مارچ 17, 2025

امام حسن مجتبی علیہ السلام نجات دہندہ اسلام

تحریر: علی سردار سراج 

تاریخ کے گزرنے کے ساتھ ظالم بے نقاب ہوتا ہے اور اس کی حقیقی تصویر سامنے آتی ہے۔

آئندہ نسلیں جب ماضی کے ظالم کو اس کے اصلی روپ میں دیکھتی ہیں تو حیران ہوتی ہیں کہ اُس زمانے کے لوگوں نے ایسے ظالم کا ساتھ کیسے دیا؟!

حالانکہ اکثر اوقات وہ خود بھی کسی نہ کسی ظالم شخص یا نظام کے حامی ہوتے ہیں، جن پر آنے والی نسلیں حیرت کا اظہار کریں گی۔

عام خیال یہی ہوتا ہے کہ فرعون، اپنے زمانے کے تمام لوگوں کے سامنے ایک شناختہ شدہ ظالم ہونے کے باوجود لوگ اس کی حمایت کرتے تھے۔

ایسا ہرگز نہیں تھا۔

آج دنیا جس چہرے سے فرعون کو پہچانتی ہے، وہ اس کے عہد کے لوگوں کے لیے اس کا باطن تھا۔

اس زمانے کے عوام کے نزدیک، فرعون نہ صرف اللہ تعالیٰ کے مقربین میں سے تھا بلکہ وہ خود ان کا سب سے بڑا رب تھا۔

لوگ اس کے اقتدار اور حکومت کو اس کی حقانیت کی دلیل سمجھتے تھے۔

(اور عام لوگ آج بھی اقتدار اور طاقت کو حق کی دلیل سمجھتے ہیں، اور یہ ہمیشہ سے عوامی ذہن رہا ہے)۔

فرعون اس عوامی سوچ سے بخوبی واقف تھا، لہٰذا وہ اپنی شان و شوکت کو اپنی حقانیت کے ثبوت کے طور پر پیش کرتا تھا:

وَنَادَىٰ فِرْعَوْنُ فِى قَوْمِهِۦ قَالَ يَٰقَوْمِ أَلَيْسَ لِى مُلْكُ مِصْرَ وَهَٰذِهِ ٱلْأَنْهَٰرُ تَجْرِى مِن تَحْتِىٓ ۖ أَفَلَا تُبْصِرُونَ

“اور فرعون نے اپنی قوم سے پکار کر کہا: اے قوم! کیا یہ ملک مصر میرا نہیں ہے؟ اور کیا یہ نہریں جو میرے قدموں کے نیچے جاری ہیں، یہ سب میری نہیں ہیں؟ پھر تمہیں کیوں نظر نہیں آ رہا ہے؟”

(الزخرف: 51)

لوگ فرعون کے مقابلے میں قیام کو رب کے مقابلے میں قیام سمجھتے تھے، کیونکہ وہ اس کے ظاہری جاہ و جلال اور اس کے باطنی خبث کے درمیان فرق کو سمجھنے سے قاصر تھے۔

اسی طرح، اسلام کی تاریخ میں منافقین بھی کوئی شناختہ شدہ گروہ نہیں تھے۔

ان کا ظاہر بہت دلکش اور باطن انتہائی وحشت ناک تھا۔

قرآن مجید ان کی تصویر کشی یوں کرتا ہے:

وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يُعْجِبُكَ قَوْلُهُۥ فِى ٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا وَيُشْهِدُ ٱللَّهَ عَلَىٰ مَا فِى قَلْبِهِۦ وَهُوَ أَلَدُّ ٱلْخِصَامِ

“اور انسانوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کی باتیں دنیاوی زندگی میں بھلی لگتی ہیں، اور وہ اپنے دل کی باتوں پر خدا کو گواہ بناتے ہیں، حالانکہ وہ بدترین دشمن ہیں۔”

(البقرہ: 204)

اسلام نے جب جزیرۂ عرب میں ظہور کر کے لوگوں کو توحید کی طرف دعوت دی تو سب سے پہلے شیطان اور سردارانِ قریش نے یہ سمجھ لیا کہ اس ندا میں ان کی نابودی ہے۔

امام علی علیہ السلام پہلی وحی کی روداد یوں بیان کرتے ہیں:

“جب آپؐ پر (پہلے پہل) وحی نازل ہوئی تو میں نے شیطان کی ایک چیخ سنی۔ میں نے پوچھا: یا رسول اللہؐ! یہ آواز کیسی ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ‘یہ شیطان ہے، جو اپنی عبادت سے مایوس ہو گیا ہے۔ (اے علیؑ!) جو میں سنتا ہوں، تم بھی سنتے ہو، اور جو میں دیکھتا ہوں، تم بھی دیکھتے ہو۔ فرق صرف یہ ہے کہ تم نبی نہیں ہو بلکہ (میرے) وزیر و جانشین ہو، اور یقیناً بھلائی کی راہ پر ہو’۔”

(نہج البلاغہ، خطبہ 190)

قریش نے اسلام کو مٹانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی، لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ انہیں ناکامی اور رسوائی کے سوا کچھ نہ ملا۔

آخرکار، انہوں نے اسلام سے مقابلے کے لیے اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی۔

زر و زور کی جگہ تزویر (چالاکی و مکاری) نے لے لی۔

اب اسلام اور پیغمبر اکرمؐ کا سامنا کچھ ایسے لوگوں سے بھی تھا، جن کا ظاہر تو اسلامی تھا، مگر باطن وہی کفر اور الحاد تھا۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو کفار اور منافقین کے خلاف جہاد کا حکم دیا:

يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ جَٰهِدِ ٱلْكُفَّارَ وَٱلْمُنَٰفِقِينَ وَٱغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۚ وَمَأْوَىٰهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ ٱلْمَصِيرُ

“اے نبی! کفار اور منافقین سے جہاد کیجئے اور ان پر سختی کیجئے۔ ان کا انجام جہنم ہے، جو بدترین ٹھکانا ہے۔”

(التوبہ: 73)

یہ جہاد لازمی طور پر قتال اور جنگ نہیں تھا، بلکہ دشمن کے مقابلے میں انتہائی سعی و کوشش اور جدوجہد کا نام ہے۔

یہ ایک طاقت فرسا عمل ہے، جس میں اہلِ حق کا سب سے بڑا اسلحہ ایمان، بصیرت، علم اور آگاہی ہے، جبکہ اہلِ کفر و نفاق کا حربہ زر، زور اور تزویر ہے۔

معاشرہ جس قدر مومن، بصیر، عالم اور آگاہ ہوگا، اسی حساب سے کفر اور نفاق کا خاتمہ ممکن ہوگا۔

یہ کوئی ایسا ہدف نہیں ہے، جو فوری طور پر حاصل ہو جائے بلکہ یہاں پر صبر اور حوصلے کے ساتھ انسان اور انسانی معاشرے کی تعلیم، تربیت اور تذکیہ پر توجہ دی جاتی ہے ۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ فریضہ خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے ۔ لیکن اسلام کی پیشرفت کے ساتھ ساتھ نفاق میں بھی گہرائی اور عمق آتا گیا،یہاں تک کہ اہل نفاق اس میں ماہر و سپیشلسٹ ہوگئے۔

چنانچہ خواص کے لئے بھی ان کی شناخت ناممکن ہوتی گئی ۔

وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ ٱلْأَعْرَابِ مُنَٰفِقُونَ ۖ وَمِنْ أَهْلِ ٱلْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا۟ عَلَى ٱلنِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ۚ سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَىٰ عَذَابٍ عَظِيمٍ

اور تمہارے گرد دیہاتیوں میں بھی منافقین ہیں اور اہل مدینہ میں تو وہ بھی ہیں جو نفاق میں ماہر اور سرکش ہیں تم ان کو نہیں جانتے ہو لیکن ہم خوب جانتے ہیں -عنقریب ہم ان پر دوہرا عذاب کریں گے اس کے بعد یہ عذاب عظیم کی طرف پلٹا دئیے جائیں گے.

التوبه: 101۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے بعد امام علی علیہ السلام نے اور ان کے بعد امام حسن مجتبی علیہ السلام نے منافقین کے ساتھ جہاد کو جاری رکھا ۔

اس جہاد میں ان کا سامنا باغی جماعت کے اس سرغنہ سے ہے جس کے پاس کئی سالوں سے شام کے وسیع علاقے کی حکومت رہی ہے ۔

جس میں مادی امکانات کے ساتھ ساتھ افرادی قوت کی بھی فراوانی ہے ۔

ایسے افراد جن کی تربیت ہی پیغمبر اکرم کے اہل بیت بالخصوص علی علیہ السلام سے دشمنی پر ہوئی ہے۔(1)

وہ لوگ خاندان ابو سفیان کو ہی پیغمبر اکرم کے اہل بیت سمجھتے ہیں۔(2)

ان کی آندھی تقلید کا یہ عالم ہے کہ جمعہ کی نماز بدھ کو پڑھانے پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ (3)

معاویہ اپنے آپ کو عثمان کے خون کا وارث بنا کر پیش کرتا ہے،اور اسلامی معاشرے میں پھوٹ ڈالنے کے لیے خلافت کے مسئلے میں علی علیہ السلام اور شیخین کے درمیان پائے جانے والے تاریخی اختلاف کو خوب اچھالتا ہے۔

جنگ جمل کی وجہ سے دو اہم اسلامی مراکز کوفہ اور بصرہ کے درمیان باہمی محبت کی جگہ کدورتوں نے لے لیا ہے ۔

عام مسلمانوں میں بصیرت کی کمی ہے لہذا وہ معاویہ کے حقیقی چہرے کو تشخیص دینے سے قاصر ہیں ۔

جنگ صفین میں عمار یاسر اس جماعت کے اصلی روپ کو دیکھاتے ہوئے فرماتا ہے “میں نے پیغمبر اکرم (ص) کی سربراہی میں جنگ بدر، احد اور حنین میں اسی سیاہ پرچم اٹھانے والوں کے ساتھ جنگ کی ہے کہ جو پرچم آج عمرو بن عاص کے ہاتھ میں ہے، اور چوتھی مرتبہ آج اسی سیاہ پرچم کے مقابلے میں جنگ کررہا ہوں، میری نظر میں طرف مقابل کی حالت پہلی جنگوں کی نسبت خراب نہ ہوئی ہے تو بہتر بھی نہیں ہوئی ہے۔ آج ہمارا مقام بلکل وہی ہے جو پیغمبر اکرم (ص) کے پرچم کے سائے میں آنے والوں کا ہے اور اُن(باغی جماعت ) کامقام اس زمانے کے مشرکین اور احزاب کے مقام کی طرح ہے اور معاویہ اور ان کے حواریوں کا خون، چڑیا کے خون کی طرح اپنے لیے جائز سمجھتا ہوں اور کسی قسم کے شک و تردد کا شکار نہیں ہوں۔ (4)

لیکن نیزوں پر بلند ہونے والے قرآنوں سے مجاہدین اسلام دھوکہ کھا گئے جس کے نتیجے میں علی علیہ السلام کی فوج میں ایک اور شگاف

پڑگیا ۔

جس کا نتیجہ جنگ نہروان کی شکل میں سامنے آیا۔

جب امام حسن مجتبی علیہ السلام مسند خلافت پر بیٹھ گئے تو اکثر لوگ جنگ و جہاد سے تھک چکے تھے نیز کچھ لوگ معاویہ کے وسوسوں کے مقابلے میں مقاومت نہ کر سکے ۔

ان کی فوج کا اہم کمانڈر عبیداللہ بن عباس رشوت لے کر فوج کے بارہ ہزار افراد کے ساتھ معاویہ سے ملحق ہوگئے ۔

معاویہ کے لوگ امام حسن علیہ السلام کی فوج میں پنہان ہوکر انہیں قتل کرنے کے درپے ہیں ۔

امام عالی مقام نے ان مشکلات کو دیکھتے ہوئے اپنے مبارزے کی روش میں تبدیلی لائی ۔

ان کے پاس مکتب اسلام اور پیروان قرآن و اہل بیت علیہم السلام کو بچانے کے لیے صرف ایک ہی راستہ بچا تھا ۔

یہ وہی راستہ تھا جس پر ان سے پہلے ان کا جد امجد رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ، حدیبیہ کے مقام پر صلح کرکے، مشرکین مکہ کے مقابلے میں چلے تھے ۔

جس طرح وہاں پر پیغمبر اکرم نے زخم زبان برداشت کیے تھے اور دشمن اپنی فتح سمجھتا تھا، بلکل اسی طرح آج حسن مجتبی علیہ السلام نے بھی اپنے آپ کو ناقابل التہاف زخموں کے لئے آمادہ کیا اور ظاہری شکست کے در پردہ ایک عظیم فتح کی بنیاد رکھی ۔

تحمیل شدہ صلح کو قبول کرکے اسلامی معاشرے کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ طلقا کے باطنی اور حقیقی چہرے کو نزدیک سے دیکھ لے ۔

تاریخ میں آیا ہے کہ معاویہ نے امام حسن(ع) کےساتھ صلح کے بعد ایک دن نماز عید کے خطبوں میں اپنے مقاصد اور اہداف سے پرده اٹھاتے ہوئے کہا:

“میں نے تم سے اس لئے جنگ نہیں کی ہے کہ آپ روزه رکھیں،نماز پڑھیں،حج بجالائیں یا زکات ادا کریں! کیونکہ میں جانتا تھا کہ آپ یہ کام انجام دیتے ہیں٬بلکہ میں نے تم لوگوں سے اس لئے جنگ کی ہے تاکہ تم لوگوں کا امیر بن جاوں،خداوند متعال نے آپ پر حکمرانی کرنا مجھے عطا کی تھی اور تم لوگ نہیں چاہتے تھے-” (5)

(نکتہ :معاویہ شیطنت سے حاصل کی ہوئی حکومت کی نسبت خدا کی طرف دے کر اپنی مشروعیت کو ثابت کرنے کے ساتھ لوگوں کو عقیدہ جبر کی طرف دھکیل رہا ہے، تاکہ آئندہ ان کے تمام جرائم کو لوگ خدا کا فعل سمجھ کر خاموش رہیں گے، تاریخ نے دکھا کہ کس طرح ظالموں و جابروں نے اس بے بنیاد عقیدے سے اپنے شوم مقاصد کو حاصل کیا!!۔)

امام حسن علیہ السلام نے وہ سخت فیصلہ کیا جو اگرچہ ان کے بعض قریبی لوگوں پر بھی بہت شاق گزرا ؛لیکن امام علیہ السلام نے اپنے اس فیصلے کے ذریعے کئی اہم مقاصد حاصل کیے ۔

جن میں سب سے اہم مقصد بنو امیہ کے حقیقی چہرے کو لوگوں کے سامنے بے نقاب کرکے اسلام کو ان کے چنگل سے نجات دلانا تھا ۔

حقیقت امر یہ ہے کہ امام حسن اور امام حسین علیھما السلام ایک ہی ہدف کے تعاقب میں تھے، جو امام حسن مجتبی علیہ السلام کے صلح سے شروع ہوکر امام حسین علیہ السلام کی عظیم شہادت کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچا ۔

وہ ہدف یہی تھا کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ گرچہ یہ لوگ مسند رسول اکرم پر براجمند ہیں لیکن ان کا اسلام سے دور تک کوئی تعلق نہیں ہے ان کا ہدف حکومت اور اقتدار ہے ۔

ورنہ عام خیال یہی ہوتا تھا کہ یہ مسلمانوں کے خلیفہ ہیں اور ان کا قول و فعل اسلام ہے۔

امام حسن اور امام حسین علیھما السلام نے اپنی بے مثال قربانی سے ان لوگوں کو ظاہری حکومت تک ہی محدود کیا۔

محبان اہل بیت علیہم السلام (جو ائمہ اطہار کی امامت کو منصوص من اللہ مانتے ہیں ) کے علاوہ عموم مسلمانوں نے بھی انہیں اپنے دینی پیشوا اور رہبر ماننے سے انکار کیا ۔

لہذا دین اور دینی احکام ان ظالم اور فاسق حکمرانوں کے چنگل سے کسی حد تک آزاد ہو کر علماء کے ہاتھوں میں آگئے ۔

منصف مزاج اہل سنت علماء کو اس بات کے اعتراف میں کوئی عار نہیں ہے کہ ،آج اہل سنت کے پاس جو دین ہے وہ بھی امام حسن اور امام حسین علیھماالسلام کی

بے مثال قربانی اور فدا کاری کا مرہون منت ہے ۔

وگرنہ اسلام دیمک کی طرح کھا جانے والی ملوکیت کے ہاتھوں اندر ہی اندر سے ختم ہوجاتا اور اسلام کا صرف نام رہ جاتا ۔

______________

 

(1):النصایح الکافیة، العمانی، ص72. ، شرح نهج البلاغه، ابن ابی الحدید، ج4، ص 73.

(2):مروج الذهب، ج3، ص33.، النزاع و التخاصم، مقریزی، ص 28۔

(3):مروج الذهب، ج 3، ص 31.

(4): وقعه صفين, نصر بن مزاحم،ص 321.

(5):( أبو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقى (م 774)، البدایةوالنهایة،ج 8،ص131، نشر دار الفکر، بیروت، 1407/ 1986.)

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

three + twenty =