تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
دنیا بھر کے مسلمان غزہ اور لبنان جنگ کی وجہ سے پریشان تھے اور اہلیان غزہ اور لبنان کے لیے دعائیں کر رہے تھے۔ حزب اللہ نے اسرائیل کی ناک میں دم کر دیا تھا۔اس کے اثرات دیکھے جا رہے تھے اور حزب اللہ کے حملے تل ابیت تک پہنچ رہے تھے، امریکہ اور یورپ پریشان تھا کہ اب کیا ہوگا۔؟ حزب اللہ اسرائیل کو مذاکرات پر لے آئی تھی۔ جنگ کا ہر دن اسرائیل پر بھاری پڑ رہا تھا۔ ایسے میں پالیسی تبدیل ہوتی ہے اور مفافقت کے پرانے ہتھیار کو استعمال کیا جاتا ہے۔ امریکہ، اسرائیل اور ترکی کا اتحاد بنتا ہے، جس نے پشت پر حملہ کیا۔ وہ تلواریں جو اہل فلسطین کی حمایت کے لیے نہ اٹھ سکیں، وہ اپنے مسلمان بھائیوں کی گردنیں کاٹنے کے لیے اٹھا لی گئیں۔ جب شام، ایران اور اس کے تمام اتحادی گروہ اہل غزہ کی حمایت میں یکسو تھے تو یہ وار کیا گیا۔
اب صورت حال یہ ہے کہ شام میں تکفیریت، القاعدہ اور دیگر تمام گروہ اردوگان کی پشت پناہی میں شامی ریاست اور ان گروہوں پر حملہ آور ہیں، جو غزہ کے مظلومین کے دفاع میں سینے پیش کر رہے ہیں۔ ان بدبختوں اور ان کے حمایتیوں کو شرم بھی نہیں آتی کہ جب غاصبوں سے جنگ ہو رہی ہے، تم ان سے نہیں لڑ سکتے تو جو ان سے لڑ رہے ہیں، ان پر حملے نہ کرو۔ پہلے تو ترکی اسرائیل کی سپلائی لائن بنا ہوا ہے، یہاں تک کہ براہ راست لوگ اسرائیل کی حمایت میں لڑنے بھی گئے ہیں، جس پر ترکی میں کافی ہنگامے بھی ہوئے اور اپوزیشن جماعتوں نے کافی واویلا کیا۔ اب اسلامی خلافت کے دعویدار اردوگان نے بجھی آگ جلائی ہے اور منافقت کا مظاہرہ کیا ہے، تاریخ لکھی جا رہی ہے، کون کہاں کھڑا ہے، یہ واضح ہو رہا ہے۔ نیتن یاہو اردوگان اتحاد کا عملی اتحاد ہوگیا۔
چند دن پہلے اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ شام سپلائی لائن بند کرے، ورنہ اسے اس کی سزا دی جائے گی۔ اس کے بعد یکدم مرے ہوئے تکفیری گروہوں میں جان پڑ گئی اور وہ ترک بارڈر سے حلب کی طرف بڑھنا شروع ہوگئے۔ یاد رکھیں، جب پوری شامی ریاست اور اس سے وابستہ گروہ اہل غزہ کی مدد میں مصروف تھے، اردوگان اور اسرائیلی وزیراعظم نے مال، اسلحہ اور سپاہی فراہم کرکے حلب کی بربادی کا منصوبہ بنایا۔ یہ دراصل اسرائیل کے تحفظ کا منصوبہ ہے، وہ چاہتے ہیں کہ حزب اللہ اور دیگر مزاحمتی گروہوں کو باہم لڑا دیا جائے اور ان کی افرادی قوت اور اسلحہ کو یہاں ضائع کیا جائے۔
آج یہاں مخصوص فرقہ پرست جشن منا رہے ہیں، آپ بتائیں کہ جب معاملہ اسرائیل جیسی سفاک ریاست کے ساتھ تھا، ایسے میں پشت سے وار کس مقصد کے لیے کیا گیا۔؟ آپ بتائیں ایسے میں کون مسلک اور ملکی مفاد سے بڑھ کر سوچے گا؟ جب انہیں معلوم ہوگا کہ ہمیں دشمن سے الجھا کر پشت سے منافقانہ وار کیا جاتا ہے۔؟ جو پہلے اسرائیل سے برسرپیکار تھے، اب ان تکفیری، اسرائیلی اور ترک ایجنٹوں سے لڑیں گے۔ ایک بار پھر خون بہے گا، آگے بڑھتا حلب پھر دہائیوں پیچھے چلا جائے گا۔ ان کو سمجھ نہیں آتی، یہ امریکی اور اسرائیلی منصوبہ ہے، جس میں اردوگان شامل ہے کہ اہل غزہ اور اہل لبنان کی سپلائی لائن کاٹ دی جائے۔ ترکی اور کچھ مقامی گروہ امریکی اور اسرائیلی مزور ہیں۔
ترکی ہی پہلے خلافت کا نعرہ لگا رہا تھا اور اب اسرائیل کے لیے سبزیاں تک ترکی فراہم کر رہا ہے۔ اسلحہ بنانے کے لیے لوہا تک ترکی سے جا رہا ہے۔ اہل غزہ کے یہ قاتل اب اہل شام کو دوبارہ برباد کرنے نکلے ہیں۔ بس تاریخ یہی ہے دوستو، جو آج جہاں کھڑا ہے، تاریخ میں یہی پوزیشن رہی ہے۔ جنہیں آج سورج سے روشن حقائق نظر نہیں آرہے، وہ تاریخ میں خاک دیکھیں گے۔ جب جوابی کارروائی ہوگی تو پھر واویلا ہوگا۔ یاد رکھیں، جنگ بری چیز اور وہ جنگ جو آپ دشمن کی خواہش اور اس کے مزدور بن کر لڑ رہے ہوتے ہیں، وہ تو آپ کے لیے ہر صورت میں بری ہوتی ہے۔ یاد رکھیں، اسرائیل، امریکہ، ترکی اور ان کے مقامی اتحادیوں کے شام پر حملے میں تبدیلی یہ آئی ہے کہ دہشتگرد ترکی کے پرچم لہرا رہے ہیں اور عرب ممالک شام کی طرف نظر آرہے ہیں۔
عرب ترک تنازعے کی ایک تاریخ ہے۔ اردوگان عربوں پر ترکوں کے تسلط کو امریکی اسرائیلی مدد سے قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عرب اب اس معاملے کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں۔ کل تک یہی اردوگان بشار الاسد سے کہہ رہا تھا کہ صلح کرتے ہیں اور تعلقات بحال کرتے ہیں۔ اس وقت بھی بشار الاسد نے درست کہا تھا کہ شام سے ترکی کی فوجیں نکل جائیں، ہم مل کر بیٹھیں گے، جب تک تمہاری فوجیں ہماری زمین پر ہیں، ملاقات نہیں ہوسکتی اور تعلقات بھی نارمل نہیں ہوں گے۔ اردوگان نے غزہ جنگ میں اپنی پوری قیمت وصول کی ہے۔ پہلے سامان بیچ کر کمایا اور اب یہ چاہتا ہے کہ حزب اللہ اور دیگر مقاومتی فورسز پر جنگ مسلط کرکے یورپ سے کمائے اور اپنی گرتی معیشت کو سہارا دے۔
کاش ترکی یہ حملے اسرائیل پر کرتا اور یہ پراکسیاں اسرائیل کے خلاف بناتا۔ اپنی صلاحیتوں کو قبلہ اول کو آزاد کرانے کے لیے استعمال کرتا۔ یاد رکھیں، یہ مسئلہ کہیں سے بھی فرقہ وارانہ نہیں ہے، اسے مسلکی تناظر سے دیکھنا درست نتیجہ نہیں دے گا۔ رعائت اللہ فاروقی نے بہت خوب لکھا ہے: ہم جانتے ہیں کہ ہمارے بعض خوش فہم مذہبی قارئین کو یقین نہ آئے گا کہ ترکی اسرائیل کی مدد کرسکتا ہے۔ انہیں یہی لگے گا کہ ہم السلطان المسلم طیب اردوگان ظل اللہ فی الارض کی توہین کر رہے ہیں۔ وہ ایسا کیسے فرما سکتے ہیں۔؟ وہ تو عصر حاضر کے خلیفہ راشد ہیں۔ سو عرض کر دیں کہ آپ کو اس پر حیرت ہوسکتی ہے، ہمیں نہیں۔
کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ عرب ممالک میں سے بعض نے تو شدید امریکی دباؤ پر اسرائیل کو تسلیم کیا تھا، جبکہ ترکی نے یہ کار خیر کسی دباؤ اور مطالبے کے بغیر ہی فرما لیا تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ سالہا سال سے اسرائیلی فوج کی ٹریننگ میں بھی یوں خفیہ مدد کر رہا ہے کہ اسرائیلی فوج لانگ رینج ہتھیاروں کی ٹریننگ اسرائیل میں نہیں کر پاتی، کیونکہ اس کے پاس وسیع زمین ہی نہیں ہے۔ چنانچہ اس کی فوج کو ٹریننگ کی یہ سہولت ترکی اپنی سرزمین پر فراہم کرتا ہے۔ اب یہ آپ سوچئے کہ اسرائیلی فوج “عثمانی سرزمین” پر جو ٹریننگ حاصل کرتی ہے، وہ کن کے خلاف استعمال ہوتی ہے۔؟ اس ٹریننگ کی مدد سے اس نے کن کو مارنا ہوتا ہے۔؟