سیاسیات- ترکی کے وزیر خارجہ “مولود چاووش اوغلو” نے مستقبل قریب میں انقرہ، ماسکو اور دمشق کے سربراہان مملکت کی ملاقات کی خبر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شام کے بحران کے حل کے لئے یہ ملاقات نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ ترک وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ابھی تک مذکورہ تینوں ممالک کے صدور کی ملاقات کا وقت مقرر نہیں ہوا، البتہ جنوری کا مہینہ اس ملاقات کے لئے بہت جلد ہے، اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مذکورہ ملاقات جنوری 2023ء میں ہوگی۔ چاووش اوغلو نے ترکی، شام اور روس کے وزرائے خارجہ کے درمیان حال ہی میں منعقد اجلاس کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ اجلاس شام میں قیام امن کے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہے اور اس سلسلے میں تینوں ممالک کے حکام کے درمیان آئندہ بھی روابط برقرار رہیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ ملاقات بہت مفید رہی۔ ترکی کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمارا ماننا ہے کہ دمشق کے حکام سے شام میں استحکام اور امن و سلامتی کے ضامن مذاکرات بہت اہم ہیں، کیونکہ یہی روابط شامی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نتیجہ خیز مذاکرات تک پہنچنے کا وسیلہ ہیں۔ واضح رہے کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان پندرہ دسمبر کو اپنے ایک سرکاری بیان میں کہہ چکے ہیں کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن ترکی، شام اور روس کے سربراہان مملکت کے درمیان ملاقات کی تجویز دے چکے ہیں۔ دوسری جانب روس کی وزارت دفاع نے گذشتہ روز اعلان کیا کہ روس، شام اور ترکی کے وزرائے دفاع نے شام کے بحران کے حل کے لیے ماسکو میں سہ فریقی مذاکرات کیے ہیں۔ اس ملاقات سے قبل ترک وزیر دفاع “خلوصی آکار” نے کہا کہ انقرہ شمالی شام میں دہشت گرد گروہوں کے خلاف اپنی ممکنہ زمینی کارروائیوں کے بارے میں ماسکو کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔ “خلوصی آکار” نے مزید کہا کہ ہم روس کے ساتھ فضائی حدود کھولنے سمیت تمام مسائل پر مذاکرات کر رہے ہیں۔
ترک وزیر دفاع نے کہا کہ کسی بھی فریق کو ترکی سے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیئے کہ وہ اپنی سرحدوں پر موجود دہشت گرد عناصر کو برداشت کرے گا، جن کی قیادت ایسے ممالک کر رہے ہیں، جو خطے کو عدم استحکام اور افراتفری میں ڈالنے کے درپے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خلوصی آکار نے یہ بیان دیتے ہوئے کسی ملک کا نام نہیں لیا۔ یاد رہے کہ 29 نومبر سے ترک فوج نے شام اور عراق کے شمالی علاقوں پر اپنے فضائی اور توپ خانے کے حملے تیز کر دیئے ہیں۔ ماضی قریب میں ترک صدر رجب طیب اردگان یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ انقرہ، شام پر زمینی کارروائی کرنے کے لئے غور کر رہا ہے۔ دوسری جانب دمشق نے ترکی کے ساتھ اس شرط پر مذاکرات کے لیے رضامندی ظاہر کی ہے کہ جب انقرہ شمالی شام کے زیر قبضہ علاقوں سے اپنے فوجی دستوں کو واپس بلائے۔