مارچ 13, 2025

بلوچستان: شورش، سیاست اور ترقی کی پیچیدہ گتھی 

تحریر: قادر خان یوسفزئی

پاکستان کے لیے بلوچستان ایک عرصے سے دردِ سر بنا ہوا ہے۔ یہ شورش نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے خطے میں عدم استحکام اور تشدد کا باعث بنتی رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں یہ کشیدگی اس وقت شدت اختیار کر گئی جب بلوچ لبریشن آرمی (BLA) کے دہشت گردوں نے جعفر ایکسپریس پر حملہ کر کے سیکڑوں مسافروں کو یرغمال بنا لیا۔ یہ واقعہ واضح کرتا ہے کہ کس طرح علیحدگی پسندوں کی حکمت عملی بدل رہی ہے اور وہ خطے میں بدامنی اور انتشار پھیلانے کے لیے کس حد تک جا سکتے ہیں۔

بلوچستان میں شورش کا آغاز پاکستان کے قیام کے فوراً بعد 1948 میں ہوا، جب کچھ قبائلی سرداروں نے بلوچستان کے پاکستان میں شمولیت کی مخالفت کی۔ اس کے بعد بلوچستان میں کئی شورشیں جنم لیتی رہیں، جن میں بلوچ لبریشن آرمی (BLA)، بلوچ لبریشن فرنٹ (BLF) اور بلوچ راجی آجوئی سنگر (BRAS) جیسی عسکری تنظیمیں سرِفہرست رہیں۔ یہ تنظیمیں مل کر ایک ایسا پیچیدہ باغی نیٹ ورک تشکیل دیتی ہیں جو پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی سخت کارروائیوں کے باوجود اپنی سرگرمیوں کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔   بعض تجزیہ کار اس شورش کو معاشی بدحالی اور پسماندگی سے جوڑتے ہیں، لیکن گہرائی سے تجزیہ کرنے پر ایک پیچیدہ حقیقت سامنے آتی ہے۔ قبائلی نظام، بین الاقوامی مداخلت اور دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے مقامی مسائل کا استحصال اس تنازع میں زیادہ بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ حالیہ جعفر ایکسپریس ہائی جیکنگ اس بات کی واضح مثال ہے کہ یہ عناصر کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ مل کر صوبے کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

حالیہ برسوں میں بلوچ عسکریت پسندوں کے حملوں میں نمایاں پیچیدگی اور مہارت دیکھی گئی ہے۔ جنوری 2024 میں آپریشن درہ بولان نے اس بڑھتی ہوئی نفاست کو واضح کیا، جس میں BLA کے مختلف ایلیٹ یونٹس کے 380 سے زائد جنگجو شامل تھے۔ انہوں نے 40 گھنٹوں سے زائد عرصے تک مچھ شہر کا کنٹرول سنبھالے رکھا اور تمام داخلی و خارجی راستوں پر اپنی گرفت مضبوط رکھی۔ یہ کارروائی نہ صرف مربوط تھی بلکہ اس میں حکمت عملی اور منصوبہ بندی کا مظاہرہ کیا گیا، جو پہلے کے سادہ حملوں سے کہیں زیادہ پیچیدہ تھی۔   اس بڑھتی ہوئی پیچیدگی کی دیگر مثالوں میں 2022 کے کرسمس کے دن پانچ مختلف مقامات پر بم دھماکوں کا سلسلہ شامل ہے، جس میں تربت، کہان، گوادر اور کوئٹہ جیسے شہروں کو نشانہ بنایا گیا۔ مارچ 2025 میں جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ بھی اسی بڑھتی ہوئی نفاست کی عکاسی کرتی ہے، جس میں عسکریت پسندوں نے ٹریک کو نقصان پہنچایا، مسافروں کو علیحدہ کیا اور انہیں یرغمال بنایا۔ یہ تمام اقدامات ایک جامع منصوبہ بندی اور حفاظتی حکمت عملی کے تحت کیے گئے تھے۔

بلوچستان میں ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہاں کا قبائلی نظام رہا ہے۔ قبائلی رہنماؤں نے اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے ہی لوگوں پر جبر و ستم کا سہارا لیا۔ اپنی برتری قائم رکھنے کے لیے انہوں نے صحت کی سہولیات کو محدود کیا، تعلیمی مواقع کو روکا اور معیشت کو پسماندہ رکھا۔ اس منظم جبر نے بلوچ عوام کی اکثریت کو غربت میں دھکیل دیا، جس سے ان کے لیے اپنی زندگی بہتر بنانے کے مواقع محدود ہو گئے۔   جہاں کہیں بھی وفاقی حکومت نے ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کی کوشش کی، قبائلی سرداروں نے ان منصوبوں کی مخالفت کی۔ ان کی مخالفت کی بنیادی وجہ یہ خدشہ تھا کہ انفراسٹرکچر میں بہتری اور معاشی ترقی ان کے تاریخی اثر و رسوخ کو کمزور کر سکتی ہے۔ بعض اوقات ان رہنماؤں نے حکومت مخالف پرتشدد گروہوں کو مالی مدد فراہم کی تاکہ وہ سیاسی طاقت پر اپنی گرفت برقرار رکھ سکیں۔

بلوچستان مسلسل پاکستانی حکومتوں کا ہدف رہا ہے، جو اسے قومی دھارے میں شامل کرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ ایسے منصوبے متعارف کرائے گئے جن کا مقصد خطے میں اقتصادی مواقع پیدا کرنا، روزگار فراہم کرنا اور بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانا تھا، جیسے کہ گوادر پورٹ منصوبہ اور چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC)۔ تاہم بلوچ دہشت گرد تنظیموں جیسے کہ BLA اور BLF نے ان منصوبوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے پرتشدد کارروائیاں شروع کیں۔   BLA کے دہشت گردوں نے گوادر پورٹ منصوبے کو کئی بار نشانہ بنایا تاکہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو روکا جا سکے۔ سی پیک منصوبے سے وابستہ انفراسٹرکچر پر بم دھماکوں اور تخریب کاری کے واقعات اسی مقصد کے تحت کیے گئے تاکہ بلوچستان میں اقتصادی ترقی کو روکا جا سکے۔ کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ پر 2022 میں ہونے والا حملہ اور مارچ 2025 میں جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ اسی حکمت عملی کے تحت کیے گئے پیچیدہ اور تباہ کن حملے تھے۔

بلوچستان میں امن کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ دہشت گرد گروہوں اور عام بلوچ عوام کے درمیان فرق کو سمجھا جائے۔ بلوچ عوام کی اکثریت درحقیقت امن اور خوشحالی کے لیے کوشاں ہے۔ لیکن بدقسمتی سے دہشت گرد تنظیموں نے عوامی شکایات کو اپنے پرتشدد عزائم کے لیے استعمال کیا ہے۔   بلوچ عوام کی تعلیم، صحت اور روزگار کے حوالے سے شکایات حقیقی ہیں۔ یہ مسائل کئی دہائیوں سے موجود ہیں، لیکن دہشت گرد تنظیموں نے ان مسائل کو اپنے تخریبی منصوبوں کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ان مسائل کا حل ضروری ہے، مگر بغاوت اور خونریزی نے عوام کے مسائل کو مزید بڑھا دیا ہے۔    بلوچستان میں پائیدار امن کے لیے صرف سیکیورٹی آپریشنز کافی نہیں، بلکہ مضبوط سیاسی مکالمہ بھی ناگزیر ہے۔ پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے متعدد عسکری کارروائیوں کو ناکام بنایا ہے، مگر تشدد کا مکمل خاتمہ صرف عسکری اقدامات سے ممکن نہیں۔ بلوچستان میں امن کے قیام کے لیے ایک جامع حکمت عملی ضروری ہے جس میں سیاسی مذاکرات، اقتصادی ترقی اور معاشرتی اصلاحات شامل ہوں۔

بلوچ عوام کو ترقیاتی منصوبوں میں شریک کرنا ضروری ہے۔ سی پیک اور دیگر ترقیاتی منصوبوں میں مقامی نوجوانوں کو ملازمت کے مواقع دینا اعتماد سازی کے لیے ایک مؤثر حکمت عملی ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں تعلیمی ادارے، فنی تربیتی مراکز اور صحت کی سہولیات قائم کر کے نوجوانوں کو عسکریت پسندوں کے جال سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔   حکومت کو چاہیے کہ وہ جبر و استحصال پر مبنی قبائلی نظام کو محدود کرے تاکہ بلوچستان کے عوام ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ جامع اقتصادی اقدامات، سیاسی مکالمہ اور مضبوط سیکیورٹی حکمت عملی ہی بلوچستان میں پائیدار امن اور خوشحالی کا راستہ ہموار کر سکتی ہیں۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

three × three =