تحریر: قادر خان یوسف زئی
انٹرنیٹ کی بندش ہونے پر یہ خبر یوں پھیل جاتی ہے جیسے کسی نے پورے ملک میں آکسیجن کی فراہمی بند کرنے کا عندیہ دے دیا ہو۔ لوگ اپنی ہنستی کھیلتی زندگیوں کو یوں دیکھنے لگتے ہیں جیسے وہ کسی گہرے کنویں میں گر گئے ہوں جہاں نہ کوئی روشنی تھی، نہ آواز، نہ امید۔ انٹرنیٹ کی غیر موجودگی میں ملک کا ہر شہری ایسے ہڑبڑاتا ہے جیسے وہ کسی ویرانے میں بھٹک رہا ہو۔ جنہیں صبح کی پہلی خبر اپنی نیوز ایپ سے ملتی تھی، وہ اچانک پڑوسیوں سے خبریں پوچھنے پر مجبور ہو گئے اور خبر کا اعتبار یوں کرتے جیسے یہ کسی قدیم صحیفے سے نکلا ہو۔ سب سے زیادہ اثر ان نوجوانوں پر ہوتا ہے جو انسٹاگرام کے ریلز اور ٹک ٹاک کے بغیر ایک پل بھی نہیں گزار سکتے۔ وہ اب گھروں کے در و دیوار کو یوں گھور تے ہیں جیسے وہ ان سے باتیں کرنے والے ہوں۔ جنہیں اپنا ہر کھانے کا لقمہ اپ لوڈ کرنا ہوتا تھا، وہ اچانک سوچنے لگے کہ کھانے کا ذائقہ بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ہر وہ لڑکی اور لڑکا جو ”ایک نئی پوسٹ، ایک نیا لائیک“ کی دوڑ میں تھا، اچانک آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر خود کو دیکھتا ہے، اور حیرانی سے پوچھتا ہے کہ ”کیا میں واقعی اتنا برا ہوں؟“۔
انٹرنیٹ کی بندش سے احتجاجی مظاہرے روکنے کا خیال ایسا ہی ہے جیسے آگ بجھانے کے لیے بارش کا انتظار کرنا یا بھوکے کو یہ مشورہ دینا کہ کھانا چھوڑ دو تاکہ پیٹ خود سکون میں آجائے، یہ سوچ ہی غلط ہے کہ اگر انٹرنیٹ بند کر دیا جائے تو مظاہرین الجھن میں پڑ جائیں گے، اپنے احتجاج کا مقام بھول جائیں گے، اور اچانک اپنے موبائل میں ”نیٹ ورک ناٹ ایویلیبل“ دیکھ کر گھروں کو واپس لوٹ جائیں گے۔ تصور کریں کہ مظاہرین کا ایک گروہ چوک پر جمع ہوتا ہے۔ کسی نے اپنے موبائل پر لائیو سٹریمنگ شروع کرنی چاہی، لیکن انٹرنیٹ غائب۔ وہ دل برداشتہ ہو کر نعرے لگانے لگے کہ ”وائی فائی دو، راستہ دو!“۔ حکومت کو لگتا ہے کہ انٹرنیٹ بندش سے معلومات کی ترسیل رک جائے گی اور مظاہرین ایک دوسرے سے رابطہ نہ کر پائیں گے۔ لیکن وہ یہ بھول جاتی ہے کہ مظاہرین کے پاس اب بھی کبوتر، ڈھول، اور ہمسائیوں کی مدد کا آپشن موجود ہے۔ بلکہ ایک بار تو مظاہرین نے انٹرنیٹ بندش پر احتجاج کرتے ہوئے ڈھول کے ذریعے نعرے بازی کی کہ ”حکومت جاگے گی، انٹرنیٹ لائے گی!“ ڈھول کی آواز اس قدر بلند تھی کہ حکومت کو مجبوراً انٹرنیٹ بحال کرنا پڑا تاکہ عوام شور بند کریں۔
دوسری جانب، مظاہرین انٹرنیٹ کے بغیر زیادہ تخلیقی بن گئے ہیں۔ کچھ نے تو موبائل کے سگنل ڈھونڈنے کے لیے سڑک پر احتجاج کیا، اور ان کے ہاتھ میں ایک پلے کارڈ تھا جس پر لکھا تھا” ہم یہاں انٹرنیٹ کے لیے کھڑے ہیں، نہ کہ تمہاری پالیسی کے لیے!“۔مزید یہ کہ، انٹرنیٹ بندش کے دوران لوگوں نے پرانے طریقے اختیار کر سکتے ہیں۔ جس میں پیغام دینے کے لیے کالے دھویں کا استعمال، اور سڑکوں پر آگ جلا کر نشانیاں بنانا تاکہ دوسرے مظاہرین راستہ بھولنے کی بجائے سیدھا احتجاجی مقام پر پہنچ سکیں۔
حکومت کی حکمت عملی یہ ہے کہ انٹرنیٹ بند کر کے عوام کو بے خبر رکھا جائے، لیکن وہ یہ بھول جاتی ہے کہ بے خبری کبھی مسائل کا حل نہیں۔ مظاہرین، جنہیں پہلے صرف حکومت کے فیصلوں پر اعتراض تھا، اب انٹرنیٹ بندش کو ایک ذاتی مسئلہ سمجھتے ہیں۔ اب یہ احتجاج نہ صرف سیاسی ہے بلکہ ذاتی اور معاشرتی بھی ہو گیا ہے۔ احتجاج کو روکنے کے لیے انٹرنیٹ کی بندش کے بجائے، عوام کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے تو شاید حکومت اور عوام دونوں کا وقت اور توانائی بچ سکے۔ ورنہ احتجاجی نعروں میں ”نیٹ بحال کرو” کا اضافہ ہوتا رہے گا اور حکومت کو یہ نعرے سننے کے لیے کان بند کرنے کا بھی بندوبست کرنا پڑے گا۔ کاروباری طبقہ، جو آن لائن ای میلز اور زوم میٹنگز کے ذریعے اپنے معاملات چلاتا تھا، اچانک دفاتر میں بیٹھا خالی کاغذوں پر پلان بناتا دکھائی دے گا۔ باسز کو احساس ہوگا کہ ماتحتوں کو دھمکیاں دینے کے لیے ای میل نہیں بلکہ براہ راست سامنا کرنا پڑے گا، اور ملازمین بھی اپنے باسز کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہنے کی ہمت کی ”سر، کوئی اور کام دے دیں، نیٹ تو ہے نہیں“۔ آن لائن شاپنگ کے شوقین، جو ایک کلک پر سامان خریدتے تھے، بازار میں لائنیں لگا کر انہیں بھی بغیر کسی ڈسکاؤنٹ کے سودا خریدنا ہوگا۔
سیاستدان جب انٹرنیٹ بندش کے فیصلے کو اپنی بڑی کامیابی قرار دیتے ہیں کہ انٹرنیٹ بند کر کے دہشت گردی کو روکا جا رہا ہے تو، لوگ حیران تھے کہ کیا دہشت گرد واقعی فیس بک لائیو پر حملے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں؟ کیا ان کے بموں میں وائی فائی کنکشن لگتا ہے؟ یا شاید دہشت گردوں کو پیغام رسانی کے لیے گوگل میٹ استعمال کرنا ہوتا ہے؟ اگر یہی حقیقت ہے، تو پھر انٹرنیٹ بند کرنے کی بجائے، انہیں سست انٹرنیٹ فراہم کر دینا چاہیے، تاکہ وہ ہمیشہ ”لوڈنگ“ کی کیفیت میں رہیں اور حملہ کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔ سب سے زیادہ نقصان انٹرنیٹ کے ذریعے کام کرنے والے فری لانسرز کا ہوا، جن کا روزگار بند ہو گیا۔ وہ انٹرنیٹ کی بحالی کے منتظر ایسے بیٹھے تھے جیسے کسان بارش کے لیے دعا کرتا ہے۔ کسی نے یہ کہہ دیا کہ انٹرنیٹ ایک دن بعد بحال ہوگا، تو لوگ ایسے خوش ہوئے جیسے کسی قیدی کو رہائی کی خبر مل گئی ہو۔ مگر جب بحالی میں تاخیر ہوئی، تو فری لانسرز نے یہ سوچنا شروع کر دیا کہ شاید انہیں اب کسی اور ہنر، مثلاً کپڑے سلائی یا بکریاں پالنے، کا کام سیکھنا ہوگا۔
دوسری طرف، حکومتی مشینری اس فیصلے کی کامیابی کے گن گانے میں مصروف تھی۔ مختلف وزراء نے انٹرنیٹ کی بندش کو قومی سلامتی کا اہم قدم قرار دیا اور عندیہ دیا کہ اگر یہ تجربہ کامیاب رہا تو مستقبل میں دیگر مسائل کو بھی ایسے ہی حل کیا جائے گا۔ مثلاً، اگر بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنی ہو تو ٹی وی بند کر دیں، پانی کی قلت ہو تو باتھ روم بند کر دیں، اور اگر معیشت کا مسئلہ ہو تو بینک بند کر دیں۔ اس پر کسی نے سوشل میڈیا پر طنز کیا،”اگر مسئلے ایسے ہی حل ہوتے ہیں تو کیوں نہ سانس لینا بھی بند کر دیا جائے تاکہ آلودگی کا مسئلہ بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے!“۔عوام اب سوچ رہی تھی کہ انٹرنیٹ کی بندش کا اگلا قدم کیا ہوگا۔ کیا حکومت ہر مہینے ایک ”ڈیجیٹل بلیک آؤٹ ڈے” کا اعلان کرے گی؟ یا شاید ہر سال ایک پورا ہفتہ ”آف لائن نیشنل ڈے“ کے طور پر منایا جائے گا، جہاں لوگ موبائل اور انٹرنیٹ سے دور، دیہاتی زندگی کی مشق کریں گے۔