تحریر: قادر خان یوسفزئی
جب بھی خواتین کی تعلیم پر بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر بات ہوتی ہے، تو یہ مطالبے محض بیانات اور دعوؤں کی صورت میں رہ جاتے ہیں۔ تاہم، عمل کے میدان میں، وہ دنیا کے کچھ حصے، جنہوں نے اسلامی اقدار کو اپنانے کا عہد کیا تھا، اپنے ان وعدوں کو فراموش کر چکے ہیں۔ افغانستان اس کی ایک واضح مثال ہے، جہاں لڑکیوں کو نہ تو اسکول جانے کی اجازت دی جاتی ہے اور نہ ہی انہیں کسی محفوظ پناہ گاہ تک رسائی حاصل ہے۔ تاہم، اس بات پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جا رہا کہ ان لڑکیوں کو ان کے بنیادی انسانی حق، یعنی تعلیم کے حق سے محروم کیوں رکھا جا رہا ہے۔ ابھی تک، نہ عالمی برادری ان کی صورتحال کو سمجھ پائی ہے اور نہ ہی ان کے اپنے رہنما اس مسئلے کو اٹھا رہے ہیں۔
کچھ مسلم اکثریتی ممالک جیسے پاکستان میں، جہاں آزادی اور تعلیم کو اہمیت دی جاتی ہے، ان اقدار کو عملاً کم تر سمجھا جاتا ہے۔ 11 اور 12 جنوری 2025 کو اسلام آباد میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس *”لڑکیوں کی تعلیم: مسلم کمیونٹیز میں چیلنجز اور مواقع”* میں افغان عبوری حکومت کا کوئی نمائندہ شریک نہیں ہوا۔ طالبان کا شرکت سے انکار اس تلخ حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے کہ افغان خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی مسلسل خلاف ورزی محض ایک پالیسی نہیں بلکہ ایک ایسا نظام ہے جو انتقامی، رجعت پسندانہ نظریات کو نافذ کرتے ہوئے افغان خواتین کو ہر سماجی، معاشی، اور سیاسی پہلو سے خارج کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
افغانستان میں، جہاں ماضی میں لڑکیوں کو تعلیم کے لیے سازگار حالات میسر تھے، آج وہی حالات ان کے لیے مکمل طور پر نامساعد بن چکے ہیں۔ چھٹی جماعت کے بعد تعلیم حاصل کرنا ناممکن بنا دیا گیا ہے، خواتین کے لیے یونیورسٹیوں میں داخلہ مکمل طور پر ممنوع ہے، اور اب انہیں میڈیکل تعلیم سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔ یہ صرف ایک پالیسی نہیں بلکہ طالبان کی بنیادی آئیڈیالوجی ہے، جو خواتین کے حقوق کو اسلامی شریعت اور افغان ثقافت و روایات کے نام پر ختم کرنے کی دانستہ کوشش ہے۔
جب کسی معاشرے میں خواتین کو ان کے حقوق سے محروم کیا جائے، تو اس کا معیشت، سیاست، اور ثقافت پر منفی اثر پڑتا ہے۔ مسلم ممالک کے رہنما، سعودی عرب سے مصر اور ترکی تک، خواتین کی تعلیم پر زور دیتے ہیں، لیکن افغان طالبان کے اقدامات پر خاموش رہتے ہیں۔ طالبان کا کانفرنس میں عدم شرکت کا فیصلہ ایک اور ثبوت ہے کہ وہ عالمی سطح پر اپنے موقف کا دفاع کرنے میں ناکام ہیں۔
یونیسکو اور یو این ایچ سی آر جیسے عالمی ادارے بار بار اس بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں، لیکن یہ تشویش طالبان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ 1.4 ملین افغان لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں، اور ان کی آواز دنیا میں کہیں سنائی نہیں دیتی۔ سوال یہ ہے کہ کیوں؟ کیا ہم اس حد تک بے حس ہو چکے ہیں کہ افغان خواتین کی جدوجہد کو نظر انداز کرتے رہیں؟
اسی لیے تمام مسلم ممالک نے اسلام آباد اعلامیہ پر دستخط کیے ہیں۔ اس دستاویز کا مقصد اپنے ممالک میں اس مسئلے کو اجاگر کرنا اور افغانستان پر بین الاقوامی دباؤ ڈالنا ہے۔ لیکن کیا یہ الفاظ طالبان کے رویے کو بدلنے کی طاقت رکھتے ہیں؟ اس اعلامیہ کی اہمیت تب ہوگی جب دنیا اس پر عمل درآمد کرے، نہ کہ اسے محض کاغذ کا ایک ٹکڑا سمجھا جائے۔
کیا ہم اس طرح بے ضمیر ہو کر جی سکتے ہیں؟ کیا یہ دنیا ان لڑکیوں کے لیے ایک کھلی مایوسی کا صندوق بن کر رہ جائے گی، جو صرف اس لیے اسکول سے باہر ہیں کہ وہ لڑکیاں ہیں؟ میں ان سوالات کا جواب نہیں دے سکتا، اور اس لیے ہم، بشمول میرے، ہمیشہ ایک ایسی تاریک دنیا کے سائے میں رہیں گے جو ان لڑکیوں کو روشنی فراہم نہیں کر سکے گی جو اس دنیا میں اپنی جگہ تلاش کرنے کی جدوجہد کر رہی ہیں۔