جولائی 13, 2025

تحریر: علی سردار سراج 

کامیابی اور پیروزی بشر کی کوششوں کا مطلوب ذاتی ہے۔

انسان کامیابی کی سوچ سے ہی لطف اندوز ہوتا ہے اور ناکامی کے اندیشے سے ہی مضطرب ہو جاتا ہے۔

جس طرح ایک فرد اپنی زندگی میں کامیاب یا ناکام ہوتا ہے اسی طرح ایک قوم کی بھی کامیابی اور ناکامی ہوتی ہے۔

ایک فرد کی کامیابی اور ناکامی ممكن ہے اس کی محتضر زندگی تک محدود ہو لیکن ایک قوم کی کامیابی اور ناکامی، اس قوم کی تاریخ کہلاتی ہے، جو اس قوم کا پیچھا کرتی ہے۔

کامیابی اور ناکامی کے اپنے عوامل ہیں جن سے یہاں بحث کرنا مقصود نہیں ہے۔

ہم مسلمان اس بات پر اعتقاد رکھتے ہیں کہ کامیابی کا دارومدار مدار اللہ تعالٰی کی اطاعت اور بندگی میں ہے۔

اللہ تعالٰی حق ہے اور اس کی دعوت حق کی طرف ہے، جو بھی حق سے ٹکرائے گا ناکامی اس کا مقدر ہے۔

جیسا کہ أمير المؤمنين علیہ السّلام کا فرمان ہے۔

مَنْ صَارَعَ الْحَقَّ صَرَعَهٗ.( نہج البلاغہ، حکمت 408)

جو حق سے ٹکرائے گا حق اسے پچھاڑ دے گا۔

تمام مسلمانوں کے ہاں متفق علیہ حدیث( حدیث ثقلین ) کے مطابق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے اپنے بعد قرآن و اہل بیت علیهم السلام سے تمسک اور پیروی کا حکم دیا ہے، اور اللہ تعالی نے مودت و محبت اہل القربی ( اہل بیت علیہم السلام ) کو واجب کیا ہے اور اسے رسالت کا اجر قرار دیا ہے ۔

محبت و مودت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے محبوب کی خوشی میں خوشی اور غم میں، غم منائے۔

مکتب اہل بیت علیهم السلام کے پیروکار قرآن کریم کے حکم پر عمل کرتے ہوئے جہاں اہل بیت علیهم السلام کی پیروی کرتے ہیں وہاں ان کی خوشی میں خوشی اور غم میں غم مناتے ہیں۔

تمام اہل بیت علیهم السلام مظلوم واقع ہوئے ہیں، لیکن امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت بے نظیر ہے لہذا ان کا غم بھی منفرد ہے، ہم پیروان اہل بیت علیهم السلام محرم و صفر کو ماتم و عزا میں گزارتے ہیں کیونکہ یہ امام حسین علیہ السلام اور ان کے اہل بیت و انصار کی شہادت اور مخدرات عصمت و طهارت کے اسیری کے أيام ہیں۔

مدینہ سے امام حسین کی قیادت میں جو قافلہ نکلا تھا وہ حضرت زینب کی قیادت میں مدینہ لوٹ آیا لیکن یہ قافلہ ایک لٹا ہوا قافلہ تھا جس کی تصویر کشی حضرت ام کلثوم نے ایک قصیدے میں کی ہے جس کا آغاز یوں ہے۔

مدينة جدنا لا تقبلينا

اے ہمارے نانا کا مدینہ ہمیں قبول نہ کرنا۔

فبالحسرات و الاحزان جئنا

ہم حسرتوں اور غموں کے ساتھ لوٹ آئیے ہیں۔

 

خرجنا منك بالاهلين جمعاً

ہم جب آپ سے جدا ہوئے تو پورا کنبہ تھا۔

رجعنا لا رجال و لا بنينا۔

لیکن جب واپس لوٹے ہیں تو نہ ہمارے مرد بچے نہ بیٹے۔

جی ہاں امام حسین علیہ السلام کا بھرا گھر تباہ ہوگیا۔

یزید نے اپنی کامیابی اور فتح کا جشن منایا، اور بڑے فخریہ انداز میں کہا کہ: اے کاش بدر میں مارے جانے والے میرے بڑے ہوتے تو مجھ داد و تحسین دیتے میں نے ان کا بدلہ لیا۔

لیکن وہ اس بات کو نہیں سمجھتا تھا کہ اس کی خوشی ناپایدار ہے ، اس کی پیروزی و فتح حقیقی پیروزی نہیں ہے کیونکہ اس نے حق کے ساتھ ٹکر لیا ہے۔

لہذا اسی مجلس میں حضرت زینب بنت علي علیھما السلام نے یزید بن معاویہ سے مخاطب ہوکر فرمایا:

 

«فَکِد کَیْدک وَاسْعَ سَعْیک و ناصِبْ جُهْدَک فوالله لا تمحُو ذکرنا و لا تُمیتُ وَحْیَنا»

اپنی تمام چالیں چلو، اپنی پوری طاقت لگا دو، اور اپنی ساری کوششیں کر ڈالو،

اللہ کی قسم! تم ہمارے ذکر کو مٹا نہیں سکتے، اور نہ ہی ہمارے پیغامِ حق کو ختم کر سکو گے۔

زمانے نے دیکھ لیا کہ یزید مٹ گیا اور امام حسین معشوق عالم بن گیا۔

آج بھی کچھ نادان لوگ یہی سوچتے ہیں کہ وہ اس چراغ کو بجھائیں گے، وہ عزاداری امام حسین علیہ السلام، یہاں تک سبیل امام حسین علیہ السلام پر پابندی لگوا کر جلوس کے راستوں میں رکاوٹ ایجاد کرکے اپنی فتح و پیروزی کا اعلان کرتے ہیں، وہ نہیں سمجھتے ہیں کہ جس طرح آج ہر کوئی یزید سے اظہار براءت کرتا ہے اسی طرح آئندہ ان کی نسلیں بھی اپنے بڑوں کے افعال پر پشیمانی اور شرمساری کے ساتھ سر چھپاتی پھریں گی۔

لہذا بہتر ہے کہ اہل بیت علیهم السلام، جو نجات کی کشتی ہیں ان کے دامن کو تھام لیں ،اگر ان کے غم میں غم نہیں منا سکتے ہو تو کم از کم عزاداری اور عزاداروں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی نہ کریں۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

eleven − six =