرونی طور پر کمزور ہو گا بلکہ بیرونی چیلنجز کا سامنا کرنے کی صلاحیت بھی کھو دے گا، جس کا حتمی نتیجہ زوال ہو گا۔ آج کے پرفتن دور میں، جہاں مادی ترقی کو ہی سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے، روحانیت کو دوبارہ زندہ کرنا اور علماء کو اپنے حقیقی کردار کی طرف راغب کرنا وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں پائیدار ترقی اور دنیا و آخرت کی کامیابی سے ہمکنار کر سکتا ہے۔

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا واٹس ایپ چینل فالو کیجئے۔

https://whatsapp.com/channel/0029VaAOn2QFXUuXepco722Q

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

2 × 3 =