تحریر: سید اعجاز اصغر
پر آشوب دور حاضر میں انسان تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے، خاندانوں کے خاندان تباہ و برباد ہوتے جارہے ہیں، حسد بغض اور کینہ، خود غرضی ، نفسا نفسی اور منافقت کی بیماریاں اپنے عروج کے کمالات ظاہر کر چکی ہیں، ہر کوئی مذہب کے نام پر انسانیت کے تقدس کو پامال کر رہا ہے تو کوئی سیاست کے میدان میں اپنی اپنی حیثیت کا لوہا منوا رہا ہے، دولت اور اقتدار کی ہوس نے بے دردی اور بے رحمی کا رواج عام کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے، عالم کفر سے عالم اسلام تک ہر سوں بے رحمی، ظلم و ستم، قتل و غارت گری، ناانصافی کا بازار گرم ہے، مذہب ہو یا سیاست، خاندان ہو یا معاشرہ کوئی کسی کو تسلیم کرنے کے لئے آمادہ دکھائی نہیں دے رہا ہے، پوری انسانیت تباہی و بربادی کی دہلیز پر دستک دے رہی ہے، آخر وجہ کیا ہے ؟
نفسا نفسی اور مادیت پرستی سیاست کے میدان میں تو ندامت کے بغیر ہی روز اول سے چلتی آرہی ہے مگر انتہائی افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ اب مذہب میں بھی مادیت پرستی، انا پرستی، شہرت، اور تجارت کو فروغ مل چکا ہے، خاندانی سطح پر صبر و تحمل کی نفرت، حسد میں اضافہ ہو رہا ہے، مذہبی مذاکرات یا محافل میں پیار محبت اور رواداری کی بجائے نفرت اور تعصب کا کلچر عام ہونے کی وجہ انتہا پسندی اور شدت پسندی میں اضافہ کےاسباب بڑھتے جارہے ہیں،
واعظین حضرات اپنے اپنے مذاہب کے مطابق من پسند اور متعلقہ قرآن و حدیث کی خود ساختہ تاویلات اور تشریحات کی تبلیغ کر رہے ہیں اور سامعین حضرات بغیر سوچے سمجھے اور ذاتی تحقیق کے ایسے واعظین کی اندھا دھند تقلید کرتے جارہے ہیں،
ادب و احترام کے بجائے نفرت کا بیج تب بویا جاتا ہے جب انسان خود محقق نہ ہو، خود تمام مذاہب کے عقائد کا طالب علم نہ ہو، خود قرآن و حدیث سے آشنا نہ ہو،
جب ہم اپنے آپ کو قرآن مجید کے مطالعہ کو ترجمہ و تفسیر کے ساتھ منسلک کر لیں گے تو یقینا تمام مذہبی، سیاسی، خاندانی اور معاشرتی مسائل کا حل نکل آئے گا جیسا کہ سورہ بنی اسرائیل کی مندرجہ ذیل آیات میں اللّٰہ تبارک و تعالی نے فرمایا
وَ قُلۡ لِّعِبَادِیۡ یَقُوۡلُوا الَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ الشَّیۡطٰنَ یَنۡزَغُ بَیۡنَہُمۡ ؕ اِنَّ الشَّیۡطٰنَ کَانَ لِلۡاِنۡسَانِ عَدُوًّا مُّبِیۡنًا﴿۵۳﴾
رَبُّکُمۡ اَعۡلَمُ بِکُمۡ ؕ اِنۡ یَّشَاۡ یَرۡحَمۡکُمۡ اَوۡ اِنۡ یَّشَاۡ یُعَذِّبۡکُمۡ ؕ وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ عَلَیۡہِمۡ وَکِیۡلًا ﴿۵۴﴾
ترجمہ
سورہ بنی اسرائیل آیات 53 تا 54
۔ اور میرے بندوں سے کہدیجئے: وہ بات کرو جو بہترین ہو کیونکہ شیطان ان میں فساد ڈلواتا ہے، بتحقیق شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔
۔ تمہارا رب تمہارے حال سے زیادہ باخبر ہے، اگر وہ چاہے تو تم پر رحم کرے اور اگر چاہے تو تمہیں عذاب دے اور (اے رسول) ہم نے آپ کو ان کا ضامن بنا کر نہیں بھیجا۔
۔ خوش گفتاری کا اپنا اثر ہے۔ ایک مناسب اور برمحل جملہ انسان کی تقدیر بدل کر رکھ سکتا ہے اور ایک نامناسب جملہ ایک بڑے فساد کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ اچھی گفتگو سے محبت بڑھتی ہے اور بد کلامی سے دشمنی پیدا ہو جاتی ہے۔آیت کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان انسانوں میں بد کلامی کے ذریعے فساد کا بیج بوتا ہے۔
کسی کو گمراہ اور جہنمی قرار دینا یا کسی کو جنتی قرار دینا تمہارے دائرہ علم میں نہیں ہے۔ ممکن ہے جسے تم گمراہ سمجھتے ہو اس کا انجام ایمان پر ہو اور جسے تم بڑا مومن سمجھتے ہو اس کا انجام برا ہو، لہٰذا رحم اور عذاب اللہ کے علم اور مشیت کے ساتھ مربوط ہے۔
رَبُّکُمۡ اَعۡلَمُ بِکُمۡ : تفسیر صافی صفحہ نمبر 291 پر ہے کہ اس سے پہلے آیتوں میں جو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے کہ میرے مومن بندوں سے یہ بات کہہ دو کہ مشرکوں سے ایسی بات کہیں جو اچھی ہو، اور اس طرح خطاب نہ کریں کہ ان کو غیظ و غضب آجائے،
ایک قول کے مطابق یہ آیت اس کی تفسیر ہے یعنی یوں کہیں رَبُّکُمۡ اَعۡلَمُ بِکُمۡ۔ اور صراحتہ یہ نہ کہہ دیں کہ تم جہنمی ہو، کیونکہ اس طرح صراحت سے کہنا ان کو برائی پر آمادہ کر دے گا، اور ہر شخص کے انجام کا علم غیب میں داخل ہے، اور تم کو غیب کا علم نہیں دیا گیا،
مندرجہ بالا آیات قرآنی کے مطابق ہم سب مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ ہمیں اور بالخصوص واعظین کو اپنی زبانوں کو قابو میں رکھنا چاہئے، کسی دوسرے فرقے، یا انسان کی دل آزاری سے اجتناب کرنا چاہیے، انسان پر جتنی مصیبتیں نازل ہوتی ہیں اس کی زبان کی وجہ سے نازل ہوتی ہیں،
مولا علی علیہ الصلاةوالسلام نہج البلاغہ میں فرماتےہیں کہ گالی گلوچ سے دوری اختیار کرو، اللہ تعالٰی کو گالی گلوچ پسند نہیں، اور دلوں کے بخل و بغض سے پرہیز کرو، یہ تم سے پہلے والوں کی ہلاکت کا موجب قرار پایا ہے، اسی کی وجہ سے مردوں کے خون بہائے گئے ہیں اور اسی کی وجہ سے قطع رحمی ہوئی، اس سے پرہیز کرو ،
جب آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم پہلی دفعہ مدینہ پہنچے جہاں کے باشندوں کی اکثریت نے انھیں دعوت دی تھی اور ان کی حفاظت کا ذمہ لیا تھا تو وہاں یہودیوں کی ایک اقلیت بھی تھی جو دولت اور زمین کی ملکیت کے لحاظ سے خاصی باآثر تھی آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے ساتھ جس قسم کا معاہدہ کیا اس سے اسلام کی روح کا صحیح اندازہ ہو سکتا ہے، یہودیوں کو اپنے عقائد و اعمال کی پیروی کرنے اور اپنے طریقہ زندگی کو آزادی سے ادا کرنے کا مکمل حق تسلیم کیا گیا، اس کے ساتھ انھیں یہ یقین بھی دلایا گیا کہ اگر ان کے مقدمات آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش ہوئے تو ان کا فیصلہ ان کی اپنی شریعت اور قانون کے مطابق کیا جائے گا،
لہذا جب آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ رواداری کا ثبوت پیش کر چکے ہیں تو اگر ہم مذکورہ بالا آیات کی رو سے روگردانی کرتے ہیں تو جناب پیغمبر اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے وکیل اور ضامن نہیں ہونگے تو پھر ہمارا حال کیا ہوگا کہ جو آگ کھائے گا انگارے ہگے گا یعنی جو برے کام کرے گا اسے اس کا نتیجہ بھگتنا پڑے گا، لڑائی، جھگڑا، فساد تب ہوگا جب مطالعہ کا فقدان ہوگا،