سیاسیات۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے فوجی عدالتوں کی جانب سے نو مئی 2023 کے واقعات میں ملوث افراد کو سنائی گئی سزاؤں کو آئین اور قانون سے متصادم قرار دے کر چیلنج کرنے کا اعلان کر دیا۔
پاکستان فوج نے ہفتے کو ایک بیان میں بتایا تھا کہ نو مئی 2023 کے واقعات میں ملوث 25 افراد کو تمام شواہد کی جانچ پڑتال اور مناسب قانونی کارروائی کی تکمیل کے بعد دو سے 10 سال قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔
نو مئی، 2023 کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی قومی احتساب بیورو (نیب) کے ہاتھوں مبینہ کرپشن کیسز میں گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے دوران آرمی تنصیبات پر حملوں کے ساتھ ساتھ دیگر قومی و نجی املاک کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔ ان واقعات میں ملوث افراد کے خلاف مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کا فیصلہ کیا گیا اور پاکستان فوج نے اپنا موقف واضح کر رکھا ہے کہ ذمہ داران کو آئین کے مطابق سزا دینا پڑے گی۔
ہفتے کو ان سزاؤں کے اعلان کے بعد قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما عمر ایوب خان نے اپنے ویڈیو بیان میں کہا کہ ’دنیا کے کسی بھی مذہب معاشرے میں فوجی عدالتیں سویلنز کا نہ ٹرائل کرتی ہیں، نہ فیصلہ سناتی ہیں۔ آج ملٹری کورٹس نے پاکستان تحریک انصاف کے نہتے لوگوں کے خلاف جو فیصلہ سنایا ہے یہ بہت سیاہ ترین فیصلہ ہے۔ اس کی مثال نہیں ملتی اور یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس کو ہم مسترد کرتے ہیں اور مذمت کرتے ہیں۔ ‘
عمر ایوب خان نے کہا کہ ’آپ پاکستان کے آئین کا مطالعہ کریں اور آرٹیکل سات پڑھیں تو اس میں ریاست کی تعریف واضح طور پر لکھی ہوئی ہے۔ ریاست کہتے ہیں مجلس شوریٰ کو، جس میں قومی اسمبلی اور سینیٹ آتے ہیں اور پھر وفاقی حکومت، اس کے بعد صوبائی حکومت اور اسمبلیاں، پھر وہ ادارے جو ٹیکس نافذ کرتے ہیں۔ اس کے بعد مسلح افواج، کوسٹ گارڈز، رینجرز، فائر بریگیڈ، پولیس وغیرہ، جو ریاست کے تابع ہوتی ہیں۔‘
بقول عمر ایوب: ’مسلح افواج جو ریاست کے تابع اور اس کے اوزار ہوتی ہیں، وہ کیسے فیصلہ سنا سکتی ہیں۔ وہ کیسے عدلیہ کی ذمہ داریاں اپنے کندھوں پر لے سکتے ہیں۔ اگر وہ سویلنز، نہتے شہریوں کے خلاف ایک عام کورٹ کے فیصلے سنانے شروع کر دے تو یہ قانون کی دھجیاں اڑا رہے ہیں، یہ آئین کی دھجیاں اڑ رہی ہیں اور معاشرہ اس طرح ترقی نہیں کر سکتا۔
’یہی وہ فیصلے ہیں، جن کی وجہ سے پاکستان میں قانون کا فقدان ہے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں ہو رہی۔
’ہم اس فیصلے کو مسترد کرتے ہیں۔‘ ساتھ ہی انہوں نے سپریم کورٹ کے پی ایل ڈی 1999 / 504 فیصلے کا حوالہ بھی دیا، جس میں بقول ان کے ’عدلیہ کے بارے میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے۔‘
عمر ایوب نے کہا کہ ’فری اینڈ فیئر ٹرائل ہونا چاہیے، فوجی عدالتوں میں جو وکلا تھے، انہیں واقعات کی فوٹیجز بھی دستیاب نہیں تھیں، وہ منظر عام پر نہیں لائی گئیں۔ یہ یک طرفہ فیصلہ انسانی حقوق کے خلاف ہے اور ہم اسے مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔‘
اپنے ایک اور پیغام میں عمر ایوب خان نے کہا کہ شہریوں کے خلاف مقدمہ چلانے اور سزا سنانے والی فوجی عدالتیں دراصل ’کینگرو عدالتیں‘ ہیں۔
پاکستانی فوج نے گذشتہ روز اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’نو مئی، 2023 کو قوم نے سیاسی طور پر بڑھکائے گئے اشتعال انگیز تشدد اورجلاؤ گھیراؤ کے افسوس ناک واقعات دیکھے جو ’پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ باب‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’اس یوم سیاہ کے بعد تمام شواہد اور واقعات کی باریک بینی سے تفتیش کی گئی اور ملوث ملزمان کے خلاف ناقابلِ تردید شواہد اکٹھے کیے گئے۔
’کچھ مقدمات قانون کے مطابق فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے لیے بھجوائے گئے، جہاں مناسب قانونی کارروائی کے بعد ان مقدمات کا ٹرائل ہوا۔‘
آئی ایس پی آر نے اپنے بیان میں کہا کہ ’13 دسمبر 2024 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے سات رکنی آئینی بینچ نے زیر التوا مقدمات کے فیصلے سنانے کا حکم صادر کیا، وہ مقدمات جو سپریم کورٹ کے سابقہ حکم کی وجہ سے التوا کا شکار تھے۔‘
آئی ایس پی آر کا مزید کہنا تھا کہ ’دیگر ملزمان کی سزاؤں کا اعلان بھی ان کے قانونی عمل مکمل کرتے ہی کیا جا رہا ہے۔‘