تحریر: قادر خان یوسفزئی
جب کوئی قوم زندگی اور حرارت سے محروم ہوجاتی ہے تو اس کے ہاں، اس کے نظریات اور معتقدات کے الفاظ تو باقی رہ جاتے ہیں لیکن ان کا واضح اور متعین مفہوم کسی کے ذہن میں نہیں ہوتا، وہ قوم بے سمت راہوں پر چلتے ہوئے اپنے رہبروں کے الفاظ کی پرستش کرتی اور ان کی بیانیہ کو سینے سے لگائے لگائے پھرتی ہے اور یہ سمجھتی ہے کہ یہ بہت بڑے ثواب کا کام اور قوم کی خدمت کر رہے ہیں، ان لیڈروں کے الفاظ اور جماعت کے بیانیہ کی حفاظت کی اجارہ دار بننے کے لئے خصوصی گروہ پیدا ہو جاتا ہے اور وہ عوام میں اس خیال کو پختہ سے پختہ تر کرتا رہتا ہے کہ مقصود زندگی انہیں الفاظ کا تحفظ اور نصب العین حیات انہی بے جان پیکروں کا استحکام ہے، وہ انہیں اس قدر مقدس بنا کر دکھاتا ہے کہ عوام بے چارے اپنی خوش فہمی میں اپنا سب کچھ قربان کر دینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں اور کسی امر پر غور و فکر اور تحقیق و تفتیش کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔
مشہور مغربی مفکر وہائٹ ہیڈ کا قول ہے کہ جن باتوں کو کوئی قوم مسلمات یا بدیہیات میں شمار کرلے، ان پر غور و فکر کرنے کے لئے ایک عظیم ذہن کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس کہیں زیادہ مشکل اور ہوتی ہے اگر کوئی شخص ان امور کے متعلق غور و فکر کی کوشش کرتا ہے تو وہ طبقہ جس کے مفاد اسی میں مضمر ہوتے ہیں کہ قوم ان باتوں کو بطور مسلمات تسلیم کرتی جائے۔کوئی سیاسی اعتقاد اور سیاسی رجحان کسی بھی سیاسی جماعت کی بقا اور ترقی کے لیے اولین مسائل ہوتے ہیں جن کا اثر کسی سیاسی جماعت کے مستقبل و تقدیر اور اس کے مقصد کی کامیابی یا ناکامی پر ہوتا ہے اور یہ کسی بھی سیاسی تعمیر کو مضبوط بنانے کا منطقی نقطہ آغاز ہے نظریاتی سوچ کے بغیر ایک قوم سائنس کی بلند ترین چوٹی پر کھڑی نہیں ہوسکتی ہے اسی طرح نظریاتی سوچ کے بغیر کوئی قوم تہذیب اور سماجی ترقی میں سب سے آگے نہیں رہ سکتی۔ اس سے ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ معروضی دنیا کو سمجھنا اور تبدیل کرنا نظریاتی سوچ کے بغیر ممکن نہیں، صرف نظریاتی طور پر سنجیدہ ہونے سے ہی ہم سیاسی طور پر مضبوط ہو سکتے ہیں۔
نظریاتی ہتھیاروں کو لاگو کرنے اور مضبوط کرنے کے لئے، نظریہ کو رہنمائی کی مشق کے ساتھ یکجا کرنے میں جاری رکھنا ضروری ہے۔ معروضی دنیا کو بدلنے اور موضوعی دنیا کو تبدیل کرنے کے اتحاد پر قائم رہنا چاہئے۔سیاسی کاشت کاری کے نچلے درجے کے تقاضے بھی ہیں۔ کارکن کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ کہاں ہیں یا وہ کس عہدے پر ہیں، انہیں اپنی سیاسی جماعت کی روح اور سیاسی بیداری کو مضبوط اور امتحان کا سامنا کرنا ہوگا، پارٹی اور عوام کی فطرت ہمیشہ مستقل اور متحد ہونا ضروری اور اس کا تعین پارٹی کی نوعیت اور مقصد سے ہوتا ہے اور پارٹی کے بنیادی کاموں اور اہداف کے ساتھ متحد ہوتا ہے۔ عوام کی فطرت کو برقرار رکھنے کے لئے، عوام کے لئے، پارٹی کی تعمیر، عوام کے لئے حکمرانی، اور عوام کو سب سے پہلے رکھنے کا منشور ہونا چاہئے۔جیسا کہ کہا جاتا ہے، ”اگر آپ بہت کچھ جیت جاتے ہیں، تو آپ ملک کو حاصل کریں گے، اور اگر آپ لوگوں کو کھو دیں گے، تو آپ ملک کو کھو دیں گے” عوام کی مرضی سب سے بڑی سیاست ہے۔ پارٹی کی سیاسی تعمیر کو مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہے کہ عوام کی مرضی کی طاقت کو سمجھا جائے جو کہ سب سے بڑی سیاست ہے اور عوام کی مرضی کو جیتنے اور عوام کی دانش مندی اور طاقت کو یکجا کرنے کو ایک اہم نکتہ توجہ کے طور پر لیا جانا چاہیے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کے نقطہ نظر پر مضبوطی سے کھڑے ہوں، عوام کے ساتھ مل کر کام کریں، غیر سیاسی رویوں کی مخالفت کریں، خاص طور پر رسمی اور بیوروکریٹ ازم کی سختی سے مخالفت کریں، اور ہمیشہ ملک و قوم کو مقدم رکھتے ہوئے گوشت اور خون کے رشتے کی طرح برقرار رکھیں۔ عوام کا موقف پارٹی کا بنیادی سیاسی موقف ہونا چاہے۔ نئے دور میں آگے بڑھنے کے سفر میں عوام کو مرکز کے طور پر لینے پر ثابت قدم رہنا چاہئے، عوام کے سب سے زیادہ براہ راست اور حقیقت پسندانہ مفادات کو مضبوطی سے سمجھنا چاہئے، جن چیزوں کے بارے میں عوام سب سے زیادہ فکر مند ہیں انہیں اپنا اہم معاملہ سمجھنا چاہئے، مسائل کے بارے میں سوچتے وقت عوام کے مفادات سے آگے بڑھنا چاہئے، فیصلے کرنا اور کام کرنا، پارٹی کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو عوام کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ متحد کرنا چاہئے۔
یہ جو آپ کو تاریخ کے صفحات پر جا بجا انسانی خون کے چھینٹے دکھائی دیتے ہیں، ان میں اکثر انہی لوگوں کی رگ جان سے ٹپکے تھے جنہوں نے قوم کے مسلمات پر غور و فکر کی کوشش کی تھی تاریخ کے چودہ اوراق کو آگے بڑھائیں اور آج کی قوم کی حالت کو دیکھیں کہ اس کی کیا حال ہو گیا ہے۔ قوم کو راہ بتانے والوں کو کیا ہو گیا ہے، ان میں فریب میں مبتلا رکھنے اور الفاظ کی حفاظت اور بے روح پیکروں کا اضافہ ہوتا جا رہا ہے چشم پوشی کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک میں روز بروز فکر و نظر کا انتشار بڑھتا جا رہا ہے اور سوچنے سمجھنے والا طبقہ اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ موجودہ نظام ایک خاص زمانے میں تو معاملات کا راہ نما بن سکتا تھا لیکن اب اس میں اس کی صلاحیت نہیں رہی یہ آثار بڑے خطرناک ہیں، ہمارے ارباب سیاست کے پاس ا س خطرے کا علاج ماسوائے الزامات در الزامات کے کچھ نہیں لیکن جس صاحب فہم و بصیرت طبقہ کے دل میں پاکستان کی عظمت کا احساس ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ سوچے کہ اس مشکل کاحل کیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر اس مسئلہ کو شروع ہی سے مرکز توجہ بنا لیا جاتا تو یہ مرحلہ آسانی سے طے ہو جاتا، لیکن ملک کے نا اہل مدبروں کے ہاتھوں ہم جس مقام تک آ پہنچے ہیں وہاں الجھنیں اور پریشانیاں بہت بڑھ گئی ہیں، لیکن اس مرحلہ کی دشواری کے یہ معنی نہیں کہ اس سے پھر چشم پوشی کرلی جائے، چشم پوشی کرنے سے یہ مشکل حل نہیں ہو سکے گی، اس کی پیچیدگیاں اور بڑھ جائیں گی ملک کو در پیش بحرانوں کا حل فروعی مفادات کو ایک طرف رکھنا اور قومی مفاد کو مقدم بنانے پر مظہر ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اس بحرانی کیفیت سے نکلنے کے لئے اپنی انا کو دفن کرنا ہوگا۔ جس نازک موڑ سے ملک گذر رہا ہے اس میں اپنے پرائے کی پہچان بھی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔