تحریر: انصار عباسی
عمران خان اگر اپنے سوشل میڈیا اور بیرون ملک بیٹھے حامیوں کے ایک مخصوص گروہ کو فوج مخالف پروپیگنڈے اور سیاست میں نفرت کو بڑھانے کے عمل سے سختی سے نہیں روکتے تو اُن کے مسائل کم ہونے والے نہیں۔
تحریک انصاف کا کوئی دوسرا رہنما یہ کام نہیں کر سکتا۔ بہت سے پارٹی رہنما سمجھتے ہیں کہ یہ سب غلط ہو رہا ہے، اس سے عمران خان اور پارٹی دونوں کو نقصان ہو رہا ہے، اُن کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں لیکن ہر کوئی ڈرتا ہے کہ اگر وہ کوئی ایسی بات کرتے ہیں تو تحریک انصاف کا سوشل میڈیا اور باہر بیٹھے حامی جن میں یوٹیوبرز اور کچھ پارٹی لیڈرز بھی شامل ہیں وہ اُن کے پیچھے پڑ جائیں گے اور اُن کیلئے مشکلات بڑھ جائیں گی۔
پارٹی رہنما جانتے ہیں کہ اگر عمران خان اس سلسلے میں اپنے سوشل میڈیا اور اوورسیز ورکرز اور فالورز کو واضح انداز میں روکتے ہیں تو اس سے بڑی بہتری کا رستہ نکل سکتا اور یہ بہتری عمران خان اور پارٹی دونوں کے فائدے میں ہو گی، پر ایسا ہو نہیں رہا، عمران خان سے کون یہ بات کرے؟
اُن کو کون سمجھائے؟ یہ سب سے بڑا چیلنج ہے۔ باہر بیٹھے لوگ جو آگ پر تیل چھڑکنے کا کام کر رہے ہیں، تحریک انصاف کا سوشل میڈیا جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا اُس نے ایسے پارٹی رہنماوں کیلئے یہ ناممکن بنا دیا کہ وہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان لڑائی کو ختم کرنے کیلئے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔
یہاں تو یہ حال ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین، سیکریٹری جنرل اور دوسرے اہم ذمہ داران کا تحریک انصاف کے آفیشل سوشل میڈیا پر کوئی کنٹرول نہیں۔ یہ رہنما تو اس پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں کہ نجانے پارٹی کا آفیشل سوشل میڈیا حتیٰ کہ عمران خان کے اپنے ٹیوٹر اکاونٹ پر کیا پوسٹ لگا دے؟
تحریک انصاف کا وہ سوشل میڈیا جس کو عمران خان اپنی طاقت سمجھتے تھے وہ دوسروں کے ساتھ ساتھ خود اُن کیلئے سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ اگرپارٹی کے سوشل میڈیا پر کوئی جھوٹا پروپیگنڈابھی چلا دیا گیا کسی پارٹی رہنما کی جرات نہیں کہ وہ حقیقت بھی بیان کرسکے۔ گویا یا تو خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے یا پھر اس انداز میں بات کی جاتی ہے کہ سوشل میڈیا پیچھے نہ پڑ جائے۔ تحریک انصاف کے ایک اہم رہنما نے مجھے بتایا کہ پارٹی رہنماوں کیلئےاب سب سے بڑا خطرہ پارٹی کا اپنا سوشل میڈیا اور ایسے جذباتی ورکرز بن چکے ہیں جن کی مرضی کے خلاف اگر کوئی بات کر دی جائے تو بات کرنے والے کو غدار قرار دیا جاتا ہے، اُس کی ٹرولنگ ہوتی ہے بلکہ اُن کو ہراساں کیا جا سکتا ہے۔ اس رہنما کا کہنا تھا کہ ہمارا سب سے بڑا خوف اب اندرونی ہے۔
یہ وہ خوف ہے، یہ وہ ڈر ہے جس نے تحریک انصاف کو سیاستدانوں سے بات چیت کرنے سے روک رکھا ہے، یہ وہ ڈر اور خوف ہے جس کی وجہ سے پارٹی رہنما چاہتے ہوئے بھی اپنے نام کے ساتھ میڈیا کے سامنے اپنے سوشل میڈیا اور بیرون ملک بیٹھے حامیوں کے ایک گروہ کے فوج مخالف پرپیگنڈے کے خلاف بات نہیں کرتے۔ اس خوف اور ڈر سے پارٹی رہنماوں کو صرف اور صرف عمران خان ہی نکال سکتے ہیں لیکن وہ ابھی تک ایسا نہیں کر رہے اور جس سے سب سے زیادہ نقصان خود اُن کا اپنا ہی ہو رہا ہے۔