جون 7, 2025

سیاسیات- امریکی تھنک ٹینک کا اپنی ایک رپورٹ میں کہنا ہےکہ امریکہ اگر پاکستان کے جغرافیائی مفادات کو تسلیم کر لے تو دونوں ممالک حقیقت پسندانہ شراکت داری قائم کرسکتے ہیں۔

امریکی تھنک ٹینک ہڈسن انسٹی ٹیوٹ نے ماہرین کی آرا پر مشتمل ایک پالیسی رپورٹ تیار کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ امریکی رابطے برقرار رکھنا کیوں اور کتنے ضروری ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دوسرے دورِ صدارت میں زیادہ حقیقت پسندانہ خارجہ پالیسی اپنانے کا اشارہ دیا، ایک ایسی پالیسی جو اُن ممالک کے ساتھ بھی تعلقات برقرار رکھے جن کے نظریات اُن سے مختلف ہیں۔

ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے مطابق پاک امریکہ تعلقات میں بہتری ممکن ہے بشرط یہ کہ دونوں ممالک نظریاتی اختلافات کے بجائے مشترکہ مفادات پر توجہ دیں۔ امریکی حلقے پاکستان پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ امریکی امداد تو لیتا ہے مگر بھارت اور افغانستان کے حوالے سے امریکی ترجیحات کو نظرانداز کرتا ہے جبکہ پاکستان کو شکایت ہے کہ واشنگٹن اس کے علاقائی مفادات کو نظرانداز کر کے غیر مشروط حمایت مانگتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق سابق امریکی حکومتوں کے برعکس ٹرمپ انتظامیہ نے تسلیم کیا ہے کہ کسی ملک کی جغرافیائی حیثیت اس کی اسٹریٹیجک حکمت عملی پر اثر ڈالتی ہے اور پاکستان اپنی سکیورٹی کے تناظر میں بھارت اور افغانستان کو اہم سمجھتا ہے، اس لیے ہڈسن انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق اُس کا نقطہ نظر واشنگٹن سے مختلف ہو سکتا ہے۔

امریکی تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ امریکہ اگر پاکستان کے جغرافیائی مفادات کو تسلیم کر لے تو دونوں ممالک حقیقت پسندانہ شراکت داری قائم کر سکتے ہیں، اس سے امریکہ کو پاکستان میں جمہوری اقدار کے فروغ اور دہشت گردی کے خلاف جواب طلبی میں مدد ملے گی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان دیگر ایشیائی ممالک کی طرح امریکہ اور چین کے تنازع میں غیرجانبدار رہنا چاہتا ہے پھر بھی کاروباری اور فوجی حلقے امریکہ کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں۔

اس لیے ہڈسن رپورٹ کی رائے میں واشنگٹن اور اسلام آباد باہمی دلچسپی کے معاملات میں حقیقت پسندانہ شراکت داری کی بنیاد رکھیں، مثلاً انسداد دہشت گردی جیسے شعبوں میں دونوں کے مفادات مشترک ہیں اور اگرچہ بھارت پر دونوں کا مؤقف مختلف ہے پھر بھی پاک بھارت کشیدگی کسی کے مفاد میں نہیں۔

رپورٹ کے مطابق امریکہ اور پاکستان کا چین پر بھی نقطۂ نظر مختلف ہے لیکن واشنگٹن کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسلام آباد کو بیجنگ پر حد سے زیادہ انحصار کرنے سے روکے، امریکہ کو چاہیے کہ وہ پاکستان پر اثرانداز ہونے کے لیے امداد یا سرزنش کے بجائے تجارتی اور سماجی ذرائع استعمال کرے جبکہ پاکستان کو بھی ماننا چاہیے کہ وہ اگرچہ خطے میں امریکہ کا سب سے اہم اتحادی نہیں رہا لیکن پھر بھی ایک اہم شراکت دار بن سکتا ہے۔

امریکی تھنک کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاک بھارت جنگ کے دوران دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے آئیں جس کے بعد امریکہ نے مداخلت کی اور انھیں جنگ بندی پر مجبور کیا۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

one × 2 =