سیاسیات۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ امریکی انتخابات میں ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کا پلڑا بھاری دکھائی دے رہا ہے اور اگر ٹرمپ صدر منتخب ہوتے ہیں تو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور عمران خان کو فائدہ ہو سکتا ہے۔
مشاہد حسین سید نے غیر ملکی میڈیا سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’کامیابی کی صورت میں ڈونلڈ ٹرمپ، جان ایف کینیڈی کے بعد دوسرے امریکی صدر ہوں گے، جو امریکی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر صدر منتخب ہوں گے۔‘
امریکی انتخابات کے نتائج کے پاکستان پر ممکنہ اثرات سے متعلق مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ ہمیشہ سے امریکہ کی پالیسیاں جارحانہ رہی ہیں ، جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ اب کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑی جائی گی۔
’ڈونلڈ ٹرمپ واحد امریکی صدر تھے جنہوں نے افغانستان کی جنگ ہارنے کا اعتراف کیا اور اس کا ذمہ دار جرنیلوں کو ٹھہرایا۔ اس سے قبل کوئی بھی صدر یہ ہمت نہیں دکھا سکا تھا۔‘
پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما نے کہا کہ ’ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک اور اہم بیان دیا تھا کہ وہ روس کے صدر کو اپنا دشمن نہیں سمجھتے اور یوکرین کی جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
’اسی طرح انہوں نے کوریا کے حوالے سے بھی امریکی پالیسی کو نرم کرنے کا عندیہ دیا تھا۔‘
’ڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیر سے متعلق بھی بات کی ہے، جب عمران خان وزیر اعظم تھے۔ اس وقت انہوں نے آفر کی تھی کہ وہ مصالحتی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ نریندر مودی بھی اس کے حق میں ہیں۔‘
انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو دنیا میں عالمی امن کے لیے بہتر امریکی صدر قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان (ٹرمپ) کے صدر منتخب ہونے کی صورت میں امریکہ امن کے لیے اہم کردار ادا کرے گا۔
’واشنگٹن ایک مارکیٹ ہے، جہاں مختلف آئیڈیاز دیے جا سکتے ہیں، مؤثر سفارت کاری کے ذریعے آپ اگر بھرپور انداز میں اپنا مؤقف پیش کریں تو امریکہ اپنی پالیسی میں تبدیل بھی کر سکتا ہے۔ صرف اسلام آباد میں بیٹھے ان لوگوں کو پالیسی تیار کرنا چاہیے جو امریکی سسٹم کو سمجھتے ہوں۔‘
انہوں نے مزید کہا امریکی سسٹم میں واضح ہے کہ کچھ لو اور کچھ دو۔ لیکن پاکستانی غلطی کرتے ہوئے چھوٹی چیزوں پر بارگین کرتے ہیں، ملکی مفاد اور عوام کے مفاد کے لیے نہیں بلکہ اپنی کرسی بچانے اور اقتدار کو طول دینے کے لیے بات کرتے ہیں۔
’جنرل ضیاالحق اور ذوالفقار علی بھٹو نے امریکہ سے اچھی بارگیننگ کی تھی۔ یہ دونوں امریکن سسٹم کو سمجھتے تھے۔ ان کے علاوہ کوئی بھی امریکہ سے بارگین نہیں کر سکا۔‘
مشاہد حسین سید نے کہا کہ امریکہ اور چین سے تعلقات بنانا پاکستان کے مفاد میں ہے۔ ’ان دونوں میں سے کسی ایک کو نہیں چن سکتے، کیونکہ جو امریکہ ہمیں دے سکتا ہے وہ چین نہیں دے سکتا اور جو چین نے ہمیں دینا ہے امریکہ سے نہیں مل سکتا۔
’اس حوالے سے جنرل ایوب نے بہت اچھی بات کی تھی کہ اگر چین سے بگاڑ ہو گا تو ہمارا ملک ٹوٹتا ہے لیکن امریکہ سے بگاڑ سے ہماری معیشت ٹوٹتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس وقت پاکستان کی ترجیحات میں پہلے نمبر پر چین ہے کیونکہ اسلام آباد کو جب بھی کسی بھی چیز کی ضرورت ہو، اسلحہ، ہتھیار، پیسے، ہر موقع پر مکمل طور پر چین پاکستان کا ساتھ دیتا ہے، جب کہ امریکہ آئیں بائیں شائیں کرتا رہتا ہے۔‘
سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ’جب بھی کشمیر کی بات ہو، اقوام متحدہ میں کوئی معاملہ ہو یا کبھی بھی کسی مسئلے پر بات کرنی ہو تو چین ہماری آواز بنتا ہے۔ جب بھی پاکستان کسی معاملے پر چین سے سپورٹ مانگتا ہے تو وہ مکمل طور پر سامنے آ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چین ہماری ترجیح ہے۔‘
امریکی انتخابات پر مزید بات کرتے ہوئے مشاہد حسین سید نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ بلکہ کملا ہیرس کی پارٹی نے فلسطین میں اسرائیل کا بھرپور ساتھ دیا، جس کی وجہ سے مسلم کمیونٹی نے ان سے دوری اختیار کی اور ٹرمپ کی طرف راغب ہوئے۔
’ٹرمپ پاکستان میں سوائے عمران خان کے کسی کو نہیں جانتے، عمران خان سے ان کا ذاتی تعلق رہا ہے اور نرم گوشہ بھی رکھتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ جب حکومت میں آئے تھے تو انہوں نے پاکستان کو کال کی۔ ہم نے اس وقت غلطی یہ کی ساری گفتگو ٹی وی پر نشر کر دی، جس سے تعلقات تھوڑے خراب ہوئے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’لیکن جب عمران خان نے امریکہ کا دورہ کیا تو ٹرمپ نے بڑا والہانہ استقبال کیا اور ان کی اہلیہ نے بھی عمران خان کو بڑی عزت دی۔ سیلفی بھی لی اور پرائیویٹ کوارٹرز کا وزٹ بھی کروایا۔‘
مشاہد حسین سید نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر منتخب ہونے کی صورت میں پاکستان میں عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو فائدہ ہو گا۔‘
ملکی سیاست پر بات کرتے ہوئے سابق سینیٹر کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کا برا حال ہو چکا ہے۔ کوئی ایسی جماعت نہیں جس کا ایک پختہ نظریہ ہو۔ اس وقت ضرورت ہے کہ کچھ لوگ پل کا کردار ادا کریں اور ملک کو جوڑیں۔ عوام کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ملک کے مسائل کوئی ایک شخص، ایک جماعت یا ایک ادارہ اکیلے حل نہیں کر سکتا۔‘