تحریر: قادر خان یوسف زئی
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری مدت کا آغاز امریکہ کے لیے ایک چیلنج کے طور پر سامنے آیا۔ ، اور ان وعدوں کا سچاؤ ایک پیچیدہ اور متنازع مسئلہ بن چکا ہے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈرز، تجارتی پالیسیاں، اور مختلف ملکی فیصلے کسی حد تک امریکہ کے داخلی معاملات کو ہی متاثر نہیں کر رہے، بلکہ عالمی سطح پر بھی ان کی پالیسیوں کا گہرا اثر پڑ رہا ہے۔
ٹرمپ کے دوسرے دور میں سب سے واضح بات یہ ہے کہ انہوں نے ایگزیکٹو اختیارات کو پہلے 100 دنوں میں اپنی حکومت کی کامیاب حکمت عملی کے طور پر اپنایا۔ 137 ایگزیکٹو آرڈرز، 39 اعلانات اور 36 یادداشتوں کے ذریعے انہوں نے اپنے انتخابی وعدوں کو تیزی سے عملی جامہ پہنانا شروع کیا، جو کسی بھی دوسرے جدید امریکی صدر سے کہیں زیادہ ہیں۔ ان پالیسیوں کا ایک حصہ “پروجیکٹ 2025” کے تحت تھا، جو قدامت پسند فاؤنڈیشن کی تیار کردہ ایک پالیسی دستاویز ہے۔ ان پالیسیوں کے تحت ٹرمپ نے تقریباً دو تہائی ایگزیکٹو اقدامات کو فورا نافذ کر دیا، جو ان کے انتخابی وعدوں کے مطابق تھے۔ البتہ، اس حکمت عملی پر عوامی رائے میں واضح اختلاف پایا گیا۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق، 51 فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ ایگزیکٹو آرڈرز کے ذریعے زیادہ پالیسی بنا رہے ہیں، جبکہ 27 فیصد کا ماننا ہے کہ وہ مناسب طریقے سے اس عمل کو اختیار کر رہے ہیں۔
ان ایگزیکٹو اقدامات میں سب سے زیادہ توجہ حاصل کرنے والی اقدام “محکمہ حکومت کی کارکردگی” کی تخلیق ہے، جس کا مقصد حکومت کے اخراجات کو کم کرنا اور ضوابط کو ختم کرنا تھا۔ ایلون مسک کی قیادت میں تشکیل پانے والی اس عارضی تنظیم نے وفاقی ایجنسیوں میں بڑی تعداد میں عملے کی چھانٹی شروع کر دی، جس کا نتیجہ کٹوتیوں اور تنظیم نو کی صورت میں نکلا۔ اگرچہ ابتدائی طور پر 1 ٹریلین ڈالر کے اخراجات میں کمی کا منصوبہ تھا، لیکن یہ توقعات کم ہو کر 150 ارب ڈالر تک محدود ہو گئیں۔ ان اقدامات نے وفاقی ملازمین کے لیے غیر یقینی صورتحال پیدا کر دی اور کئی ایجنسیوں کی کارکردگی پر سوالات اٹھا دیے۔
پہلے 100 دنوں میں اقتصادی حالات کی نشاندہی کرنے والے اشارے بھی مثبت نہیں ہیں۔ بے روزگاری کی شرح میں تھوڑی سی اضافے نے عوام میں تشویش پیدا کی ہے۔ مارچ 2025 تک بے روزگاری کی شرح 4.2 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جو اس سے پہلے 4.1 فیصد تھی۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ کی مجموعی ملکی پیداوار (GDP) میں 2.8 فیصد کمی کے امکانات ظاہر ہو رہے ہیں، جو کہ اقتصادی ترقی کے لیے ایک تشویشناک پیشنگوئی ہے۔ اسی طرح کانگریس کے بجٹ دفتر نے 2025 کے مالی سال کے لیے 1.9 ٹریلین ڈالر کے بجٹ خسارے کا تخمینہ لگایا ہے، جو آئندہ برسوں میں بڑھ کر امریکی معیشت کے لیے بڑا بوجھ بن سکتا ہے۔
ٹرمپ کے دوسرے دور کا سب سے متنازع ایجنڈا امیگریشن پالیسیوں سے متعلق تھا، جس میں “میکسیکو میں رہنے” کی پالیسی کو دوبارہ شروع کرنا اور امریکہ-میکسیکو سرحد پر دیوار کی تعمیر میں تیزی لانا شامل تھا۔ ان اقدامات نے امیگریشن سے متعلق عوامی رائے میں مزید تقسیم پیدا کی، اور ان کے اعلان کردہ دوسرے قومی ایمرجنسی کی صورت میں لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن کی بے دخلی کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ ٹرمپ کی پالیسیوں نے ان کے حامیوں میں کافی حمایت حاصل کی، تاہم ان کی کارکردگی کے حوالے سے عوامی رائے تقسیم ہوئی ہے۔ ان کے 100 دنوں میں عوامی منظوری کی شرح 40 فیصد تک گر چکی ہے، جو فروری کے مہینے سے 7 فیصد کم ہے۔ اس کے باوجود، ان کے حامیوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ نے جو فیصلے کیے ہیں وہ بالکل درست تھے اور انہیں کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔
ٹرمپ نے اپنے پہلے 100 دنوں میں جو سب سے بڑا دعویٰ کیا تھا، وہ تھا یوکرین کی جنگ کا فوری خاتمہ اور امریکہ کی عالمی قیادت کو دوبارہ استوار کرنا۔ انہوں نے عالمی سطح پر اس بات کا دعویٰ کیا تھا کہ ان کی قیادت میں امریکہ روس اور یوکرین کے درمیان مذاکرات کروا سکتا ہے اور جنگ کا خاتمہ ممکن بنا سکتا ہے۔ لیکن اس دعوے کی حقیقت نے خود ٹرمپ کی پالیسیوں کی مشکلات اور پیچیدگیوں کو بے نقاب کر دیا۔ امریکہ اور روس کے درمیان کشیدگی اور عالمی سطح پر طاقت کے کھیل نے اس دعوے کو زمین پر سچ ثابت ہونے سے روک دیا۔
ٹرمپ کی پالیسیوں میں سب سے زیادہ متنازع مسئلہ ان کی داخلی حکومتی اصلاحات بھی رہی ہیں۔ امریکہ کی معیشت میں ان کی پالیسیوں کی وجہ سے کساد بازاری کا امکان بڑھا، اور عالمی سطح پر تجارتی تعلقات میں عدم استحکام نے امریکہ کو اقتصادی بحران میں دھکیل دیا۔ بے روزگاری کی شرح میں اضافے اور تجارتی جنگوں کے اثرات سے امریکی عوام میں مایوسی پیدا ہوئی۔ ٹرمپ کی انتظامیہ کی عالمی تعلقات میں تبدیلیاں اور تجارتی جنگ نے امریکہ کی عالمی ساکھ کو متاثر کیا۔ وہ جو وعدے کرتے ہیں، ان کے نتائج ہمیشہ اتنے مثبت نہیں نکلتے۔ ان کی عالمی قیادت کے خواب اور اقتصادی فیصلے دونوں میں تناقضات نے ان کے سیاسی عروج کو غیر مستحکم کر دیا۔
عوامی مقبولیت کی بات کریں تو ان 100 دنوں میں صدر ٹرمپ کی مقبولیت میں واضح کمی آئی۔ 2025 کے شروع میں ان کی منظوری کی درجہ بندی 40 فیصد تک گر گئی، جو کہ ان کے مخالفین کے لیے ایک بڑی کامیابی تھی۔ ٹرمپ کے اس سیاسی عروج کے بعد، عوامی سطح پر ان کی پالیسیوں کے خلاف مسلسل تنقید آئی، خاص طور پر ان کی اقتصادی پالیسیوں اور عالمی سطح پر امریکہ کی قوت میں کمی کی وجہ سے۔ عوامی سطح پر ان کے خلاف بڑھتی ہوئی عدم مقبولیت نے ان کی حکومتی پالیسیوں کو متنازع بنا دیا، اور ان کے لیے یہ بات ثابت کرنا مشکل ہوگیا کہ ان کی پالیسیاں امریکہ کے مفاد میں ہیں۔
ٹرمپ کی دوسری مدت میں عالمی سطح پر ایک اہم مسئلہ ان کی داخلی اصلاحات بھی رہی ہیں۔ امریکہ کی معیشت میں ان کی پالیسیوں کی وجہ سے کساد بازاری کا امکان بڑھا، اور عالمی سطح پر تجارتی تعلقات میں عدم استحکام نے امریکہ کو اقتصادی بحران میں دھکیل دیا۔ ان کے اقدامات نے امریکہ کی معیشت میں بحرانی کیفیت پیدا کر دی تھی، اور اس کے اثرات عالمی سطح پر بھی محسوس ہوئے۔
ٹرمپ کی پالیسیوں میں سب سے زیادہ اثر ان کی عالمی سطح پروعدوں نے عالمی سطح پر ایک نیا مکالمہ شروع کیا، لیکن ان وعدوں کو عملی جامہ پہنانا ایک بہت بڑا چیلنج ثابت ہوا۔ ٹرمپ کی حکومتی پالیسیوں میں تیزی سے تبدیلیاں اور جارحانہ پالیسیوں کا آغاز امریکہ کے اندرونی معاملات پر اثر انداز ہوا، اور عالمی سطح پر بھی ان کے فیصلوں کی گونج سنائی دی۔ ان کے اقدامات میں کہیں بھی موازنہ کی ضرورت تھی، جس سے ان کے عالمی وعدوں کی حقیقت اور ان کے اثرات پر سوالات اٹھے۔ اس دوران ٹرمپ کی انتظامیہ نے چند اہم قانون ساز کامیابیاں بھی حاصل کیں، جیسے لائکن رائیلی ایکٹ پر دستخط اور ایک جاری رہنے والے اپروپریشن ایکٹ کی منظوری۔ تاہم، اقتصادی اصلاحات اور ٹیکس کی جامع اصلاحات پر کوئی بڑی قانون سازی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔
ان 100 دنوں میں یہ بات واضح ہو گئی کہ صدر ٹرمپ نے اپنی حکومت کو عالمی سطح پر ایک نئے دور کی طرف مڑنے کی کوشش کی۔ ان کے وعدے، جیسے یوکرین کی جنگ کا خاتمہ اور غزہ میں جنگ بندی، عالمی امن کے حوالے سے بہت اہمیت رکھتے تھے، لیکن ان وعدوں کو حقیقت کا رنگ دینے کے لیے انہیں کئی پیچیدہ مسائل اور عالمی طاقتوں کے تعلقات میں مداخلت کی ضرورت تھی۔ ان کے 100 دنوں کے اثرات ایک پیچیدہ صورتحال کی طرف بڑھ رہے ہیں، جہاں عالمی سطح پر امن کے امکانات اور اقتصادی پالیسیوں کی حقیقت کا تجزیہ ابھی باقی ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا ٹرمپ اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں، اور ان کی عالمی قیادت کا خواب حقیقت بنتا ہے یا نہیں۔