دسمبر 21, 2024

اہل بیت علیہم السلام کی مدح سرائی تشیع کی میراث ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای

سیاسیات-رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حضرت فاطمہ زہرا (س) کے یوم ولادت کے موقع پر حسینیہ امام خمینی میں شعراء، مداحوں اور ذاکرین اہل بیت علیہم السلام کے ایک گروپ سے ملاقات کی۔

رہبر معظم نے حاضرین سے اپنے خطاب کے آغاز میں فرمایا کہ اہل بیت علیہم السلام کی مدح سرائی شیعہ کی میراث ہے اور آج کی مدح سرائی اور ذاکری ایک ترکیبی فن ہے جو اچھی آواز، اچھی شاعری، موزوں طرز اور عمدہ مواد کے امتزاج سے تخلیق کیا جاتا ہے اور دیگر گراں بہا مذہبی متون کی طرح اس کے تمام عناصر بھی خوبصورت ہونے چاہئیں۔

انہوں نے مفاہیم و تصورات کو منتقل کرنے میں موزوں طرز کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بعض طرزیں جو گناہ آلود گانوں کے متناسب ہوتی ہیں وہ مداحی ﴿نوحہ و منقبت﴾ کے لیے موزوں نہیں ہیں اور مداحی کو ان کے ساتھ نہیں ملانا چاہیے۔

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے معاشرے کی فکری ترقی کو مداحی کے فرائض میں سے ایک قرار دیا اور فرمایا مداحی میں علم و معرفت کے علاوہ احساسات و جذبات کا برانگیختہ ہونا بھی پایا جاتا ہے۔ البتہ بغیر تعقل کے احساسات مفید نہیں ہیں تاہم شیعہ  متون اور لٹریچر میں علم آموزی کی بے مثال خصوصیت یہ ہے کہ جذبات کے ساتھ ساتھ سامعین کی علمی گہرائی میں بھی اضافہ کرتا ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب کی فتح اور فتح کے بعد اس کی حفاظت دونوں میں شاعروں اور مداحوں کے کردار کو سراہا۔

انہوں نے ملک کے حساس معرکوں من جملہ دفاع مقدس، نوجوانوں کو محاذوں پر جانے، ملک کے لیے قربانی دینے کی ترغیب دلانے اور اسی طرح دیگر مختلف معاملات میں مداحوں کے شاندار کردار کا ذکر کیا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ آپ ایک مداح کے طور پر کہاں کھڑے ہیں۔ آپ کو چاہئے کہ مداحی کے عظیم اور پرکشش مظہر کے ذریعے انقلاب کی خدمت میں یعنی ملک کی جدید ارتقائی تبدیلی اور ’’ظالم، جابر، استکبار اور فساد و بدعنوانی کے خلاف جدوجہد‘‘ کی فضا کو وسعت دینے میں اپنا کردار ادا کریں۔

رہبر انقلاب نے ثقافت کی تعمیر کو مداحوں کے دیگر اہم فرائض میں سے ایک قرار دیا اور فرمایا کہ نوجوانوں کے ذہن میں “دشمن کے مقابلے میں ثابت قدمی یا اس کے خلاف حملہ”، “سائنسی ترقی”، “خاندان اور اولاد پیدا کرنا”، “بصیرت اور امید پیدا کرنا” اور “دشمن کے مذموم ہتھکنڈوں کے سامنے استقامت” ان جملہ تصورات میں سے ہیں جو ثقافت سازی کے محتاج ہیں اور ان کے سلسلے میں سامعین کی فکری و عملی رہنمائی کی ضرورت ہے۔

ان کرداروں کو انجام دینے کے لیے ضروری شرائط بیان کرنے کے بعد انھوں نے کہا کہ پہلی شرط یہ ہے کہ مداحی ﴿نوحہ منقبت خوانی﴾ کے کام میں لوگوں کی رہنمائی کی فکر ہو اور مال، شہرت اور سماجی مقام و حیثیت سے دوری اختیار کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مداح کے بہتر کردار ادا کرنے کے لیے ایک اور شرط معرفت حاصل کرنا ہے۔ لہذا آپ لوگ اخلاقیات، حدیث، تفسیر اور شہید مطہری جیسے عظیم لوگوں کے کتابیں کا مطالعہ کر کے اپنی معرفتی بنیادوں کو مضبوط کریں۔

آیت اللہ خامنہ ای نے اہم عالمی واقعات سے باخبر رہنے کو موثر مداحی کے لیے ایک اور شرط قرار دیا اور فرمایا کہ دنیا بنیادی لیکن تدریجی تبدیلیوں سے گزر رہی ہے اور ہم ایک اہم تاریخی موڑ کا سامنا کر رہے ہیں یا اس کے اندر موجود ہیں لہذا مطالعہ کے ذریعے دنیا اور ملک میں رونما ہونے والی ان تبدیلیوں سے آگاہی حاصل کریں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس کے بعد ایران کے حالیہ واقعات میں دشمن کے منصوبوں، حساب و کتاب اور اندازوں کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ان حالات میں دشمن کا منصوبہ جامع تھا لیکن اس کا حساب و کتاب اور اندازے غلط تھے۔

انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ دشمن نے ملک کو تباہ و برباد کرنے کے لیے تمام ضروری عوامل کو استعمال کیا، ان عوامل کا شمار کرتے ہوئے کہا کہ ایک اقتصادی عنصر تھا کیونکہ ملک کی اقتصادی صورت حال اچھی نہیں تھی اور نہ ہی اچھی ہے۔ لہذا لوگوں کے معاش کا مسئلہ ان عوام میں سے ایک تھا جسے استعمال کیا گیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ اس کے علاوہ سیکورٹی کا عنصر، جاسوسی ٹیموں کی دراندازی، مختلف پروپیگنڈہ طریقوں سے دنیا میں استکباری ایرانو فوبیا کا ہنگامہ، بعض اندرونی عناصر کو اپنا ہمنوا بنالینا، نسلی، مذہبی، سیاسی اور ذاتی محرکات کو بھڑکانا اور وسیع پروپیگنڈہ اور تشہیراتی مہمیں  دیگر عوامل میں سے ہیں جنہیں انہوں نے مہینوں پہلے فعال کردیا تھا۔

آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ ایک مبصر کی حیثیت سے میں نے اپنے دل میں دشمن کی اچھی انجینئرنگ کو “آفرین” کہا، کیونکہ اس نے ہر چیز کو اس کی جگہ اور نپا تلا فراہم کیا تھا تاہم اس منصوبے کے باوجود جو دوسرے کچھ ملکوں میں موثر بھی ہے، وہ کامیاب نہیں ہوئے کیونکہ ان کا حساب و کتاب اور اندازے غلط تھے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دشمن کے غلط حساب کتاب کی مثالیں بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان کا خیال تھا کہ ایرانی قوم اقتصادی مسائل کی وجہ سے ان کی بغاوت اور علیحدگی کے منصوبے کی حمایت کرے گی۔ ان کا خیال تھا کہ گالم گلوچ، دریدہ زبانی اور طرح طرح کی اہانتوں کے ذریعے ملکی حکام کو منفعل اور میدان سے باہر کر سکتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ وسوسوں کے ذریعے اور شور و غوغا کر کے ملک کے اعلیٰ حکام کے درمیان اختلاف کا باعث بن سکتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ فلاں امریکی آلہ کار ملک کے تیل کے ڈالروں سے اسلامی جمہوریہ کے عزم و ارادے پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ چند خود فروختہ عناصر کو دوسرے ملک میں پناہ دینے اور ایران کے خلاف کیچڑ اچھالنے کی ترغیب دینے سے ہمارے نوجوان مایوس ہو جائیں گے جبکہ ان سے غلطی ہوئی اور کسی نے ان پر توجہ نہیں دی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے غلطی کی کیونکہ اسلامی جمہوریہ کا ارادہ اور عزم ان کی طاقت کے تمام عوامل سے زیادہ مضبوط اور مستحکم تھا۔

آیت اللہ خامنہ ای نے مزید کہا کہ وہ 40 سال سے اسلامی جمہوریہ کے خلاف ہر طرح سے کوشش کر رہے ہیں لیکن چونکہ ان کا حساب کتاب اور اندازے غلط تھے اور ہیں، اب تک ناکام رہے ہیں اور آئندہ بھی شکست کھائیں گے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دشمن کا غلط حساب کتاب اور اندازوں کی غلطیاں ہماری غفلت کا سبب نہ بنیں اور کہا کہ ہمیں بھی ہوشیار رہنا ہوگا، ایسا نہ ہو کہ ہماری غفلت اور غرور کا شکار ہوجائیں اور کہیں کہ معاملات نمٹ گئے۔ ہمیں میدان میں رہنا ہوگا اور ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ قوم کے تحفظ کے عوامل امید اور قومی اتحاد ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ملک میں مختلف سلیقے اور نظریات پائے جاتے ہیں لیکن اسلام، نظام اور انقلاب کے بارے میں عوام کا اتفاق ہے۔ لہذا ہمیں چاہئے کہ اس اتحاد کو ضائع نہ ہونے دیں۔ نسلی اور مذہبی اختلافات کو ہوا نہ دیں اور ایک گروہ کے جذبات کو دوسرے گروہ کے خلاف بھڑکانے میں مدد نہ کریں۔

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جو بھی قوم کے اتحاد کو نقصان پہنچاتا ہے اس نے دشمن کے لیے اور اس کے گراونڈ اور  منصوبوں پر کام کیا ہے۔ اہل منبر، مبلغین، ماہرین تعلیم، ادیبوں، مصنفین اور شاعروں کے طبقات سمیت ہر کسی کو اس مسئلے کی طرف توجہ دینی چاہیے اور دشمن کو کم نہ سمجھیں۔

آیت اللہ خامنہ ای نے مضبوط بننے کو دشمن کے حوصلے پست کرنے کا بنیادی عنصر قرار دیا اور فرمایا کہ جب ہم اتنے مضبوط ہو جائیں کہ دشمن مایوس ہو جائے تو ذہنی آسودگی اور سکون حاصل کیا سکتا ہے۔ ایران کی مضبوطی پر بار بار تاکید کی وجہ یہی مسئلہ ہے۔

رہبر معظم انقلاب نے اہم مفاہیم و تصورات کی ترویج کے لیے ترانوں کی مداحی کے ساتھ آمیزش کو قابل تحسین قرار دیا اور کہا کہ ملک کی سرحدوں سے باہر انقلاب کی امنگیں روز بروز مزید بڑھتی جا رہی ہیں جس کی ایک مثال سلام فرماندہ ترانے کا دوسرے ملکوں میں پھیلانا اور مختلف زبانوں حتیٰ کہ فارسی میں بھی اسے پیش کیا جانا تھا جو ہمارے ملک کے اقتدار و قوت میں مدد کرسکتا ہے۔

در ایں اثنا اجلاس کے آغاز میں آٹھ مداحوں اور شعراء نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے فضائل اور مدح میں اشعار بھی سنائے۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

2 × three =