سیاسیات- عراقی ذرائع نے حشد الشعبی کو تحلیل کرنے کے لیے مغربی دباؤ کا حوالہ دیتے ہوئے خبر دی ہے کہ آیت اللہ سیستانی اسے یکسر مسترد کر دیا۔
روزنامہ الاخبار نے بتایا ہے کہ عراق کے ایک سرکاری ذریعے نے انکشاف کیا کہ عراقی حکومت کو متعدد بار بین الاقوامی اور علاقائی قوتوں کی جانب سے حشد الشعبی کو تحلیل کرنے کی درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔
ایک اور عراقی ذریعے نے عراق کے امور میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے خصوصی نمائندے محمد الحسان کی نجف اشرف میں آیت اللہ سیستانی سے ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری کے خصوصی نمائندے محمد الحسان کا مقصد نجف اشرف میں شیعوں کے مرجع قدر آیت اللہ سیستانی سے ملاقات کے دوران حشد الشعبی کو ختم کرنے یا اسے دیگر سکیورٹی اداروں میں ضم کرنے کی درخواست کرنا تھا، لیکن آیت اللہ سیستانی نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے نمائندے سے ملنے سے انکار کر دیا۔
ایک عراقی سرکاری ذریعے نے روزنامہ الاخبار کو بتایا: حشد الشعبی کو تحلیل کرنے کا مسئلہ بنیادی طور پر ایک مغربی مطالبہ ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اور اسے خاص طور پر امریکہ نے اٹھایا ہے۔
عراق کے اس سرکاری ذریعے نے بھی کہا: آیت اللہ سیستانی نے پہلی ملاقات میں محمد الحسان کا استقبال کیا۔ اس ملاقات میں خطے کی صورتحال اور عراق کے مفادات کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا تاہم آیت اللہ سیستانی نے دوسری دفعہ ان کی ملاقات کو قبول نہیں کیا۔ بلکہ ان کے استقبال کے لیے اپنے بیٹے سید محمد رضا کو بھیجا اور یہ حشد الشعبی کو تحلیل کرنے کی مغربی درخواست پر ردعمل کا اظہار تھا۔
روزنامہ الاخبار نے اپنی رپورٹ میں مزید لکھا: دو روز قبل السودانی نے حشد الشعبی کی تحلیل کے لیے کسی بھی حکم کی تردید کی تھی، جب کہ یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے یہ خبریں شائع ہو رہی ہیں کہ عراق ایک نئی تبدیلی کے دہانے پر ہے اور یہ اس ملاقات کے بعد ہے جو السوڈانی نے امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ کی تھی۔
انتھونی بلنکن نے بغداد میں ان سے کہا کہ وہ عوامی رضار گروہوں کو تحلیل کر دیں۔
دوسری جانب سودانی کے قریبی ساتھی بہا الاعرجی کا کہنا ہے کہ حشد الشعبی ایک عراقی ادارہ ہے جس کی تحلیل کی بحث درست نہیں ہے۔”