نومبر 23, 2024

عجز و بزدلی کی ایک اور مثال

تحریر: علی سردار سراج

دنیا میں ایک ہی مکتب ہے ” مکتب اہل بیت علیهم السلام “جس کے مقتل نامے لکھے گئے۔

یہ مقتل نویسی جہاں پيروان مکتب اہل بیت علیهم السلام کی شجاعت، حریت اور مظلومیت کی داستان ہے، وہاں اس بات کی بھی گواہ ہے کہ ان کا دشمن نہایت بزدل اور کمزور ہے ۔

یہ بزدل لوگ زر، زور اور تزویر کے ذریعے حکومت اور قدرت تک تو پہنچ جاتے ہیں لیکن ممکن نہیں ہے کہ وہ پيروان مکتب آل اللہ کو خرید سکیں یا ڈرا سکیں،لہذا یہ ناتوان اور بزدل دشمن صرف ظلم و جبر کی داستانیں ہی رقم کر سکتا ہے۔

ظلم کی ہر داستان کے بعد ان کی رسوائی میں ہی اضافہ ہوا ہے۔

نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ یزید کے پیروکار بھی یزید اور یزیدیت سے اپنی نسبت کا انکار کرتے ہیں۔

جبکہ مظلوم حسینوں کو نہ فقط اس بات پر کوئی عار نہیں کہ ان کی نسبت حسین ابن علی سے ہے بلکہ وہ اس نسبت پر فخر کرتے ہیں۔

جنایت کاروں کا مذہب اور مسلک واضح ہونے کے باوجود نا معلوم رہتا ہے۔ کیونکہ کسی میں یہ جرات نہیں ہوتی ہے کہ ان سے نسبت کا اظہار کرے، لہذا ہر کوئی یہی کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں۔

حقیقت امر یہ ہے کہ ان کا مذہب بھی ہے ، اس مذہب کی تبلیغ و ترویج کرنے والے مولوی بھی اور مساجد بھی ہیں۔ نیز انکی مالی مدد کرنے والے افراد اور ادارے بھی، لیکن ان کے جرائم اتنے سنگین ہوتے ہیں کہ کوئی بھی اپنے ناجائز بچے کی ذمہ داری قبول کرنے کی سکت نہیں رکھتا ہے۔

سیکورٹی فورسز کی حفاظت میں پاراچنار سے پشاور کی طرف طرف آنے والے نہتے مومنین، خواتین اور بچوں پر حملہ، کوئی نیا واقعہ نہیں بلکہ یہ تاریخ کا تسلسل ہے۔ یہ یزیدیت کی داستان ہے جسکا منشا ان کی بزدلی و کمزوری اور مومنین کا صبر و استقامت ہے۔

اس واقعے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، لیکن اصل سوال ریاست پاکستان اور اس کے سیکورٹی اداروں سے ہے، کہ کیا وہ واقعا ان تکفیریوں اور یزیدیوں کے مقابلے میں اتنے بے بس ہوئے ہیں؟ یا خدا نخواستہ کسی بد نیتی کا نتیجہ ہے؟

اگر ریاست واقعا اس قدر بے بس ہے تو پھر مومنین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ خود اپنی حفاظت کا انتظام کریں۔

اگر خدانخواستہ ریاستی اداروں کی کوئی بدنیتی ہے تو پھر ان سیکورٹی اداروں کی موجودگی اس راستے اور علاقے میں نہ صرف مفید نہیں بلکہ مضر ہے، لہذا ریاست پاکستان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس جنایت میں ملوث تمام کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچایے، نیز اس نالائق یا بد نیت فورس سے اس علاقے کو خالی کراکر پاکستان اور پاکستانیوں کے ساتھ مخلص کسی فورس کا وہاں تعینات کرے۔

آخر میں شیعہ قیادت سے بھی دست بستہ گزارش ہے کہ پاراچنار کے اس حساس مسئلے میں آپ متحد ہو جائیں،جس طرح ابھی کچھ دن پہلے آپ ایک سٹیج پر نظر آئے تھے۔

اللہ تعالٰی،شہداء پاراچنار کو کربلا کے شہداء کے ساتھ محشور فرمائے، لواحقین کو صبرجمیل عطا فرمائے اور مجروحین و زخمیوں کو شفای کامل و عاجل عطا فرمائے۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

5 − 1 =