تحریر: عبد اللہ گل
10 محرم الحرام کی اسلامی تاریخ میں ایک ممتاز حیثیت ہے کیونکہ اس روز نواسہ رسول اللہﷺ نے شہادت پاکر اسے تاریخ کیلئے تاقیامت اَن مٹ کر دیا۔ حضرت امام حسین ؓ یزید کی ناجائز خلافت کو تسلیم کرکے خیانت کے مرتکب نہیں ہو سکتے تھے۔ آپؓ نے یزید کی بیعت سے انکار کرکے شہادتِ حق کو گلے لگایا۔ فاسق کی بیعت پر شہادت کو ترجیح دی اور قرآن پاک کی سورۃ الحشر میں بیان کی گئی تمام آزمائشوں سے خندہ پیشانی کے ساتھ گزرے۔ سانحۂ کربلا اس لحاظ سے بھی تاریخ میں بہت بڑا سانحہ ہے کہ کربلا کے مسافر خاندانِ نبوتﷺ کے چشم و چراغ تھے۔ اخلاقِ کریمانہ کے وارث اور انوارِ نبوت کے امین حضرت حسین ؓ نہ صرف صورت میں حضورﷺ سے مشابہ تھے بلکہ سیرتِ نبویﷺ کا عملی نمونہ اور علوم و معارف کا خزینہ تھے۔ اُن کے چہرۂ مبارک پر محمد رسول اللہﷺ کے بوسے ثبت تھے اور یہ جسم جسمِ اطہر کا ہی حصہ تھا‘ اس میں دوڑنے والا خون محمد کریمﷺ کا مبارک خون تھا۔ حضرت امام حسین ؓ کی شہادت ملوکیت اور جبر و استبداد کی قوتوں کے خلاف مظلوموں اور حق پرستوں کیلئے قیامت تک کیلئے روشن مثال ہے۔ کربلا کا معرکہ یاد دلاتا ہے کہ حق کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا جا سکتا۔ جذبۂ شبیری ایمان و یقین‘ سچائی اور اصول پرستی کی روایت کو جلا بخشتا ہے۔ واقعہ کربلا اسلام کے ابدی پیغام اور جذبہ قربانی کی آبیاری کا سرچشمہ ہے۔ اسوہ حسینؓ کا پیغام ہر قلبِ سلیم کیلئے ہے۔ اس معرکے میں امام حسینؓ کے ساتھ حق کی طاقت تھی‘ سچائی کی ڈھال تھی۔ آپؓ شجاعت و جرأت اور بہادری کے جذبے سے لیس میدانِ کربلا میں باطل کے سامنے سینہ سپر ہو کر کھڑے ہو گئے۔ بلاشبہ شہادتِ امام حسینؓ انسانیت کی فتح‘ اسلامی اصولوں کی سربلندی ہے۔ واقعہ کربلا سے ملنے والا درس ہر حق پسند کا سہارا ہے‘ ہر باطل کے مقابل صداقت کا استعارہ ہے‘ ہر آمر کے مقابل انصاف کی آواز ہے۔ شہادتِ حسین ؓ ہمیں امن کا پیغام دیتی ہے کیونکہ انہوں نے جس دین کو بچانے کیلئے قربانی دی وہ امن اور سلامتی کا دین ہے۔ اپنی جان اسلام کی راہ میں قربان کرکے امام حسینؓ نے شریعت کی حفاظت کی۔ اسلام کو تحفظ فراہم کیا۔
دنیا کی تاریخ میں یہ واقعہ اس اعتبار سے بھی اہم ہے کہ اس میں مٹھی بھر افراد نے حق پر قائم رہنے کیلئے باطل سے ٹکر لی اور اپنے جذبۂ صادق‘ پُرعزم استقامت‘ زبردست استقلال اور میدانِ کربلا میں شجاعت سے حق اور باطل کے فرق کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس طرح واضح کر دیا کہ اب کبھی کوئی باطل قوت حق کا لبادہ اوڑھ کر لوگوں کو فریب دینے میں کامیاب نہ ہو سکے گی۔ نواسۂ رسولﷺ نے باطل‘ جابر اور ظالم کے سامنے سر جھکانے کے بجائے سر کٹانے کی جو لازوال مثال قائم کی وہ قیامت تک کیلئے تاریخ میں امر ہو گئی۔ حضرت فاطمۃ الزہرہ ؓکے لعل نے اپنے لہو سے حق و باطل کے درمیان سچائی کی جو فیصلہ کن لکیر کھینچی اس نے یہ ثابت کر دیا کہ تاریخ میں وہی لوگ زندہ رہتے ہیں جو ظالم‘ باطل‘ آمر اور جابر قوتوں کے سامنے سر جھکانے کے بجائے سر کٹانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔کربلا حق و باطل کی جنگ کا ایک نمونہ ہے۔ حق و باطل کی لڑائی آج بھی جاری ہے‘ لہٰذا قربانی کے جذبے کو فروغ دینے کی ضرورت بدستور موجود ہے۔ ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ انتہا پسندی‘ عدم برداشت کے سدباب‘ اسلامی روایات کی پاسداری اور ملکی ترقی و خوشحالی کیلئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔
کربلا کے میدان میں حضرات امام حسین ؓ اور ان کے 72ساتھیوں نے یزیدی لشکر کے سامنے عزم و استقامت کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے بھوک‘ پیاس اور ظلم و جبر کا سامنا کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کیں لیکن باطل کے سامنے جھکنے سے انکار کیا۔ کربلا کا یہ پیغام انصاف اور انسانیت کا علمبردار ہے۔ کربلا کی جنگ مذہبی اور اخلاقی تعلیمات کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ حضرت امام حسین ؓ کی قربانی ہمیں ایمان‘ صبر‘ اور اخلاقی قوت کی تعلیم دیتی ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ایک مسلمان کا ایمان صرف نماز ‘ روزے تک محدود نہیں بلکہ اس کے اعمال اور کردار میں بھی ظاہر ہونا چاہیے۔ حضرت امام حسینؓ نے اپنی جان کی قربانی دے کر ہمیں سکھایا کہ ظلم کے سامنے خاموش رہنا اور اس کے خلاف آواز بلند نہ کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ آج کے دور میں بھی‘ جب ہمیں ظالم حکومتوں‘ استحصال اور ناانصافی کا سامنا ہے‘ ہمیں کربلا کے پیغام کو یاد رکھنا چاہیے اور حق کیلئے کھڑے ہونا چاہیے۔ کربلا کا واقعہ انسانی حقوق اور عزتِ نفس کی حفاظت کا درس دیتا ہے۔ حضرت امام حسین ؓ نے ہمیں سکھایا کہ ہر انسان کی عزت و وقار کی حفاظت کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ہمیں ہر قسم کی ناانصافی اور ظلم کے خلاف کھڑے ہونا چاہیے اور مظلوموں کی مدد کرنی چاہیے۔
آج کے دور میں کربلا کی تعلیمات کو اپنانا انتہائی ضروری ہے۔ کربلا کا پیغام ہمیں سماجی انصاف‘ حقوقِ انسانی اور مظلوموں کی حمایت جیسے مسائل پر ایک راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ ہمیں اپنے معاشرتی ڈھانچے کی بنیاد عدل و انصاف کو بنانا چاہیے اور ہر قسم کی ناانصافی کے خلاف کھڑے ہونا چاہیے۔ کربلا کا پیغام مذہبی ہم آہنگی اور اتحاد کا علمبردار ہے۔ حضرت امام حسین ؓ نے اپنی شہادت سے یہ واضح کیا کہ اسلام کا پیغام محبت‘ امن اور اتحاد ہے۔ ہمیں مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینا چاہیے اور فرقہ واریت کے خلاف کھڑے ہونا چاہیے۔ کربلا کا واقعہ ہمیں اخلاقیات کا درس بھی دیتا ہے۔ حضرت امام حسینؓنے اپنے اعمال اور کردار سے یہ واضح کیا کہ ایک حقیقی لیڈر وہ ہوتا ہے جو انصاف‘ صداقت اور اخلاقی قوت کے ساتھ عوام کی قیادت کرتا ہے۔ ہماری قیادت کو یہی اصول اپنانے چاہئیں۔ واقعہ کربلا اور حضرت امام حسینؓ کی قربانی ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ واقعہ کربلا ہمیں حق و انصاف‘ قربانی‘ صبر اور اخلاقی قوت کا پیغام دیتا ہے جسے ہمیں اپنی عملی زندگیوں میں اپنانا چاہیے تاکہ ہم ایک بہتر اور عادل معاشرہ قائم کر سکیں۔ افسوس! آج اس پیغام کو امت مسلمہ نے پس پشت ڈال دیا ہے۔ ہم فقط یوم عاشور کے موقع پر حضرت امام حسینؓ کی عظیم قربانی کو یاد کرکے اور اس کا ذکر کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ حق ادا ہو گیا جبکہ ‘حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا‘۔ حضرت امام حسینؓ اور ان کے عظیم رفقا کی قربانیوں کو سارا سال یاد رکھنا اور ان کے پیغام کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔ واقعہ کربلا ہمیں ظالم کے خلاف کھڑا ہونے کا پیغام دیتا ہے لیکن اس وقت جبکہ فلسطین میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے‘ کشمیریوں پر ظلم و بربریت جاری ہے اور ایران بھی صہیونی جارحیت کا شکار ہو چکا ہے تو مسلم امہ خاموشی کی چادر اوڑھ کر سو رہی ہے۔ فلسطین اور کشمیر کے عوام ہماری طرف دیکھ رہے ہیں مگر افسوس کہ ہم پیغامِ کربلا کو سمجھ نہیں سکے۔ بروز قیامت ہم اس سوال سے کیونکر بچ پائیں گے کہ جب فلسطین میں ایک کربلا بپا تھی تو تم کہاں تھے؟
معرکۂ کربلا مسلمانانِ عالم کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے کہ کس طرح امام عالی مقامؓ نے تنہا اور نہتے ہو کر بھی باطل قوتوں کے لاؤ لشکر کا مقابلہ کیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں یوم عاشور کے اصل پیغام ‘قربانی کے جذبے کو اپنی زندگیوں میں شامل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! ”گرد میں صدیوں کے دب جائیں گے سارے واقعات /روشنی دیتا رہے گا کاروانِ کربلا‘‘
تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا واٹس ایپ چینل فالو کیجئے۔