تحریر: نائلہ محسود
24 دسمبر کو پاکستانی فوج نے پاکستان – افغانستان سرحدی صوبے پکتیا میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے مبینہ ٹھکانے کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں تقریباً 71 افراد ہلاک ہوئے۔ تاہم، افغان حکومت کا کہنا ہے کہ مرنے والوں میں اکثریت عام شہریوں کی تھی، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل تھے۔
پاکستان کا دعویٰ ہے کہ ٹی ٹی پی افغانستان میں اپنے اڈوں سے پاکستان کے اندر حملے کرتی ہے۔
پکتیا کے فضائی حملے کے چند دن بعد، جوابی کارروائی میں افغان طالبان نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ڈیورنڈ لائن کے قریب کئی مقامات پر حملہ کیا، جس میں ان کے مطابق 19 پاکستانی فوجی جان سے گئے۔ یہ دعویٰ کابل کی وزارتِ دفاع نے ایک پوسٹ میں کیا۔
تب سے کچھ حد تک سکون دیکھنے میں آیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کتنی دیر بعد کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا؟ کیا ہمیں مغربی سرحد پر بڑی محاذ آرائی دیکھنے کو ملے گی؟
پاکستان میں حالیہ ٹی ٹی پی حملوں کے جواب میں ریاست نے دو طرفہ حکمتِ عملی اپنائی: پہلے داخلی دباؤ ڈال کر یہ پیغام دیا کہ سنگین کشیدگی کو بڑھائے بغیر سخت رویہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے، اتنی کشیدگی پیدا کرنا کہ افغان طالبان قیادت کے ساتھ ٹی ٹی پی کے معاملے پر مذاکرات کے لیے موقع پیدا ہو۔
دوسری جانب افغان حکومت پاکستان کے ٹی ٹی پی سے متعلق خدشات سے اس طرح نمٹ رہی ہے کہ وہ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر رہی ہے، جبکہ پاکستان کے ان دعووں کو بھی مسترد کر رہی ہے کہ ٹی ٹی پی افغان سرزمین سے حملے کرتی ہے۔
دہائیوں تک پاکستان کا افغان طالبان پر اثر و رسوخ رہا لیکن 2021 میں طالبان کے کابل میں اقتدار میں واپس آنے کے بعد حالات نمایاں طور پر بدل چکے ہیں۔ اسلام آباد نے طالبان کے ایک دھڑے، حقانی نیٹ ورک، کے ساتھ نسبتاً مستحکم تعلقات برقرار رکھے ہیں، لیکن یہ دھڑا مبینہ طور پر قندھاری دھڑے سے اختلاف رکھتا ہے، جس کی قیادت افغان طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہبت اللہ اخوندزادہ کر رہے ہیں۔
پاکستانی حملوں نے افغان عوام کے اندر قومی جذبات کو ہوا دی ہے، جو حالیہ دنوں تک طالبان قیادت کے بارے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ عوامی رائے میں اس تبدیلی کا اثر نہ صرف دونوں طرف کے فیصلوں پر پڑتا ہے بلکہ پاکستانی فوج کے بارے میں بین الاقوامی رائے پر بھی اثر انداز ہوتا ہے، جو پہلے ہی اندرونی عدم استحکام اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی تنقید سے متاثر ہے۔
افغان عوام نے پکتیا فضائی حملے کے خلاف احتجاج کیا، مطالبہ کیا کہ عالمی برادری اسلام آباد پر اقتصادی پابندیاں عائد کرے، اور الزام لگایا کہ اس نے بے گناہ شہریوں کو قتل کیا۔ پاکستان پرانے طریقہ کار پر انحصار نہیں کر سکتا، جہاں اسے افغانستان کے قریب ہونے کی وجہ سے امریکی وسطی ایشیائی پالیسی پر اثر ڈالنے کا فائدہ ہوتا تھا۔ خطے سے امریکہ کے بڑے پیمانے پر غائب ہونے کے بعد، پاکستان کو وہی حمایت ملنے کا امکان نہیں، یہاں تک کہ علاقائی ریاستوں سے بھی نہیں۔ خاص طور پر انڈیا کے افغان حکومت کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات پاکستان کے لیے ایک تزویراتی چیلنج پیش کرتے ہیں۔
اگر احتیاط نہ کی گئی تو دونوں فریق توقع سے پہلے خونریزی کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ افغانستان کے نائب وزیر خارجہ عباس محمد ستانکزئی نے حال ہی میں کہا ہے کہ پاکستان کو تکبر سے کام نہیں لینا چاہیے اور اپنے مغربی پڑوسی کو کمتر نہیں سمجھنا چاہیے۔ انہوں نے زور دیا کہ ’افغانستان کے پاس ایسے جنگجو ہیں جو ایٹم بم کی طرح ہیں۔‘
جواب میں، پاکستانی وزیر اعظم نے پکتیا حملوں کو بہادرانہ اقدام سے تشبیہ دی اور ’ٹی ٹی پی کو کچلنے‘ کا عزم ظاہر کیا۔ دونوں طرف کی شدید بیان بازی کے ساتھ، ایسا لگتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ’بھائی چارے کے تعلقات‘ کی چنگاری نمایاں طور پر سلگ کر بجھ چکی ہے۔
بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے اور واپسی کا راستہ محدود ہے، اس لیے پاکستان کو احتیاط برتنی چاہیے اور اپنے تزویراتی مفادات کو قلیل مدتی خطرات پر ترجیح دینی چاہیے۔ مغربی سرحد پر دشمن بنانے اور افغانستان کو علاقائی کھلاڑیوں تک پہنچنے کی اجازت دینا پاکستان کی دہائیوں کی سرمایہ کاری کے لیے ایک بڑا نقصان ہوگا۔ یہ ایک حقیقی دھچکا ہوگا اور ان حقیقتوں کو نظرانداز کرنا تزویراتی بصیرت اور سیاسی وژن دونوں میں ناکامی ہوگی۔
دوسری طرف، افغان حکومت کو اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی نہیں کرنی چاہیے۔ اسے ٹی ٹی پی کے مسئلے کو محتاط انداز میں حل کرنا ہوگا اور اپنے عوام، پڑوسی پاکستان، اور بین الاقوامی برادری پر یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ایک مسلح گروہ کی بجائے ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر مؤثر طریقے سے حکومت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
بشکریہ انڈیپینڈنٹ اردو