اپریل 6, 2025

خیرات یا کاروبار؟ کراچی کی بدلتی تصویر

تحریر: قادر خان یوسفزئی

یہ شہر زندہ ہے، روشنیوں کا شہر، مگر ان روشنیوں کے نیچے کچھ سائے بھی ہیں۔ کہیں چمچماتے بازاروں میں افطار پارٹیاں ہو رہی ہیں، کہیں چوراہے پر کوئی بچہ ننگے پاں کھڑا کسی نامعلوم ہاتھ سے ملنے والے کھانے کے انتظار میں ہے۔ کہیں فلاحی تنظیمیں بڑے بڑے دسترخوان سجا رہی ہیں، تو کہیں خیرات کے نام پر لوگوں کی مجبوریوں کا کاروبار ہو رہا ہے۔ کراچی رمضان میں ایک نیا روپ اختیار کر لیتا ہے۔ ہر طرف نیکی کی دوڑ، ہر شخص کچھ نہ کچھ دینے کی فکر میں، ہر سڑک پر کوئی نہ کوئی خیراتی تنظیم، کوئی دسترخوان، کوئی مدد کا وعدہ۔ ایسا لگتا ہے جیسے شہر میں کوئی بھوکا نہیں رہے گا، جیسے ہر ضرورت مند کی مدد ہو جائے گی، جیسے سخاوت کی یہ روایت کبھی ختم نہیں ہوگی۔

لیکن پھر ایک لمحہ رک کر سوچیں،اگر ہر چوراہے پر کھانے کی تقسیم ہو رہی ہے، اگر ہر مخیر شخص دل کھول کر زکوٰۃدے رہا ہے، اگر ہر بڑی تنظیم لاکھوں مستحقین کو کھانا کھلا رہی ہے، تو پھر غربت کم کیوں نہیں ہو رہی؟ ان اسباب کے حقائق کو دیکھنا ناگزیر ہے کچھ تو ایسا ہے جو نظر آرہا ہے لیکن اسے چھپایا جارہا ہے ۔ یہ ملک، اور خاص طور پر یہ شہر، اپنی فلاحی روایات کے لیے مشہور ہے۔ یہاں چندہ دینا بھی عبادت، زکوٰۃدینا بھی فرض، اور صدقہ خیرات کرنا بھی ایک نیکی کا عمل ہے۔ ہر سال رمضان آتا ہے، اور ہر برس خیرات کے ریکارڈ ٹوٹتے ہیں۔ مگر غربت وہیں کی وہیں ہے، ضرورت مندوں کی قطاریں طویل تر ہو رہی ہیں، اور راشن لینے والوں کی تعداد میں کمی ہونے کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر یہ تمام امداد واقعی غریبوں تک پہنچ رہی ہے، تو پھر شہر کے فٹ پاتھوں پر سونے والے کیوں بڑھ رہے ہیں؟

اگر سماجی تنظیمیوں او مخیر حضرات کی سخاوت کے باوجود دسترخوانوں کی قطاریں کم نہیں ہو رہی تو پھر واقعی یہ سوال اٹھتا ہے اگر ہر شخص اتنا سخی ہے تو یہ غربت اور بھوک ہر برس کیوں بڑھ رہی ہے؟، کہیں ایسا تو نہیں کہ خیرات کا ایک بڑا حصہ چند مخصوص ہاتھوں میں جا رہا ہو؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ مستحقین کی فہرست میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو ضرورت مند نہیں بلکہ کاروباری ذہن رکھتے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ زکوٰۃدینے والے کا پیسہ واقعی حقدار تک نہیں پہنچ رہا، بلکہ درمیان میں کہیں ’’منصوبہ بندی‘‘ ہو رہی ہے؟

یہ سچ ہے کہ شہر میں کئی فلاحی تنظیمیں دن رات کام کر رہی ہیں، بے سہارا لوگوں کے لیے کھانے کا انتظام، راشن کی تقسیم، یتیموں کی کفالت، بیماروں کے لیے طبی سہولتیں، سب کچھ ہورہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ایک اور حقیقت بھی ہے، جو شاید اتنی واضح نہیں۔ رمضان کے آتے ہی کچھ تنظیمیں چندہ اکٹھا کرنے کے لیے سرگرم ہو جاتی ہیں، بڑی بڑی مہمات چلائی جاتی ہیں، اشتہارات لگائے جاتے ہیں، جگہ جگہ خیرات کے بینرز نظر آتے ہیں، مگر یہ پیسہ کہاں جا رہا ہے؟ . یہ تنظیمیں گیارہ مہینے کہاں ہوتی ہیں؟ کیا فلاحی جذبہ صرف رمضان میں ہی بیدار ہوتا ہے؟ کیا باقی مہینوں میں غربت ختم ہو جاتی ہے؟ اور کیا واقعی جو رقم جمع ہو رہی ہے، وہ غریبوں پر خرچ ہو رہی ہے یا کہیں اور جا رہی ہے؟ ۔

یہاں ایک اور طبقہ بھی ہے، جو رمضان کو اپنا سیزن سمجھتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو پیشہ ور بھکاری ہیں، جن کے لیے رمضان ایک ’’ سنہری موقع‘‘ ہے۔ سڑکوں پر، مسجدوں کے باہر، بازاروں میں، ہر جگہ ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو بناوٹی معذوری، مصنوعی بیوگی، یا جھوٹی مجبوریوں کی کہانیاں سنا کر لوگوں کے جذبات کا استحصال کرتے ہیں۔ پولیس کئی بار ایسے گروہوں کو پکڑ چکی ہے، جو رمضان میں لاکھوں روپے کما لیتے ہیں، مگر چند دن بعد وہی لوگ کسی اور علاقے میں دوبارہ نظر آتے ہیں۔ یہ وہ لوگ نہیں جو واقعی مجبور ہوں، بلکہ وہ ہیں جنہوں نے خیرات کو کاروبار بنا لیا ہے۔ اب زکوٰۃدینے والے خود راشن لے کر نہیں جاتے، وہ آن لائن چندہ دیتے ہیں، ایک بٹن دبا کر نیکی کر دیتے ہیں۔ مگر کیا واقعی وہ رقم صحیح ہاتھوں میں جا رہی ہے؟

گزشتہ برس کئی جعلی آن لائن چندہ مہمات چلائی گئیں، جہاں زکوٰۃکے نام پر ہزاروں لوگوں نے پیسے دئیے، مگر وہ رقم کہاں گئی، شائدکسی کو معلوم نہیں۔ آن لائن خیرات دینے میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ لوگ اکثر تصدیق نہیں کرتے کہ جس تنظیم کو وہ چندہ دے رہے ہیں، وہ واقعی مستند ہے یا نہیں۔ کئی لوگ ایسی ویب سائٹس پر عطیات دے دیتے ہیں جو محض دھوکہ دہی کے لیے بنائی گئی ہوتی ہیں۔ یہ سوال ہر سال اٹھتا ہے اور ہر برس دب جاتا ہے۔ اگر رمضان میں ہر جگہ کھانے کی تقسیم ہو رہی ہے، اگر ہر مسجد کے باہر لوگ زکوٰۃ دے رہے ہیں، اگر ہر فلاحی ادارہ دن رات امداد بانٹ رہا ہے، تو پھر یہ شہر دن بدن غریب کیوں ہوتا جا رہا ہے؟ ، کہیں نہ کہیں کوئی خامی ہے، کہیں نہ کہیں یہ خیرات صحیح ہاتھوں میں نہیں جا رہی، کہیں نہ کہیں کوئی کاروبار چمک رہا ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس خیراتی نظام کو ریگولیٹ کرے، جعلی فلاحی اداروں پر پابندی لگائے، اور یہ یقینی بنائے کہ زکوٰۃاور صدقات مستحقین تک ہی پہنچیں۔

یہ سوال ہر سال رمضان میں اٹھتا ہے، کیا خیرات واقعی مستحقین کو پہنچ رہی ہے؟ یا پھر ہم ایک ایسے دھوکے میں جی رہے ہیں جہاں چند مخصوص افراد سخاوت کے جذبے کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کر رہے ہیں؟ ، یہ خیرات واقعی کسی کی بھوک مٹانے کے لیے دی جا رہی ہے یا کسی کے بینک اکائونٹ میں اضافے کے لیے؟ یہ دسترخوان واقعی ضرورت مندوں کے لیے بچھایا جا رہا ہے یا یہ صرف تصاویر کے لیے ہے؟ یہ چندہ واقعی کسی کی زندگی بدلنے کے لیے دیا جا رہا ہے یا یہ صرف ایک رسم بن چکا ہے؟ ۔

کراچی کی خیرات کی روایت مضبوط ہے، مگر اگر اسے اب بھی شفاف اور منظم نہ کیا گیا، تو وہ دن دور نہیں جب رمضان کی خیرات بھی ایک تجارتی منڈی بن جائے گی، جہاں زکوٰٰۃ لینے اور دینے والے دونوں کا کاروبار چلے گا، مگر بھوکے پھر بھی بھوکے رہیں گے۔ اس زمینی حقیقت کو سمجھنا ہوگا کہ بیشتر خیرات مستحق افراد کے پاس ہی جا رہی ہے یا نہیں، اگر ہم نے یہ سوال نہ پوچھا، تو کل کو ہم خود بھی اسی قطار میں کھڑے ہوں گے جہاں آج کے مستحقین کھڑے ہیں۔ یہ شہر زندہ ہے، مگر سوال یہ ہے کہ یہ کب تک زندہ رہے گا؟ اور یہ خیرات میں کب تک خیانت کی جاتی رہے گی؟ یہ فیصلہ ہمیں اب کرنا ہوگا۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

4 × one =