سیاسیات۔ معروف انوسٹی گیٹیو جرنلسٹ باب ووڈورڈ نے اپنی تازہ کتاب “جنگ” میں کئی رازوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے 7 اکتوبر 2023 کے بعد امریکی وزیر خارجہ کی عرب رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں کی تفصیلات درج ہیں۔ “واٹرگیٹ اسکینڈل” کیوجہ سے شہرت پانے والے باب ووڈورڈ نے مقبوضہ فلسطین میں مزاحمتی تنظیم حماس کے آپریشن “طوفان الاقصیٰ” کے دوران غاصب صیہونی ریاست کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی خوف و ہراس کی حالت کو بیان کیا ہے۔ نیتن یاہو حزب اللہ کی ممکنہ جنگ میں شمولیت سے بہت زیادہ خوفزدہ تھے۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن کو جدید تاریخ کے اہم واقعات میں شمار کیا جاتا ہے، جس نے اسرائیلی دفاعی صلاحیتوں کا تاثر ختم کرتے ہوئے اسرائیلی فوج کے ناقابل شکست ہونے کے افسانے کو توڑ دیا۔ فلسطینی مزاحمت کے اس آپریشن کے بعد نیتن یاہو اور دیگر اسرائیلی رہنماؤں نے حماس کو مکمل طور پر ختم کرنے کا عزم ظاہر کیا اور غزہ اور فلسطینیوں پر حملے شروع کر دیے۔
یوکرین جنگ کے تذکرہ کے علاوہ غزہ وار کے متعلق وہ لکھتے ہین کہ اس خونریز جنگ کو شروع ہوئے ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، جس میں 42,000 سے زائد فلسطینیوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔ تاہم، اسرائیل نہ تو حماس کو ختم کر سکا اور نہ ہی اسے غزہ کے دلدل سے نکلنے کا راستہ ملا۔ اس کے برعکس، فلسطین کے زیرِقبضہ علاقوں میں شائع ہونے والے جرائد کے مطابق اسرائیل اس جنگ کے غیر یقینی نتائج کے ساتھ لبنان کے خلاف بھی جنگ میں الجھ چکا ہے۔ گزشتہ سال کے دوران، اس جنگ کے پس منظر اور اسرائیلی حکام کے اپنے امریکی ہم منصبوں سے ہونے والے مذاکرات پر بہت سی رپورٹس شائع ہو چکی ہیں۔ تاہم، اس موضوع پر تازہ ترین معلومات باب ووڈورڈ کی نئی کتاب “جنگ” میں موجود ہیں۔ یہ
مصر کی انٹیلی جنس ایجنسی نے حماس کی زیرزمین سرنگوں کے نقشے اور دیگر معلومات اسرائیل کے ساتھ شیئر کیں۔ تحقیقاتی صحافی ووڈورڈ کے مطابق، مصر کے انٹیلی جنس چیف عباس کامل نے امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات میں کہا کہ اسرائیل کو غزہ میں فوری اور مکمل طور پر داخل ہونے کے بجائے مرحلہ وار پیش قدمی کرنی چاہیے تاکہ حماس کے رہنماؤں کو تلاش کرکے انہیں نشانہ بنایا جا سکے۔
کتاب امریکی صدر جو بائیڈن کی حکومت کے پس پردہ معاملات پر روشنی ڈالتی ہے اور اس میں طوفان الاقصیٰ آپریشن اور اسرائیلی اور امریکی حکام کے خفیہ مذاکرات کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے۔
طوفان الاقصی اور امریکی حکام سے رابطے:
باب ووڈورڈ نے لکھا ہے کہ 7 اکتوبر کو بنیامین نیتن یاہو کے قریبی مشیر ران درمر، جو “بی بی کا دماغ” کے طور پر مشہور ہیں، یروشلم میں اپنے گھر میں موجود تھے۔ صبح تقریباً ساڑھے چھ بجے ان کے موبائل پر بار بار ایمرجنسی الرٹس آنے لگے، جن میں حماس کی جانب سے مقبوضہ علاقوں پر تین ہزار سے زائد راکٹ حملے کی وارننگ تھی۔ ووڈورڈ کے مطابق، اس روز یہودیوں کا مقدس دن یوم سبت تھا، جو آرام کا دن سمجھا جاتا ہے، مگر حماس کے اس غیر متوقع حملے کو دیکھ کر ران درمر فوری طور پر نیتن یاہو سے ملاقات کے لیے تل ابیب روانہ ہو گئے۔ تل ابیب کے وسط میں موجود حکومتی و فوجی مرکز کریا پہنچنے کے بعد انہیں زیرزمین پناہ گاہ میں منتقل کر دیا گیا۔ وہاں نیتن یاہو نے درمر کو بتایا کہ یہ حملہ جنگ کا اعلان ہے۔ دوسری جانب امریکہ میں صدر جو بائیڈن کے مشرق وسطیٰ کے مشیر برٹ مک گورک کو بھی حماس کے راکٹ حملوں کی اطلاع ملی۔
مگر ابتدا میں انہوں نے اسے کوئی خاص کارروائی نہیں سمجھا، کیونکہ اسرائیل پر راکٹ حملے ایک عام بات ہیں۔ لیکن بعد میں رات 12 بج کر 17 منٹ پر مک گورک کو اسرائیل کے امریکی سفیر مائیکل ہرزوگ کا پیغام ملا، جس میں کہا گیا تھا کہ حماس نے اسرائیل پر وسیع پیمانے پر راکٹ حملے کیے ہیں، جو کہ جنگ کا اعلان ہے۔ اس کے کچھ دیر بعد مک گورک کو ہرزوگ کی جانب سے ایک اور پیغام ملا جس میں لکھا تھا، “حماس نے غیر متوقع حملہ کیا ہے، اور اس حملے کو بغیر جواب کے نہیں چھوڑا جانا چاہیے۔ ہمیں آپ (امریکہ) کی واضح حمایت اور شدید مذمت کی ضرورت ہے۔”
متحدہ عرب امارات کے محمد بن زاید آل نہیان نے امریکی وزیر خارجہ سے کہا کہ جنگ کو اس وقت تک جاری رکھا جائے جب تک حماس کا مکمل خاتمہ نہ ہو جائے۔ انہوں نے حماس کے خلاف جنگ کے تسلسل پر زور دیتے ہوئے بلنکن کو یقین دلایا کہ “ہم اسرائیل کو وقت اور جگہ فراہم کر سکتے ہیں تاکہ وہ غزہ میں حماس کو جڑ سے ختم کر سکے۔”
بائیڈن کے مشیر مک گورک نے اس پیغام کے جواب میں کہا، “ہم آپ کے ساتھ ہیں۔”
انٹیلیجنس اور فوجی ناکامی:
ووڈورڈ اپنی کتاب میں طوفان الاقصیٰ کے ابتدائی گھنٹوں میں نیتن یاہو کی صورتِ حال پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ جب نیتن یاہو نے اپنی سیکیورٹی کابینہ سے ملاقات کی تو فوری طور پر حماس کے حملے کی پیش رفت سے متعلق رپورٹ طلب کی۔ نیتن یاہو کو ابتدائی وارننگ کے تین گھنٹے بعد اس حملے کی اطلاع ملی تھی، جو اسرائیل کے لیے ایک بڑی انٹیلی جنس اور عسکری ناکامی سمجھی جا رہی تھی۔ ووڈورڈ نے لکھا ہے کہ ران درمر نے کابینہ کے اراکین سے یہ سوال کیا کہ آخر کیوں کسی نے نیتن یاہو کو اس حملے سے بروقت آگاہ نہیں کیا، مگر کسی نے اس سوال کا جواب نہیں دیا۔
دوسری جانب امریکہ میں صدر جو بائیڈن نے اپنے قومی سلامتی کے مشیروں، جن میں جیک سلیوان (قومی سلامتی کے مشیر)، اینٹونی بلنکن (وزیر خارجہ)، لوئیڈ آسٹن (وزیر دفاع)، اور ولیم برنز (سربراہ سی آئی اے) شامل تھے، سے رابطہ کیا تاکہ اسرائیل میں ہونے والی پیش رفت کے بارے میں معلومات حاصل کر سکیں۔ بائیڈن نے فوری طور پر نیتن یاہو سے رابطہ قائم کرنے کی ہدایت دی اور کہا کہ حماس کی کارروائی کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی جانی چاہیے۔ ووڈورڈ کے مطابق، چند گھنٹوں بعد بائیڈن اور نیتن یاہو کے درمیان گفتگو ہوئی، جس میں نیتن یاہو نے بائیڈن کو یقین دلایا کہ اسرائیل حماس کے خلاف اس جنگ میں کامیاب ہوگا۔
حزبالله کے جنگ میں شامل ہونے کا خوف:
ووڈورڈ اپنی کتاب میں بائیڈن اور نیتن یاہو کے درمیان ہونے والی ٹیلیفونک گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس دوران نیتن یاہو کی توجہ حزبالله پر مرکوز تھی۔ نیتن یاہو نے بائیڈن
سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے امریکی وزیر خارجہ بلنکن سے ملاقات میں کہا کہ اسرائیل کو حماس پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے تھا۔ بن فرحان نے مزید کہا، “ہم نے نیتن یاہو کو بارہا حماس اور اخوان المسلمین جیسے دہشت گرد گروہوں کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ حماس نہ صرف اسرائیل کو ختم کرنا چاہتی ہے بلکہ عرب خطے کے حکمرانوں کو بھی گرانے کے درپے ہے۔”
سے کہا کہ فوری طور پر حزبالله کو پیغام دیا جائے کہ وہ جنگ میں شامل نہ ہو۔ نیتن یاہو نے بائیڈن پر زور دیا: “حزبالله کو یہ پیغام امریکہ کی طرف سے ملنا چاہیے کہ وہ جنگ میں شامل نہ ہو!” ووڈورڈ کے مطابق، نیتن یاہو اس کال کے دوران خوفزدہ اور حیران دکھائی دے رہے تھے، کیونکہ انہیں اندیشہ تھا کہ حزبالله شمال سے اسرائیل پر حملہ کر سکتا ہے۔ انہوں نے بائیڈن سے کہا، “وہ سمجھتے ہیں کہ ہم کمزور ہیں، مشرق وسطیٰ میں اگر تم کمزور ہو تو تمہیں مٹا دیا جاتا ہے۔”
اس کے بعد نیتن یاہو نے براہ راست امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان سے بھی رابطہ کیا اور ان سے درخواست کی: “جیک، ہم چاہتے ہیں کہ آپ حزبالله کو دھمکی دیں، ان کو بتائیں کہ اگر انہوں نے ہمارے ساتھ جنگ چھیڑی تو یہ سمجھا جائے گا کہ وہ امریکہ سے بھی برسرپیکار ہیں۔” ووڈورڈ نے بیان کیا کہ حزبالله دنیا کی سب سے طاقتور غیر ریاستی عسکری تنظیم ہے اور اس طاقت کا اثر اسرائیل پر گہرے خوف کی صورت میں نظر آ رہا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ نیتن یاہو کے لہجے سے سلیوان یہ سمجھ گئے تھے کہ اسرائیلی وزیراعظم کو اپنے ملک کی بقا کا خدشہ لاحق تھا۔ اسرائیل کی انٹیلی جنس اور عسکری برتری، جو اس کی دفاعی حکمت عملی کا بنیادی ستون تھی، اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی تھی، جس نے اسرائیل کی ڈیٹرنس پاور کو شدید نقصان پہنچایا تھا۔
امریکیوں کی طوفان الاقصیٰ آپریشن پر حیرت:
ووڈورڈ کے مطابق، طوفان الاقصیٰ آپریشن سے پہلے اسرائیلی حکام کا خیال تھا کہ حماس ختم ہو چکی ہے اور اس میں اسرائیل کے خلاف کسی بھی طرح کی کارروائی کرنے کی صلاحیت باقی نہیں رہی۔ تاہم، اس آپریشن کے بعد، اسرائیلی حکام دوبارہ حماس کو مکمل طور پر ختم کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں،
امریکی حکام کو اسرائیل اور حزبالله کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ پر تشویش لاحق تھی، لیکن وہ حماس کی جانب سے اسرائیل پر ممکنہ حملے کی بڑھتی ہوئی وارننگز پر توجہ نہیں دے رہے تھے۔
حالانکہ جنگ کو ایک سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے اور اسرائیل اب تک اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکا۔ ووڈورڈ نے اسرائیلی انٹیلی جنس کے اندازے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ حماس میں صرف تین افراد کو اسرائیل پر حملے کے منصوبے کا علم تھا۔ زیادہ تر حماس کے جنگجوؤں کو حملے کے آغاز تک یہ محسوس ہوتا رہا کہ وہ صرف ایک عسکری مشق میں حصہ لے رہے ہیں۔
ووڈورڈ نے اسرائیلی سفیر ہرزوگ کا بھی ذکر کیا، جس کے مطابق 7 اکتوبر کے حملے نے اسرائیلی عوام میں بقا کا خوف پیدا کر دیا تھا، جو 1973 کی جنگ کے بعد سے پہلے کبھی محسوس نہیں کیا گیا تھا۔ ہرزوگ نے کہا کہ جب تک حماس کو ختم نہ کر دیا جائے، اسرائیلی اپنی معمول کی زندگی کی طرف نہیں لوٹ سکتے، اور مزاحمتی قوتیں زیادہ طاقتور ہوتی رہیں گی۔ امریکی انٹیلی جنس بھی حماس کے اس حملے سے حیران تھی۔ امریکی حکام کو اسرائیل اور حزبالله کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ پر تشویش لاحق تھی، لیکن وہ حماس کی جانب سے اسرائیل پر ممکنہ حملے کی بڑھتی ہوئی وارننگز پر توجہ نہیں دے رہے تھے۔
عرب ممالک اور امریکہ کے خفیہ مذاکرات کا انکشاف:
باب ووڈورڈ نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز سے ہی عرب ممالک کے سربراہان غزہ میں جاری قتل و غارت اور نسل کشی پر خاموش رہے اور جنگ کے دوران ان ممالک نے امریکہ کے ساتھ خفیہ مذاکرات کیے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ کسی بھی عرب رہنما نے غزہ کے عوام کے مصائب کو ختم کرنے کے لیے اپنے اختیارات یا اثر و رسوخ کا استعمال نہیں کیا۔ ووڈورڈ کی کتاب “جنگ” میں عرب رہنماؤں اور امریکہ کے درمیان جنگ غزہ کے دوران ہونے والے ان خفیہ مذاکرات کا احوال بیان کیا گیا ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان مذاکرات میں غزہ کے حوالے سے حقیقی طور پر کوئی حل
اسرائیلی انٹیلی جنس کے اندازے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ حماس میں صرف تین افراد کو اسرائیل پر حملے کے منصوبے کا علم تھا۔ زیادہ تر حماس کے جنگجوؤں کو حملے کے آغاز تک یہ محسوس ہوتا رہا کہ وہ صرف ایک عسکری مشق میں حصہ لے رہے ہیں۔
تلاش کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔
1۔ اردن
باب ووڈورڈ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اردن کے بادشاہ عبداللہ دوم نے امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن سے ملاقات میں حماس کے بارے میں کہا کہ “حماس کو شکست دینا ضروری ہے۔ ہم نے اسرائیل کو حماس اور اخوان المسلمین کے خطرات سے خبردار کیا تھا۔ اسرائیل کو حماس کو شکست دینا چاہیے، لیکن میں اس بات کو عوامی سطح پر نہیں کہہ سکتا۔”
2۔ امارات
ووڈورڈ کے مطابق، متحدہ عرب امارات کے محمد بن زاید آل نہیان نے امریکی وزیر خارجہ سے کہا کہ جنگ کو اس وقت تک جاری رکھا جائے جب تک حماس کا مکمل خاتمہ نہ ہو جائے۔ انہوں نے حماس کے خلاف جنگ کے تسلسل پر زور دیتے ہوئے بلنکن کو یقین دلایا کہ “ہم اسرائیل کو وقت اور جگہ فراہم کر سکتے ہیں تاکہ وہ غزہ میں حماس کو جڑ سے ختم کر سکے۔”
3۔ عربستان
کتاب کے مطابق، سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے امریکی وزیر خارجہ بلنکن سے ملاقات میں کہا کہ اسرائیل کو حماس پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے تھا۔ بن فرحان نے مزید کہا، “ہم نے نیتن یاہو کو بارہا حماس اور اخوان المسلمین جیسے دہشت گرد گروہوں کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ حماس نہ صرف اسرائیل کو ختم کرنا چاہتی ہے بلکہ عرب خطے کے حکمرانوں کو بھی گرانے کے درپے ہے۔”
4۔ مصر
ووڈورڈ نے کتاب میں لکھا کہ مصر کی انٹیلی جنس ایجنسی نے حماس کی زیرزمین سرنگوں کے نقشے اور دیگر معلومات اسرائیل کے ساتھ شیئر کیں۔ تحقیقاتی صحافی ووڈورڈ کے مطابق، مصر کے انٹیلی جنس چیف عباس کامل نے امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات میں کہا کہ اسرائیل کو غزہ میں فوری اور مکمل طور پر داخل ہونے کے بجائے مرحلہ وار پیش قدمی کرنی چاہیے تاکہ حماس کے رہنماؤں کو تلاش کرکے انہیں نشانہ بنایا جا سکے۔