دسمبر 22, 2024

عظیم حق کا فیصلہ کون کرے گا؟

تحریر: قادر خان یوسفزئی

آزادی اظہار رائے ایک ایسا جمہوری حق ہے جسے ہر انسان کو اپنی آواز بلند کرنے، خیالات کا اظہار کرنے، اور معاشرتی مسائل پر بحث کرنے کی اجازت ملنی چاہیے۔ یہ حق کسی بھی مہذب معاشرت کا بنیادی جزو ہے اور ہر فرد کو اپنے خیالات، عقائد، اور نظریات کے اظہار کی آزادی دیتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس عظیم حق کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے، اور آزادی اظہار رائے کے نام پر ایک زہر کا پھیلاؤ شروع ہو چکا ہے جو معاشرتی ہم آہنگی کو تباہ کر رہا ہے۔ اس عمل میں سیاسی، مالی، اور ذاتی مفادات کے حامل عناصر اپنی سیاست کو چمکانے اور معاشرتی تقسیم کو گہرا کرنے کے لیے اس طاقتور پلیٹ فارم کا استعمال کر رہے ہیں۔ آج کل سوشل میڈیا ایک ایسا میدان بن چکا ہے جسے جھوٹ، نفرت، اور بدنیتی پر مبنی معلومات پھیلانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ جعلی خبروں کا بازار اس قدر گرم ہو چکا ہے کہ سچ اور جھوٹ کی تمیز کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر سرگرم افراد ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلتے ہیں، اور اس زہر کے اثرات نہ صرف افراد کی ذاتی زندگیوں پر پڑتے ہیں بلکہ پورے معاشرتی ڈھانچے کو بھی کمزور کر دیتے ہیں۔ ایک نیا قسم کا جنگی ماحول پیدا کیا جا رہا ہے، جہاں الفاظ کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اور معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔
آزادی اظہار رائے کا حقیقی مقصد سچائی کو اجاگر کرنا اور معاشرتی ترقی میں مدد دینا ہوتا ہے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ یہ عظیم حق اب بد تمیزی  اور ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم بن چکا ہے جہاں ہر دوسرا شخص خود کو جج، جیوری، اور جلاد سمجھ بیٹھا ہے، اور اس کا نتیجہ معاشرتی تقسیم کی صورت میں نکل رہا ہے۔ اس غیر ذمہ دارانہ رویے کی بدولت معاشرت میں عدم برداشت، انتہا پسندی  اور اشتعال انگیزی کی فضا پیدا ہو چکی ہے۔ اس امر کو سمجھنا ہوگا کہ آزادی اظہار رائے کو آزادی بد تمیزی میں تبدیل کرنے سے نہ صرف جمہوریت کی روح متاثر ہوتی ہے بلکہ پورا معاشرتی تانے بانے بھی کمزور ہو جاتے ہیں۔  گالم گلوچ کی سیاست اور فیک نیوز کے ذریعے عوام کے جذبات کو مشتعل کرنا ایک معمول بن چکا ہے، جس کے نتیجے میں نفرت اور تقسیم کے بیج پورے معاشرے میں پھیل رہے ہیں۔سول نافرمانی کی تحریکیں جب جھوٹ اور نفرت کی بنیاد پر چلائی جاتی ہیں، تو وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ اس قسم کی تحریکیں نہ صرف ریاستی اداروں کو نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ معاشرتی ڈھانچے کو بھی کمزور کرتی ہیں۔ عوام کو اشتعال دلا کر سڑکوں پر لانا، گالم گلوچ کی سیاست کو فروغ دینا، اور قانون کی خلاف ورزی کو بطور حق پیش کرنا، اس سے کسی قوم کو فائدہ نہیں پہنچتا۔ یہ سب کچھ آزادی اظہار رائے کے پردے میں کیا جا رہا ہے، جہاں جھوٹ بولنے اور نفرت پھیلانے کو جمہوریت کا حصہ سمجھا جا رہا ہے۔
کچھ افراد مخصوص ایجنڈے کے تحت سیاستدانوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس استعمال کر رہے ہیں، جو خود جیل میں قید ہیں یا کسی اور وجہ سے آن لائن موجودگی نہیں رکھ سکتے۔ جب کسی سیاسی قائد کی جسمانی موجودگی نہیں ہوتی، تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے جاری ہونے والے بیانات اور پالیسیز کا اصل ماخذ کون ہے؟ کیا یہ بیانیے ان قائدین کے اصل خیالات ہیں یا کسی خفیہ ایجنڈے کا حصہ ہیں؟۔یہ صورتحال نہ صرف اخلاقی طور پر غلط ہے بلکہ قومی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔ ایسے اکاونٹس کا بیرون ملک سے ہینڈل کیا جانا اس امر کو مزید پیچیدہ بناتا ہے کہ ان اکاونٹس سے جاری ہونے والے بیانات کے پیچھے کون سے افراد یا گروہ ہیں، اور کیا ان بیانیوں کا مقصد اصل سیاسی قائد کے خیالات کی عکاسی کرنا ہے یا پھر کسی اور ایجنڈے کو فروغ دینا ہے؟ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جہاں اطلاعات کی شفافیت اور حقیقت کی تصدیق ایک چیلنج بن چکا ہے۔ اس کے علاوہ، ایسے اکاونٹس کا موثر طریقے سے انتظام اور نگرانی کرنا اہم ہو چکا ہے تاکہ عوام کو گمراہ کرنے اور اشتعال دلانے کے بجائے سچائی اور مثبت مکالمہ فراہم کیا جا سکے۔ حکومت اور ریاستی اداروں کی جانب سے ایسے اکاونٹس کی شناخت اور ان پر قابو پانے کے لیے ٹھوس قانون سازی اور ان پر عمل درآمد ناگزیر ہے۔
کامیاب پالیسی کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ سوشل میڈیا پر پھیلنے والی غلط معلومات کو روکا اور اس پلیٹ فارم کا استعمال معاشرتی مفاد کے لیے کیا جائے۔ اس کے لیے ایک مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے جس میں سوشل میڈیا کمپنیاں، حکومتیں، اور دیگر ادارے مل کر کام کریں۔ اس کے علاوہ، عوام کو اس بارے میں آگاہی دینا کہ وہ کس طرح جھوٹے بیانیوں کا شکار ہو سکتے ہیں اور ان معلومات کو کس طرح پہچان سکتے ہیں، ایک ضروری قدم ہوگا۔ مجموعی طور پر، ہمیں اس امر کو سمجھنا ہوگا کہ آزادی اظہار رائے کا مقصد صرف جھوٹ بولنا یا نفرت پھیلانا نہیں، بلکہ ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کرنا ہے جہاں سچائی، انصاف، اور برداشت کا جذبہ ہو۔ اس بڑھتی ہوئی پریشانی کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت اور ریاستی اداروں کو ایک جامع اور موثر حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ اس ضمن میں خصوصی امر یہ ہے کہ نفرت انگیز بیانات، جعلی خبروں، اور معاشرتی تقسیم کے بیج بونے والوں کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں۔ یہ اقدامات سوشل میڈیا تک محدود نہیں رہنے چاہیے، بلکہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہر قسم کے منفی رویے کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔
ایک مؤثر حکمت عملی کے لیے قانون سازی ناگزیر ہے تاکہ معاشرے میں نفرت پھیلانے والے عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جا سکے۔ سوشل میڈیا پر مثبت اثرات مرتب کرنے کے لیے اہم ہے کہ ان عناصر کو روکا جائے جو اس پلیٹ فارم کو نفرت کے بازار میں تبدیل کر چکے ہیں۔ لوگوں کو یہ سکھایا جائے کہ وہ کیسے جعلی خبروں اور نفرت پھیلانے والی مواد کو پہچان سکیں اور اس سے بچ سکیں۔ یہ آگاہی نہ صرف سوشل میڈیا کے صارفین کی ذمہ داری بنتی ہے بلکہ ریاست اور تعلیمی اداروں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نوجوانوں کو اس بارے میں تعلیم دیں۔ آزادی اظہار رائے کا مقصد جھوٹ بولنا، زہر اگلنا، اور معاشرے کو تقسیم کرنا نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد سچائی اور مثبت تبدیلی کو فروغ دینا ہے۔ جھوٹ اور نفرت کی سیاست کے خاتمے کے بغیر ایک مستحکم اور خوشحال پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ اگر ہم نے اس چیلنج کا مقابلہ نہ کیا تو آنے والی نسلوں کے لیے اس کا اثر بہت سنگین ہوگا۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

fourteen + three =